انسان سے انسان کی بے توقیری نمبر 5
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
(کیلکولیٹر کی تصویر گوگل سے لی گئی ہے) |
|
دوسرے انسانوں کو نیچا دکھانے کے انسانی روئیے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ آج دوسرے انسان کی براہِ راست بے قدری یا توہین کے بجائے انسان کی اپنی تخلیق کردہ اشیاء کی ایجادات کو زندگی کے روزمرہ معمولات میں متعارف کرنے سے اپنی انسان کی وقعت میں کمی آنے کا ذکر کریں گے۔ان ایجادات میں کیلکولیٹر، کمپیوٹر، روبوٹ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے پہلے کیلکولیٹر کی ایجادنے دنیابھر میں1970 کی دہائی کے دوران لاکھوں لوگوں کے ریاضی کے طریقے کو بدل دیا۔ انجینئرز نے سلائیڈ رولز کو ترک کر دیا، کاروباری لوگوں نے ڈیسک ٹاپ کیلکولیشن مشینیں چھوڑ دیں اور خریداروں نے سادہ ایڈنگ مشینوں اور ایڈرز کی جگہ لے لی۔ تکنیکی بے روزگاری کو ایک وسیع تر تصور کا حصہ سمجھا جاتا ہے جسے ساختی بے روزگاری کہا جاتا ہے۔ جب مزدوروں کو بچانے والی مشینیں پیداواری عمل میں متعارف کرائی جاتی ہیں تو ایک فرم مزدوروں سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے اور پہلے کی نسبت اتنی ہی مقدار میں سامان تیار کر سکتی ہے۔ اس لیے کچھ کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔اہم نقصانات یہ ہیں کہ کیلکولیٹروں پر زیادہ انحصار لوگوں کو ان پر انحصار کر سکتا ہے، حساب کتاب کے عمل کے علم کو محدود کر سکتا ہے اور اگر صارفین دستی طور پر حساب نہیں کر پاتے ہیں تو انہیں شرمندہ کر سکتا ہے۔ کیلکولیٹر، کمپیوٹر، روبوٹ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ایجاد سے ملازمتوں میں خاظر خواہ کمی نہ دیکھی گئی کیونکہ انسانی ذہن کی جگہ مشین نے ضرور لی مگر مشینیں بنانے والی صنعتوں میں ملازمت کے مواقعوں میں تیزی سے اضافہ ہؤا۔مشین کی ایجادپرانسان کی ذہانت کو پذیرائی ملنے کے ساتھ مشین پر دارومدار کے باعث انسان کی ذہانت بے توقیر ہوئی۔انسانی جسم کے ہر عضو کی خاصیت ہے کہ اس کو جتنا استعمال کیا جائے ، وہ بہتر سے بہتر کارکردگی دکھاتا ہے ، ذہن کے بجائے مشین کے ذریعےحساب کتاب کرنے سے انسانی ذہن کی یادداشت اور چُستی پر لازمی طور پر منفی اثر پڑا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ذہن کی یادداشت اور چُستی ہمیشہ اعلیٰ مقام پر قائم رکھے، آمین!
|