ساس بہو کا جھگڑا۔جیت کس کی؟
ہمارے معاشرے میں ساس بہو کی لڑائی ، نند بھاوج کی لڑائی ، دو سوکنوں کی
لڑائی وغیرہ معمول کی بات ہے۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو کہ جہاں یہ ازل سے
ابد تک کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔مگر ان تمام لڑائیوں میں جو مشہوری بغیر بینڈ
باجے گاجے، طوطنی اورڈگڈگی بجائے ساس بہو کی لڑائی کو ملی ایسی شہرت تو
شاید پانی پت کی لڑائی یا 1857 کی جنگِ آزادی کو بھی نہ ملی ہوگی۔ آجکل کی
ساس اور بہوووں میں اینٹ اور کتے کا ویر والا جھگڑا چلتا ہے اور دونوں ایک
دوسرے کو ایک پل بھی (نوے فیصد) قریب پھٹکانا گوارا نہیں کرتیں۔ وجہ جنریشن
گیپ یعنی ساس کو دقیانوس اور بہو کو نئے زمانے کی چیز کہا جاتا ہے۔تا ہم
ابھی بھی کچھ اچھے لوگ باقی ہیں اس جہاں میں ، تا ہم اکثریت ایویں ہی سی ہے۔
ہاں تو جناب ہم بات کر رہے ہیں ساس بہوکے پھڈے کی ! ساس بہو کا پھڈا کس بات
پر، کس وقت ، کس جگہ شروع ہوجائے، مری کے موسم اور ہمارے ملک کی طوائفوں
میں گھری سیاست کی طرح اسکا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ مثلا ایک ساس نے
اتفاق سے یا غلطی سے بہو سے پینے کا پانی مانگ لیا ، بہو جو پہلے ہی بہت سے
جھمیلوں میں پھنسی ، سٹار پلس کے ڈراموں اور فیشن کے خیالوں میں مگن تھی،
ٹکا سا جواب دے دیا کہ خو د اٹھ کر ڈھوک لو۔ اب آپ تصور کریں کہ بیچاری
اوور ویٹ بوڑھی ساس گھٹنوں کے درد کی مار ی، مزید چھ بیماریوں میں مبتلا
بھلا کہاں سے خود پانی لے کر پیتی۔ لو جی پھڈا شروع۔ پھڈا بھی ایسا کہ نہ
ختم ہونے ولا یعنی ہمارے مفاد پرست ، کمینے، سیاستدانوں کے جیسا نہیں کہ
جیب میں مال ختم تو رات کو تحفظات کا پھڈا شروع ہوا اور صبح لے دلا کر تمام
پھڈے اور تحفظات ختم او ر سب شیر شکر ۔ لو جناب! پہلے ساس صاحبہ نے حملہ
کیا کہ ؛؛ دیکھو تو آجکل کی بہووں کو ایک گلاس پانی کیا مانگ لیا کھانے کو
ایسے دوڑ پڑیں جیسے سمند ر لانے کو کہہ دیا ہو یا انکے ابا کی جائیداد میں
سے حصہ مانگ لیا ہو ۔ بلکل کام کی نہ کاج کی دشمن صرف میرے بیٹے کے مال کی،
وغیرہ وغیرہ۔تو جناب! کوئی طعنہ سنکر جواب نہ دینا ، درمیان میں ٹوکنا،
دوسرے کی بات پر درمیان میں قینچی چلا کر اپنی ٹانگ بیچ میں اڑانا عورت کی
فطری عادت سی ہوتی ہے۔ حسبِ توقع بہو کی طرف سے بمباری شروع ہوئی کہ ؛؛ ہاں
جی سارے گھر کے کام کاج تو جیسے فرشتے آکر کرتے ہیں نہ ۔ خود تو سارا دن
منہ میں پان چبڑ چبڑ کرکے سارا گھر لال پیلا کیے رکھتی ہو اوپر سے کام نہ
کرنے کے طعنے؛؛۔ ابھی ساس بہو کی یہ جنگ جاری ہی تھی کہ نند صاحبہ جو کہ
حسبِ معمول بازار کے دورے پر تھیں واپس آ دھمکیں اور اپنی ماں پر ظلم وستم
کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھ کر بازو ٹونگ کر اس جنگ میں شامل ہو گئیں۔ اب جناب بہو
ایک اوردشمن دو ۔ نند صاحبہ نے آتے ہی اپنی ماں پر ظلم و ستم کا رونا روتے
ہوئے شروع ہو گئیں اور دونوں ماں بیٹیوں نے مل کر ڈرون حملے شروع کر دیے کہ
؛؛ بھابی آپ کرتی ہی کیا ہیں سوائے سٹار پلس کے ڈرامے دیکھنے کے، اپنی اماں
، ابا، بہن بھائیوں وغیرہ سے گھنٹوں فون پر باتیں کرنے کے ۔ بہو نے نند کی
سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنے کارنامے اور زورو شور سے گنوانا شروع کر دیے کہ
؛؛ تینوں ٹائم میں ہی پکا پکا کر کھلاتی ہوں، سارے گھر کے کام کاج بھی میں
ہی کر تی ہوں ، تمہاری ساری بہنیں جب درجنوں بچوں سمیت وارد ہوتی ہیں تو
انکے اوجھ کے بوجھ بھی میں ہی کھلا کھلا کر بھرتی ہوں، تم تو اٹھتی ہی
دوپہر کو بارہ بجے ہو اور تمہارے نا شتے پانی، کچن کی صفائی بھی میں ہی کر
کے رکھتی ہوں، آنے جانے والے تمام مہمان بھی میرے ہی ہاتھوں سے بھگتائے
جاتے ہیں، یہ تمام کپڑے بھی میرے ہی دھلے پہنتی ہو، سمجھیں۔ تمہیں آتا ہی
کیا ہے سوائے باتیں بگھارنے ، سونے اور بازار کے چکروں کے ۔ نند صاحبہ کو
بھی ہوشیاری آئی کچن کے فرش سے چند استعمال شدو تیلیاں اٹھا لائی کہ ؛؛ یہ
ہے آپکی صفائی، سارا دن کچن میں گندے برتن پڑے سڑتے رہتے ہیں آپ کہتی ہو کہ
صفائی کر تی ہوں، اور وہ دیکھو وہ کل سے منے کے گندے پیمپراور ڈائپر اور
نیکریں واشنگ مشین پر پڑے ہیں، آپنے ھاتھ بھی نہیں لگایا، پھر کہتی ہیں کہ
میں صفائیاں کر تی ہوں۔ ڈرائنگ روم کی ٹیبل پر دیکھیں کتنی مٹی جمی ہے، چھی
چھی چھی۔ اور ذرا اپنے کمرے کا حال تو دیکھیں کہ اب تک صبح کے بستر تک سیٹ
نہیں ہوئے اور ایسا لگ رہے کہ جیسے کوئی سرائے یا ریلوے اسٹیشن ہو یا پھر
آپ سیلاب زدگان میں سے ہوں ۔ اوپر سے دوپہر ہونے کو ہے اور ابھی تک کچھ
پکانے کو بھی نہیں چڑھایا، لگتا ہے کہ دوپہر کا کھانا رات کو ہی ملیگا ۔
اسی دوران گھر میں شوروغل سنکر آس پڑوس اور محلے کی عورتوں نے اپنی اپنی
چھتوں پر مورچے گاڑ کر اس جنگ کی باقاعدہ مانیٹرنگ بھی شروع کردی تاکہ
استعمال شدہ ڈائیلاگ رٹ کر اپنی لڑائی میں کام میں لائیں۔مورچے لگتے دیکھ
کر تینوں موصوفاﺅں نے کچھ غیرت کا مظاہرے کرتے ہوئے عارضی جنگ بندی کا
اعلان کردیا۔
دن بھر کا تھکا ہارا میاں بے چارا ، قسمت کا مارا جب گھر میں داخل ہوا تو
ساس بہو اور نند کی نے لڑائی جہاں سے چھو ٹی تھی وہیں سے دوبارہ شروع ہو
گئی۔ پہلا حملہ پھر ساس صاحبہ کی طرف سے ہوا جب انہوں نے کلاشنکوف کا برسٹ
چلایا کہ؛؛ دیکھ لے بیٹا اپنی لاڈلی بیوی کو سارا دن کام شام کچھ نہیں کرتی
بس اسٹار پلس کے ڈرامے دیکھتی ہے اور چائے پیتی ہے، فون پر سہیلیوں اور گھر
والوں سے گپیں ہانکتی ہے، تیرے آتے ہی دکھاوے کے لیے کام شروع کر دیتی ہے۔
کیا بس اسی کام کے لیے لایا تھا تو اسے۔ پھر بہو کی طرف سے دستی بم آیا
کہ؛؛ یہ آپکی اماں جان سار ا دن پان چبڑ چبڑ کرتی ہیں، چارپائیاں توڑتی ہیں
، ا ٹھ کر پانی بھی نہیں پی سکتیں، مگر ایک گھر سے دوسرے گھر کانا پھونسیاں
کرنے کے لیے انکے گوڈوں اور گٹوں میں سر یا لگ جاتا ہے ۔ اب صبح سے دونوں
ماں بیٹیوں نے میرا جینا محال کیا ہوا ہے،اور پھر بات بڑھتے بڑھتے ہر بہو
کی طرح کا وہی پرانا تقاضا کہ گھر فورا الگ گھر لیکر دو ورنہ میں بمعہ بچوں
کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
ساس نے بڑی مثالیں د یں کہ ہمارے زمانے میں تو چھ چھ خاندان اکھٹے رہتے
تھے، ایک جگہ کھانا پکتا تھا، ایک جگہ کھاتے سوتے رہتے تھے، مگر آجکل کی
بہوویں تو اپنے ساتھ کسی چڑیا کو بھی برداشت نہیں کرتیں۔ تا ہم ساس کی
صلواتوں سے قطع نظر بہو کی صرف ایک ہی رٹ کہ بس الگ ہٹ اور ساتھ میں دہائی
کہ؛؛ اللہ ایسی ساس کسی بد نصیب دشمن ہی کو دے ، تاکہ کلیجے میں ٹھنڈ پڑی
رہے ؛؛ ۔ ساس صاحبہ بھی بھری بیٹھی تھیں اور میزائل داغ دیا کہ؛؛ اگر مجھے
پتہ ہوتا کہ تو اتنی بد تمیز، سڑیل، کام چور اور بد دماغ نکلے گی تو میں
کبھی اپنے بیٹے کو تیرا دولہا نہ بناتی اور نہ تمہیں مجھ سے مجھے تم سے
پالا پڑتا۔ بہو نے بھی جوا با میزائل داغا کہ ؛؛مجھے بھی آپ کے گھر آ کر
پھنسنے ، ایسی بد دماغ ، جاہل ، جھگڑالو، نک چڑھی ، بد تمیز ساس اور نندوں
سے ملنے کا بھی کوئی خاص شوق نہ تھا۔ یہ تو آپ کے بیٹے صاحب نے مجھے سر سبز
باغ دکھا کر، تعویذ گنڈے کرا کر، دن رات میرے ابا کے پاﺅں دبا کر اور آسمان
سے تارے توڑ کر لانے کے وعدے پر مجھے پھنسایا تھا۔ اور پھر ساسو ماں کا ایک
اور نیزا :؛ اے ہے تو تو اتنی بھولی تھی نہ کہ فیڈر بھی یہاں آکر چھوڑا ہے
تونے اور شاید دودھ کے دانت بھی نہیں گرے ہونگے تیرے، کلموہی، میرے معصوم
اور پاکباز بچے کو دفتر میں پھنسا کر اب اسکی گردن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے
پھندے میں جکڑ لی ہے۔
دو نہیں بلکہ تین سانڈوں کے بیچ پھنسا میاں بیچارہ آخر کار صبر کا پیمانہ
لبریز ہوتے بول ہی پڑا کہ بیگم تم اپنے بیوٹی پارلر کے اور اماں کے گھر
ٹیکسیوں میں آنے جانے کے اور دیگر فضول اخراجات کم کرو تو میں تمہارا کچھ
سوچوں ۔ اب تو تمہارے خرچوں نے یہ حال کر دیا ہے کہ آسمان کے تارے نہیں
بلکہ مارکیٹ کی دکانوں کے تالے توڑنے کی نوبت آ گئی ہے ۔ یہ سن کر تو بیگم
مزید آگ بگولا ہو گئیں اور دھویں والا بم مارا کہ ؛؛ اچھا !میرے خرچے کی ہر
چیز چبھتی ہے جناب کو۔ اپنی ماں صاحبہ کا دو درجن پان روزانہ کا خرچہ یاد
نہیں آپ کو اور وہ جو بہن صاحبہ کو ہر ماہ دسیوں سوٹ سلوا کر دیتے ہو، اور
اپنے بھانجے بھانجیوں، بھتیجے، بھتیجیوں پر جو پیسے پانی کی طرح لٹاتے ہو
وہ سب یاد نہیں، میرا ذرا سا خرچہ بہت یاد رہتا ہے آپکو۔ ساس صاحبہ اپنے
دفاع میں بولیں کہ ؛؛ میرے بیٹے کی کمائی ہے میں جیسے چاہے خرچ کروں تو
بیگم نے بھی تر کی بہ تر کی جواب دے ڈالا کہ پھر خوب پان کھا ئیے اور محلے
میں بھی بٹو ائیے تاکہ ثواب دارین بھی حاصل ہوتا رہے بلکہ ہوسکے توہر جمعہ
والے روز مسجد کے باہر بھی تقسیم کر وا دیا کریں، مزید ثواب ملے گا۔
اتنے میں سسر صاحب لاٹھی ٹیکتے اور کھانستے ہوئے وارد ہو ئے اور گرجدار
آواز میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے جنگ بند کرائی اور حکم دیا کہ کوئی کہیں نہیں
جائیگا بلکہ اس بڑھیا یعنی ساس صاحبہ کو کہیں نکالنے کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ
سننا تھا کہ ساس صاحبہ کا رخ بہو سے یکدم سسر صاحب کی جانب ہو گیا اور انکی
آپس میں تو تکار شروی ہوگئی۔ میاں بیچارہ ہکا بکا ہوکر یہ سب تماشہ دیکھ کر
کبھی جی تو کبھی مر رہا تھا۔ خیر جناب بمشکل تمام ، سسر صاحب نے ساس صاحبہ
کی اچھی طرح چھترول کر کراکر اس معاملے کو رفع دفع کرایا اور ساتھ میں الٹی
میٹم بھی دے دیا کہ اب اگر ساس صاحبہ نے بہو سے پھڈا کیا تو ساس کے پان
بلکل بند۔ ساس صاحبہ نے پان بند ہونے کا نام سنا تو گھگیا سی گئی اور فورا
پوتا پوتیوں کو پکڑ لیا کہ آجا میرے پپو، آجا میری گڑیا، آجا میرے لال، آجا
میرے چندا، میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گی ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سین دیکھ کر
میاں بیچارے نے بھی کچھ سکھ کا سانس لیا کہ چلو پان بند کرنے کی دھمکی کام
آ گئی اور گھر میں کچھ عرصہ تو سکون رہیگا۔ |