خیبرپختونخوا کے صحافیوں کے مالی مسائل: ایک نظرانداز شدہ بحران

خیبرپختونخوا، خصوصاً پشاور، جو مقامی اخبارات کا مرکز ہے، کے صحافی شدید مالی مسائل کا شکار ہیں۔ اپنے معاشرتی کردار کے باوجود، ان کی مشکلات پر متعلقہ حکام، جیسے کہ محکمہ محنت اور محکمہ اطلاعات، کوئی توجہ نہیں دیتے۔ اس غفلت کے نتیجے میں زیادہ تر صحافی مایوسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جن کے پاس مالی استحکام یا وقار حاصل کرنے کا کوئی واضح راستہ نہیں ہے۔

پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں صحافت کے شعبے سے وابستہ بہت سارے صحافیوں کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں، جو صرف 10,000 سے 20,000 روپے کے درمیان ہوتی ہیں۔ جنہیں لوگوں کو بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.حتیٰ کہ کئی دہائیوں تک اس پیشے میں رہنے کے باوجود، کچھ صحافی غربت کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ صرف وہی افراد اس حالت سے بچ سکتے ہیں جو سرکاری ملازمتوں سے ریٹائر ہو کر پنشن حاصل کر رہے ہیں یا اچھی تنخواہ والی پوزیشنوں پر فائز ہیں۔ باقی اکثریت اپنی زندگی کے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی مشکلات کا شکار ہے، ان کی مالی حالت مزدور کی اجرت سے بھی نیچے ہے۔

اس کے علاوہ، میڈیا مالکان اکثر اپنے ملازمین کو بڑھاپے کے فائدے یا سماجی تحفظ کے کسی بھی پروگرام میں شامل نہیں کرتے۔ حتی کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے کبھی اخبارات میں کام کرنے والے ملازمین کے اولڈ ایج بینفیٹ پروگرام کے حوالے سے مالکان سے پوچھنے کی ہمت تک نہیں کی .اس سے صحافیوں کو کسی قسم کا حفاظتی نظام دستیاب نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے انہیں اپنی عمر کے آخری حصے تک غیر یقینی حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔

صحافیوں کو مناسب تنخواہیں یقینی بنانے کے لیے ویج بورڈ ایوارڈز کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن ان پر عمل درآمد اب بھی ایک خواب ہے۔ محکمہ محنت اور محکمہ اطلاعات، جو ان ایوارڈز پر عمل درآمد یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں، صحافی برادری کی مشکلات پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ میڈیا تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جو مناسب تنخواہیں یا بروقت ادائیگی فراہم نہیں کرتیں۔ یہ لاپرواہی ایک اہم سوال اٹھاتی ہے: خیبرپختونخوا کے صحافیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کی ذمہ داری کون لے گا؟

صحافیوں کی مالی غیر یقینی حالت ان کے خاندانوں پر براہ راست اثر ڈالتی ہے۔ یہ تصور بھی ناقابلِ یقین ہے کہ جو افراد عوام کے لیے اہم مسائل اجاگر کرتے ہیں، وہ اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے قابل نہ ہوں۔ بہت سے صحافیوں کے لیے یہ مالی دباو¿ غربت اور مایوسی کے ایک شیطانی چکر کو جنم دیتا ہے۔ جو صحافی اس پیشے میں 30 یا اس سے زیادہ سال گزار چکے ہیں، وہ اپنے خدمت کے بدلے کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور انتہائی افسوسناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔جبکہ بعض صحافی بیرون ملک نکلنے کی چکر میں لگے رہتے ہیں تاکہ گھریلو اخراجات پورے کرسکے اسی وجہ سے بیرون ملک جانے والے بیشتر صحافی ٹیکسی ڈرائیوریا سیلز مین کی نوکری کو ترجیح دے رہے ہیں.

صوبے میں صحافت سے وابستہ افراد کیساتھ یہ سنگین مالی حالت نہ صرف انفرادی صحافیوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس پیشے کی سالمیت کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔ مناسب مالی معاونت کے بغیر، صحافی غیر اخلاقی طریقوں جیسے رشوت لینے یا پیڈ پروموشن میں ملوث ہونے کے لیے زیادہ کمزور ہو جاتے ہیں۔ یہ صحافت کی آزادی کو کمزور کرتا ہے اور جمہوریت کی نگہبانی میں اس کے کردار کو متاثر کرتا ہے۔

موجودہ حالات میں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:جس میں ویج بورڈ ایوارڈز کا سخت نفاذضروری ہے محکمہ محنت اور اطلاعات کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ تمام میڈیا تنظیمیں ان ایوارڈز کی پابندی کریں اور صحافیوں کو مناسب اور بروقت تنخواہیں فراہم کریں اسی طرح صحافیوں کے لیے سماجی تحفظکیلئےمیڈیا مالکان کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے ملازمین کو بڑھاپے کے فائدے اور دیگر سہولتیں فراہم کریں۔حکومتی معاونتضروری ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو صحافیوں کی مدد کے لیے فلاحی اسکیمیں اور مالی معاونت کے پروگرام قائم کرنے چاہئیں۔جوابدہی کے نظام کو بہتر بناتے ہوئے ان میڈیا تنظیموں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے جو اپنے ملازمین کا استحصال کرتی ہیں، اور ان پر جرمانے عائد کیے جائیں۔اسی طرح صحافیوں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے.

خیبرپختونخوا میں صحافی برادری ایک ایسے بحران کا شکار ہے جسے مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ کچھ صحافی، جو حکومتی پینشن یا اچھی تنخواہ والی پوزیشنوں پر ہیں، مالی طور پر مستحکم ہیں، اکثریت مزدوروں سے بھی کم اجرت پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اگر محکمہ محنت اور اطلاعات عمل کرنے میں ناکام رہے، اور میڈیا مالکان اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑتے رہے، تو صحافت کا پیشہ خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ تمام متعلقہ افراد آگے بڑھیں اور صحافیوں کی مالی حالت کو اس شدت اور سنجیدگی سے دیکھیں جس کی وہ مستحق ہیں۔ سچ بولنے والوں کو نظرانداز کرنا ایک معاشرے کے لیے بہت مہنگا سودا ہے، اور یہ قیمت کوئی کمیونٹی نہیں اٹھا سکتی۔

#kikxnow #mussarratullahjan #wages #journalist #community #issues #finince

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 657 Articles with 515801 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More