جمہوری حکومتوں کا ایک بُنیادی
کام کمیٹیوں اور کمیشنز کی رپورٹس کے ذریعے رعایا یعنی عوام کو تفریح فراہم
کرنا بھی ہوتا ہے۔ زمینی حقائق خواہ کچھ ہوں، حکومتی حقائق کائنات کے
اُصولوں کی طرح ہوتے ہیں۔ یعنی
زمیں جُنبد، نہ جُنبد گل محمد
کے مصداق کبھی نہیں بدلتے۔ زمانے کی ہوا خواہ کسی سمت بہہ رہی ہو، حکومتی
ہوا اپنا رخ خود متعین کرتی ہے اور اُسی کے مطابق بہتی رہتی ہے۔ یہی حال
سرکاری رپورٹس کا بھی ہے۔ دنیا چاہے جتنی بھی بدل چکی ہو، سرکاری رپورٹس
میں سب کچھ جوں کا توں رہتا ہے۔ پورا ملک داؤ پر لگ گیا ہو تب بھی سرکاری
میڈیا ”سب ٹھیک ہے“ کا راگ الاپ رہے ہوتے ہیں۔ سرکاری رپورٹس کے مندرجات
اعلیٰ درجے کے مزاح کا درجہ رکھتے ہیں۔ سادہ لوحی اِن رپورٹس کے اعداد و
شمار پر ختم ہے۔ اب اگر اِس پر بھی کسی کو ہنسی نہ آئے تو اُسے کسی نفسیاتی
معالج سے رابطہ کرنا چاہیے!
بھارت کے مرکزی پلاننگ کمیشن نے حالات کے ستائے ہوئے انسانوں کو تفریح کا
سُنہرا موقع فراہم کرتے ہوئے یہ قرار دیا ہے کہ جو شخص دہلی اور ممبئی جیسے
بڑے شہروں میں روزانہ 32 روپے (کمانے اور) خرچ کرنے کی سکت رکھتا ہے اُسے
انتہائی غریب تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی یہ کہ پانچ افراد پر مشتمل جو
گھرانہ ہر ماہ 4824 روپے خرچ کرسکتا ہے وہ اپنے آپ کو ہرگز انتہائی غریب
تصور نہ کرے۔ مہنگائی کا جائزہ لینے کے لیے حکومت کی قائم کردہ تیندولکر
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں شاندار چوکے اور چھکے لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے
کہ شہروں اور دیہات میں بالترتیب 30 اور 20 روپے یومیہ کمانے والوں کو خطِ
افلاس سے نیچے نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ رائے 2004 اور 2005 کی قیمتوں کے تناظر
میں دی گئی ہے۔
آپ سوچیں گے کہ بھارتی حکومت کیوں اِس بات پر مُصِر ہے کہ لوگوں کو انتہائی
غریب کی کیٹیگری سے نکالا جائے۔ بات صرف اِتنی سی ہے کہ انتہائی غریب کی
کیٹیگری میں شامل لوگوں کو حکومت سَستا اناج اور ایندھن فراہم کرنے کی
پابند ہوتی ہے! اِس کیٹیگری میں جتنے کم لوگ ہوں گے، حکومت کا بوجھ اُتنا
ہی کم ہوگا۔ اِتنی سی بات ہے جو بھارتی حکومت سمجھانا چاہتی ہے مگر غریب
ایسے ستم ظریف ہیں کہ سمجھ ہی نہیں پا رہے!
ہمارے ہاں کبھی کبھی تھانوں کے درمیان قتل، ڈکیتی یا کسی اور سنگین وارادات
کے حوالے سے حدود کا قضیہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ہر تھانہ یہ کہتا ہے کہ وارادات
اُس کی حدود میں نہیں ہوئی۔ موقع پر لاش پڑی رہتی ہے اور پولیس ذمہ داری
قبول کرنے سے کتراتی رہتی ہے۔ کچھ کچھ یہی حال بھارت کے غریبوں کا بھی ہے۔
حکومت اُن کی ذمہ داری قبول کرنے سے کترا رہی ہے۔ اب اگر کوئی غریب دوا نہ
ملنے سے سڑک پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے یا شدید غربت کے باعث کرایہ ادا کرنے
کی پوزیشن میں نہ ہونے پر کسی بڑے پائپ میں یا فٹ پاتھ پر اہل خانہ کے ساتھ
پڑا رہے تو پڑا رہے، حکومت اُسے غریب ماننے کے لیے تیار نہیں۔ پلاننگ کمیشن
اور تیندولکر کمیٹی نے اپنی رپورٹس میں یہ نہیں بتایا کہ جو گھرانہ ماہانہ
4824 روپے کماتا ہے وہ اگر مکان کا کرایہ دے گا تو کھائے گا کہاں سے؟ کیا
اُس گھر میں راشن سونیا گاندھی ڈلوایا کریں گی؟
سپریم کورٹ کے استفسار پر بھارت کے مرکزی پلاننگ کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ
حفظان صحت کے لیے روزانہ ایک روپیہ خرچ کرنا کافی ہے! اِس بات کو حکمراں
جماعت کانگریس کے ایک ماہر اقتصادیات نے بھی لطیفہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے
ہیں کہ ایک روپے میں تو سر کے درد کی گولی بھی نہیں آتی۔ اِسے کہتے ہیں
ناسمجھی۔ سیدھی سی بات ہے کہ حفاظت اُس چیز کی کرنا پڑتی ہے جس کا کوئی
وجود ہو۔ جب غریب کے پاس صحت ہی نہیں تو حفظان صحت کے نام پر کیا جانے والا
خرچ فضول خرچی کے زُمرے ہی میں تو آئے گا! بھارت سرکار نے غریبوں کو حفظان
صحت کے لیے یومیہ ایک روپیہ خرچ کرنے کی تحریک بھی صرف عزتِ نفس برقرار
رکھنے کی خاطر دی ہے تاکہ وہ سینہ تان کر دُنیا کو بتاسکیں کہ حکومت اُن کی
صحت کا وجود تسلیم کر رہی ہے! اور جناب! سَر کا درد کوئی ایسی چیز نہیں جسے
دردِ سَر بنالیا جائے! ہوتا ہے تو ہوا کرے۔ ناز اُٹھائیے گا تو اور ہوگا۔
اچھا ہے کہ کوئی غریب سَر کے درد جیسی معمولی سی تکلیف کو مُنہ ہی نہ
لگائے۔
جو لوگ انڈین ڈراموں میں غیر حقیقت پسندانہ مناظر کا شِکوہ کرتے ہیں اب
اُنہیں اپنی رائے سے رجوع کرنا چاہیے۔ ہم نے انڈین ڈراموں میں بارہا دیکھا
ہے کہ ارب، بلکہ کھرب پتی گھرانے محض چند سو کروڑ کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں!
کوئی منہ پُھلائے بیٹھا ہے۔ ماں پوچھتی ہیں کیا بات ہے تو جواب ملتا ہے
”میں اپنے دوست کے چند مل کر تین سو کروڑ کی ڈیل کرنا چاہتا ہوں۔ مگر پاپا
پیسے نہیں دے رہے!“ یہ جملہ کچھ اِس طرح ادا کیا جاتا ہے جیسے پاپا سے پاکٹ
مَنی مانگی ہو! ہزار بارہ سو کروڑ کی تو جیسے کوئی اوقات ہی نہیں۔ کل تک
بھارت اور اور پاکستان سمیت کئی ممالک کے غریب ٹی وی ڈراموں میں ہزاروں
کروڑ کی باتیں سُن کر دِل مسوس کر رہ جایا کرتے تھے۔ مگر اِنہی ڈراموں کے
ذریعے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ جن کے بزنس ہزاروں کروڑ کے ہیں اُن گھرانوں کی
زندگی میں دِن کا چین ہے نہ رات کا آرام۔ کوئی ذرا غور سے دیکھے تو اندازہ
ہوگا کہ یہ ”امیر غریب“ کس قدر پریشان رہا کرتے ہیں۔ بھارت کے غریبوں کے
لیے بالواسطہ پیغام یہ ہے کہ بہت دولت پاکر بھی اِنسان کی زندگی میں کوئی
سُکھ پیدا نہیں ہوتا، لہٰذا دولت کا خیال دِل سے نکال دو اور اپنی غربت میں
مَست رہو۔ ذرا ذرا سی بات پر، معمولی سی بیماری کے علاج کے لیے ہسپتالوں
میں لاکھوں روپے خرچ کرنے والوں کو دیکھ کر غریبوں کو یقیناً سُکھ کا سانس
لینا چاہیے کہ سرکار کی مہربانی سے ان کے پاس صحت ہی نہیں جسے کوئی عارضہ
لاحق ہو! ایسے میں صحت کے نام پر جو کچھ بھی ہے اُسے برقرار رکھنے کے لیے
یومیہ صرف ایک روپیہ کافی ہے!
اگر لوگوں کو انتہائی غریب کے زُمرے میں رکھا جائے تو حکومت کو سَستا اناج،
گھی، تیل اور ایندھن (مٹی کا تیل، گیس وغیرہ) بھی دینا ہوگا۔ سَستا اناج
کھانے کو ملے گا تو غریب تگڑا ہوگا اور کسی بیماری کو مُنہ دینے کے قابل
بھی ہو پائے گا۔ اور جب سَستا ایندھن ملے گا تو ضائع بھی کرے گا اور کبھی
کبھی حالات سے تنگ آکر خود سوزی کا بھی سوچے گا۔ سَستا اناج اور ایندھن
فراہم کرنے سے بھارت سرکار کے گریز نے غریبوں کو کئی مشکلات سے بچالیا ہے! |