ہجرت کی بڑھتی لہر: "نوجوان ویزے کے پیچھے، آخر کیوں؟"


پاکستان میں ذہین اور ہنر مند افراد کی بیرون ملک ہجرت ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان اکنامک سروے 2023-2024 کے مطابق، سال 2023 میں 45,687 اعلیٰ ہنر مند افراد نے بیرون ملک ملازمت کے لیے ملک چھوڑا، جو 2022 کے مقابلے میں 119 فیصد زیادہ ہے۔ 2019 سے اگست 2024 تک تقریباً 3.27 ملین پاکستانی، یعنی کل آبادی کا 1.3 فیصد، بیرون ملک سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق، صرف 2024 میں 7,00,000 افراد ملک چھوڑ گئے، جبکہ 2023 میں یہ تعداد 811,469 تھی۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کے معاشی، سماجی، اور سیاسی حالات نے نوجوانوں کو اس قدر مایوس کر دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو چھوڑ کر بہتر مواقع کی تلاش میں نکل رہے ہیں۔

پاکستان کے نوجوانوں کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان کی وجوہات میں بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام، اور معاشی بدحالی سرِفہرست ہیں۔ ملک میں 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد میں بے روزگاری کی شرح 11.1 فیصد ہے، جو کہ تعلیمی نظام کی خامیوں اور حکومتی ناکامیوں کو ظاہر کرتی ہے۔ نوجوانوں کو محض ڈگری حاصل کرنے کے باوجود نوکری کے لیے سفارش اور رشوت کے نظام سے گزرنا پڑتا ہے، اور اگر وہ ناکام ہو جائیں تو ان کے پاس صرف دو راستے بچتے ہیں: یا تو وہ اپنے خوابوں کی قربانی دے کر کم تر ملازمتیں کریں، یا ملک چھوڑ کر بیرون ملک قسمت آزمائیں۔

ملک کے حالات دن بدن افغانستان، شام، اور برما سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے چند شہروں کو چھوڑ کر باقی پورا ملک کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں روزانہ ڈکیتی کی وارداتیں عام ہیں، اور جب ایسا کوئی واقعہ نہ ہو تو وہ دن خاص سمجھا جاتا ہے۔ نوجوان روز اپنے سی وی کی فوٹو کاپیاں کروا کر نوکری کے لیے بھٹکتے ہیں، اور ان کے والدین سرکاری امداد کی لائنوں میں اپنی عزتِ نفس کھو دیتے ہیں۔ گاؤں میں بارش کے بعد گھر پانی میں بہہ جاتے ہیں کیونکہ وڈیروں اور سرداروں کے کھیتوں میں پانی نہ آئے۔ ایسے حالات میں، نوجوانوں کے لیے ویزا ایک ضرورت بن چکا ہے۔

پاکستان کے حکومتی نظام کی کمزوریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ حکمران اپنی انا کی جنگ چھوڑ کر عوام کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے افطار پارٹیوں، عید کی منڈیوں، اور سوشل میڈیا پر مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔ مقدس ادارے جیسے پارلیمنٹ میں ذاتی پسند کے قوانین پاس کیے جا رہے ہیں، اور آئین میں ترمیم سیاسی مخالفین کو شکست دینے کے لیے کی جا رہی ہے۔

اسی طرح فوج، جو ریاست کی حفاظت کا بنیادی ادارہ ہے، بھی اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ ریٹائرڈ جنرلز سرکاری محکموں کے سربراہ بن جاتے ہیں، مختلف اداروں کے چیئرمین اور ڈائریکٹرز کے عہدے سنبھال لیتے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی اکثر مایوس کن رہتی ہے۔ ان عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود اداروں کی کارکردگی میں کوئی بہتری نہیں آتی، بلکہ سفارش اور اقربا پروری کے کلچر کو فروغ ملتا ہے۔ ایسے میں عام عوام، خاص طور پر نوجوان، حکومتی اور فوجی اشرافیہ کی نااہلی کا شکار ہو کر اپنی صلاحیتوں کو بیرون ملک استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

جب مذہبی آزادی نہ ہو، انتہا پسندی عروج پر ہو، اور قبائلی جنگ جاری ہو تو نوجوانوں کے لیے اس ملک میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ تعلیمی یافتہ اور شعور مند افراد کی قدر نہ ہونے سے وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں حکومتی وزراء کبھی نوجوانوں کو چھولے اور انڈے بیچنے کا مشورہ دیتے ہیں، کبھی برش کرنے کے طریقے سکھاتے ہیں، لیکن پالیسیاں بنانے کی ضرورت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ نوجوانوں کو صرف پارٹی کے جھنڈے لگانے اور نعرے بازی میں الجھا دیا گیا ہے۔ ان کی مایوسی اس وقت عروج پر پہنچ جاتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ سفارش کے بغیر سرکاری اداروں میں کوئی کام نہیں ہوتا، اور حکمران خود عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے اقتدار کی جنگ میں مصروف رہتے ہیں۔

یہ سب عوامل ایک ہی نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہیں: پاکستان کے نوجوان بیرون ملک بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں۔ اگر ان مسائل کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو پاکستان کے حالات مزید بگڑ جائیں گے، اور وہ دن دور نہیں جب یہ ملک ترقی کے بجائے پسماندگی کی علامت بن جائے گا۔ حکمرانوں اور اداروں کو چاہیے کہ نوجوانوں کے لیے قابلِ عمل پالیسیاں بنائیں اور ان کے مسائل کو حل کریں، ورنہ دماغی ہجرت پاکستان کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان بن جائے گی۔

 

Faizan Shafiq Jamali
About the Author: Faizan Shafiq Jamali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.