سہ ماہی ’’فیضانِ ادب‘‘: میر تقی میرؔ نمبر : ایک تاثر


ڈاکٹر فیضان حیدر کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ’’فیضان ادب ‘‘ میر تقی میرؔ نمبر ، اپریل تا ستمبر 2024منظر عام پر آچکا ہے۔ ڈاکٹر فیضان حیدر، سی ۔ ایم ۔ کالج، دربھنگہ کے شعبۂ اردو میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
رسالہ ’’فیضان ادب ‘‘ جلد :9، شمارہ :2-3(اپریل تا ستمبر 2024ء) 600صفحات پر محیط ہے۔ اس کے اداریہ میں مدیر ڈاکٹر فیضان حیدر لکھتے ہیں کہ ان دنوں ہمارے سماج اور معاشرے کے حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ اس سماجی اور معاشرتی بے چینی کا شکار میں بھی ہوں۔ یہ اضطرابی کیفیت مجھے بھی سخت بے چین اور مضطرب کیے دیتی ہے۔ ہمارے سماج او رمعاشرے کا ہر فرد خود کو صراط مستقیم پر گام زن تصور کرتا ہے اور دوسرے اسلامی فرقے کو کافر قرار دیتا ہے ۔
رسالہ کا پہلا مضمون ’’دیوان میرؔ‘‘ مرتبہ پروفیسر اکبر حیدر ی‘‘ کے عنوان سے ہے جسے پروفیسر نسیم احمد (سابق صدر شعبۂ اردو، بنارس ہندو یونیورسٹی ) نے تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’دیوان میر‘ مرتبہ ڈاکٹر اکبر حیدری کے دونوں ایڈیشنوں کا مطالعہ بہ نظر غائر کیا اور اور ا س نتیجے پر پہنچا کہ یہ نسخے نہ تو تدوین کے سائنسی اصولوں کے مطابق مرتب ہوئے ہیں ، نہ ہی ان کا انداز محض مخطوطے کو نقل کرنے کا ہی ہے، بالفاظ دیگر ان کی ترتیب میں تحقیقی اصول و ضوابط کی باضابطہ پیروی نہیں کی گئی ہے، مرتب نے کہیں املا میں تبدیلی کر دی ہے اور کہیں قدیم املا کو برقرار رکھا ہے ۔ بعض مقامات پر غلطیوں کی نشاندہی کرکے ان کی تصحیح کر دی ہے۔ لیکن بیشتر متنی تسامحات اور غلطیاں دیوان میں جوں کی توں موجود ہیں۔
ڈاکٹر محمود احمد کاوش اپنے مضمون ’’میر تقی میر کا غیر مطبوعہ دیوان ہفتم ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میر تقی میر کا شمار اردو کے زندہ شاعروں میں ہوتا ہے ۔ ان کی وفات کو دو صدیوں سے زیادہ کا زمانہ گزر چکا ہے ، مگر آج بھی ان کا کلام ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ ہر دور میں ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے میرؔ کے اس قول پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے ، جس میں انہوں دعویٰ کیا تھا کہ :
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
محمد باقر حسین (اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اردو ، گورنمنٹ کالج ٹونک، راجستھان) ’’فرہنگ کلیات میرؔ : اہمیت و افادیت‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ شاعر بے نظیر میر تقی میرؔ کے سیاسی، سماجی ماحول، سوانحی کوائف ، لسانی تشکیل ، شخصیت و سیرت، مختلف شعری خصوصیات اور زبان و بیان و اسلوب پر تحقیقی اور تنقیدی مطالعے عہد میر سے لے کر عہد حاضر تک جاری ہیں۔ مطالعات میرؔ سے متعلق یہ تمام تحقیقی اور تنقید ی امور نئے انکشافات کے ذریعہ میر فہمی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں ۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر فرید احمد برکاتی کا تحقیقی مقالہ فرہنگ کلیات میر منفرد حیثیت کا حامل ہے۔
ریحان عباس رضوی اپنے مضمون ’’سوز و گداز کا شاعر : میر تقی میرؔ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میرؔکے اشعار سو ز و گداز اور درد کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ ان کے اشعار قاری کے دلوں پر نہ صرف اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ دل میں جگہ بھی بنالیتے ہیں ۔ دراصل شاعری کا اصل معیار کلام کی تاثر میں نظر آتا ہے اور اس معیار پر نہ صرف میرؔ پورے اترتے ہیں بلکہ ان کا مرتبہ اردو شعرا کی صف میں سب سے اعلیٰ پایا جاتا ہے۔
’’میرؔ: اخلاقی قدروں اور انسانی عظمتوں کا شاعر‘‘ کے عنوان سے پروفیسر جاوید حیات (سابق صدر شعبۂ اردو ، پٹنہ یونیورسٹی ، پٹنہ ) لکھتے ہیں کہ میرؔکی شاعری میں جذبات کی گہرائی اور شدت نمایاں ہے۔ وہ انسانی جذبات و احساسات کو بڑے فنکارانہ انداز میں بیان کرتے ہیں ، جس سے قاری ان کی شاعری میں خود بخود محو ہوجاتا ہے۔ ان کی غزلیں روانی، سادگی اور اثر پذیری کی وجہ سے منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان کے اشعار میں زبان کی لطافت اور سلاست نمایاں ہے۔
ڈاکٹر سیدہ بانو (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، آرٹس اینڈ سائنس کالج فار ویمن ، بڈگام، سری نگر) ، میر تقی میرؔ کی شاعری کا جائزہ اکیسویں صدی کے تناظر میں لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرؔ اردو کے ایسے لافانی شاعر تھے جن کی استادی آج تک تسلیم کی جاتی ہے اور آئندہ بھی کی جاتی رہے گی۔ انہوں نے زندگی میں بے پناہ مسائل کا سامنا کیا۔ طویل عمر گزاری ، زندگی میں دنیا کے سرد و گرم دیکھے۔ دلی کا انتشار بھرا ماحول اور لکھنؤ کی پر تکلف فضا کا گہرائی سے مطالعہ کیا یہی مطالعہ اور مشاہدہ ان کی شاعری کا محور ہے۔
محمد رضا اظہری (شعبۂ فارسی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) ’’میرؔ فارسی تذکروں کے آئینے میں‘‘ لکھتے ہیں کہ میر ؔکی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہر دور میں کیا گیا ہے ۔ کلام میر کی معنویت آج بھی تسلیم کی جارہی ہے ۔ تمام تذکرہ نویس میرؔ کو اردو کا خدائے سخن تسلیم کرتے ہیں اور ان کی رفعت و منزلت سے کسی طرح انکار نہیں کر سکتے ۔
سلطان آزاد (پٹولین ، گلزار باغ ، پٹنہ سیٹی ) ایک معروف قلمکار ہیں۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کے مضامین معتبر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ’’میرؔ کی شاعری : محورِ حزن و یاس‘‘ کے عنوان سے موصوف لکھتے ہیں کہ اردو زبان وادب کے عظیم المرتبت شعرا کی صف میں میر تقی میرؔ کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے جسے ہر دور میں تسلیم کیا جارہا ہے ۔ میرتقی میرؔ ان شخصیتوں میں ایک تھے جو ہمہ تن شعر وشاعری میں ڈوبے ہوئے تھے۔ شاعری ان کی زندگی کا جز و تھی۔میرؔ کی ذہانت اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی حسیت کافی تیز تھی۔
ڈاکٹر شفیع الرحمن (شعبۂ اردو مٹیا برج کالج، کولکاتا) ’’میر تقی میرؔ : سماجی شعور اور عصری آگہی کا شاعر ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ میرؔ کا دل عوام و خواص کے لیے دھڑکتا ہے ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاعر ہو یا ادیب وہ بھی اسی زمین، اسی سماج میں اپنی زندگی جیتا ہے۔ وہ بھی اپنی ضروریات زندگی اسی سماج یا معاشرے سے حاصل کرتا ہے۔ شعراء و ادبا دوسروں کی بہ نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ میرؔنے اپنی غزلوں میں زندگی اور آلام زندگی کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر ارشد جمیل (لکچرر اردو ڈائٹ ، مہاراج گنج ، یوپی) ، میرؔ کی شاعری میں صوفیانہ عناصر تلاشنے کی کوشش کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ میرؔ کی شاعری کے فکری عناصر میں متصوفانہ رنگ خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔ ان کے باپ اور چچا صوفیانہ مزاج کے مالک تھے اور را ت دن جذب و مستی کی کیفیات میں سرشار رہتے تھے ۔ میرؔ نے ان بزرگوں کی آنکھیں دیکھی تھیں ۔ اس لئے ان کی غزلوں میں ایسے اشعار چمکتے ہوئے ملتے ہیں جو رنگ تصوف میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر محمد شہنواز عالم (اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اردو اسلام پور کالج ، اسلام پور، مغربی بنگال) میرؔ کی غزلوں کی فکری معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرؔ کے نظریۂ حیات اور فن میں ایک معیاری سنجیدگی اور ندرت ہے۔ ان کے اشعار وجد کرنے پرکم اور اپنی داخلیت کی تفہیم پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ میرؔ نے اپنی فرح ناکی کے باعث ایسی بہت سی باتیں کی ہیں جن کی بناپر ہم ایک خوش مزاج انسان سے واقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرؔ کو پڑھتے وقت ہمیں اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی باتیں قول محال بن کر ذہن کو بصیرت عطا کرتی ہیں۔
’’میرؔ کی غزل گوئی کی خصوصیات‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد الیاس انصاری لکھتے ہیں کہ میر تقی میرؔ غزل کے بادشاہ تھے اور غزل جو اردو شاعری کی ابتدا اور آبرو بھی ہے اور انتہا بھی۔ اس لیے اگر میرؔ کو بادشاہ سخن کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگاکیوں کہ 18ویں صدی کے بحرانی دور میں جہاں نہ صرف ہندوستانی سیاست کی بساط الٹی بلکہ تہذیب کا رنگ بدل گیا اور نوع انساں کو خود نوع انساں کا شکاری بنادیا گیا ۔
رسالہ ’’فیضان ادب‘‘ کے مدیر ڈاکٹر فیضان حیدر (استاد شعبۂ اردو و فارسی، سی۔ایم کالج ، دربھنگہ ) میر تقی میر کی مرثیہ گوئی سے بحث کرتے ہوئے اپنی تحریر رقم کرتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ میرؔ نے اپنے مرثیوں میں واقعہ کربلا کے تئیں اپنے درد و غم کے ساتھ امام حسین سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے واقعہ کربلا کے کرداروں خصوصاً امام حسین کی بے کسی اور ان پر توڑے گئے ظلم و جبر و بربریت کے پہاڑ کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے اشعار میں جو غم و الم کی کیفیت اور اثر انگریزی ہے وہ قابل لحاظ ہے۔
’’میرؔ کی فارسی رباعیات میں اخلاقی و حکیمانہ افکار ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر ناہید مرزا (استاد شعبۂ فارسی، ملت کالج، دربھنگہ) لکھتی ہیں کہ میرؔ کے فارسی دیوان میں تقریباً 104رباعیات ہیں۔ انہوں نے اردو کی مانند فارسی میں بھی کم و بیش تمام مضامین ادا کیے ہیں ۔ عرفانی، اخلاقی ، حکیمانہ ، عشقیہ ، فراق و ہجر ، سوز و گداز سب کو قلم بند کیا ہے۔ اور ہر موضوع کو بہترین انداز میں ادا کیا ہے۔
طفیل احمد مصباحی (شوبھن پور، کٹوریہ ، بانکا ، بہار) میر تقی میر کی منقبت نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میر تقی میر نے منقبت بھی لکھا۔ ان کے منقبت کے بعض اشعار ایمان سوز ہوتے ہیں۔ ان کے والد محمد علی، شیخ کلیم اﷲ اکبر آبادی کے مرید تھے۔ خود میرؔ شروع سے اﷲ والوں کی صحبت و رفاقت میں روز و شب گزارا کرتے اور ان کے آستانوں پر حاضری کو باعث سعادت سمجھتے تھے۔ تصوف ان کی خمیر میں شامل تھا۔
میر تقی میرؔ کا تذکرہ ’’نکات الشعراء‘‘ اردو تذکرہ نویسی کی پہلی کڑی کہاجاسکتا ہے یعنی اب تک کے دستیاب شدہ تذکروں میں میرؔ کے اسی تذکرے یعنی ’’نکات الشعراء‘‘ کو شرف اولیت حاصل ہے۔ یہ تذکرہ تاریخی ، ادبی اور تنقیدی تینوں ہی اعتبار سے خصوصی توجہ اور اہمیت کا حامل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ’’نکات الشعرا ‘‘ کی روشنی میں ڈاکٹر نیلوفر حفیظ (استا د شعبۂ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی ، پریاگ راج نے ایک عمدہ تاثر پیش کیا ہے۔
’’شہر لکھنؤ او رکلام میرؔ: فارسی حوالوں سے‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر زہرہ خاتون (اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ فارسی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی ) لکھتی ہیں کہ میرؔ کی فارسی شاعری زبان و بیان، تخیل کی بلند پروازی، معنی آفرینی اور نازک خیالی کے اعتبار سے اپنا ایک خاص اسلو ب رکھتی ہے۔ ان کی ہر دل عزیزی اور عظمت کا راز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دل پر گزرنے والی باتوں کو بول چال کے سیدھے سادے انداز میں بیان کر دیا، جس کو ہر قاری نے محسوس کیا گویا وہ اسی کا معاملہ ہو۔
علی اصغر (جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی ) ، ’’دہلی : میر تقی میرؔ کی فارسی شاعری میں‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ دہلی کے حوالے سے میرؔ نے نکات الشعرا، فیض میرؔ اور ذکر میرؔ میں اچھا خاص مواد اکٹھا کیا ہے۔ ان کتابوں میں زیادہ تر سماجی اور تاریخی نوعیت کے واقعات ہیں۔ دہلی میرؔ کا پسندیدہ شہر ہے۔ وہ اگرچہ اکبر آباد میں پیدا ہوئے لیکن دہلی ان کی زندگی کا اہم حصہ بنی۔
پروفیسر ندیم احمد (شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی ، کولکاتا) ’’میرؔ، فاروقی اور شعر شور انگیز‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شعریات کے ا ن اصولوں کو حاصل کرنے اور میرؔ کے کلام کو اس روشنی میں جانچنے کی خواہش نے فاروقی صاحب سے وہ کتاب لکھوائی جس کا مفصل تجزیہ اس چھوٹے سے مضمون میں نہیں سما سکتا۔ پھر بھی اب تک کی گفتگو کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شعر شور انگیز ایک لازوال تنقیدی کارنامہ ہے اور اپنی اشاعت کے بعد تنقید میرؔ کا واحد معیار بھی ۔
’’اردو تذکروں میں میرؔ شناسی کی روایت‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر خالد رضا صدیقی (شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ ) لکھتے ہیں کہ میر تقی میرؔ کے دواوین کے علاوہ نکات الشعرا اور ذکر میرؔ ، میرؔ فہمی کے بنیادی حوالے ہیں۔ یہ اسلوب چاہے خود ستائی یا تعلی پر مبنی ہے تاہم تنقید و تحسین کے اعتبار سے قابل اعتنا ہے۔ ادبی تذکروں میں میرؔ شناسی کے صرف ابتدائی نقوش پائے جاتے ہیں کیوں کہ یہ تذکرے ایک روایت کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
’’میرؔ شناسی کے ابتدائی نقوش‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر منور حسین (اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، خواجہ معین الدین لنگویج یونیورسٹی، لکھنؤ) لکھتے ہیں کہ انسان اپنی شخصیت اور فن کا خود بھی نقاد ہوتا ہے ۔ کسی انسان کی اپنے متعلق رائے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ میرؔ شناسی کی ابتدا بھی میرؔ کی اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے ۔ انہوں نے اپنی شخصیت اور شاعری کے متعلق جو رائے دی ہے ، اس سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان تنقیدی اشاروں کو بالکل نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔
ان مضامین کے علاوہ خشونت سنگھ کے ناول ’’دلی‘‘ سے انتخاب و ترجمہ شامل ہے ۔ یہ ترجمہ ڈاکٹر ذاکر حسین (شانتی نگر، دسنت پشپا اسکول، ضلع دیوریا ، یوپی) نے کیا ہے۔ ’’میر تقی میرؔ: ببلیو گرافی‘‘ محمد عطاء اﷲ (شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی ، پٹنہ ) نے یکجا کی ہے۔ رسالہ کے آخر میں چند کتابوں مثلاً ’’مٹھی بھر خطوط‘‘ (میرے نام۔ ڈاکٹر شکیل احمد) ، ’’شاہ مقبول احمد کے فکری جہات‘‘ (ڈاکٹر شفیع الرحمن ) پر تبصرے شامل ہیں۔
اس ضخیم رسالہ ’’فیضا ن ادب‘‘ جو 600صفحات پر مشتمل ہے کے تمام مضامین کا احاطہ کرنا ایک چھوٹے سے مضمون میں ممکن نہیں تھا۔ اس لئے یہاں چند مضامین سے بحث کی گئی ہے۔ اتنے عمدہ مضامین کو یکجا کر اتنا ضخیم رسالہ ’’میر تقی میرؔ نمبر‘‘ کے شکل میں شائع کرنے کے لئے ڈاکٹر فیضان حیدر کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
٭٭٭

Dr. Ahsan Alam
About the Author: Dr. Ahsan Alam Read More Articles by Dr. Ahsan Alam: 14 Articles with 13933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.