دسمبربیت گیا۔ یہ مہینہ بھی بڑا عجب ہے۔دہائیوں پہلے جو
چوٹ لگی ہو ، جو زخم کھایا ہو یا کوئی حادثہ ہوا ہو۔ ان سب بھولی بسری
یادوں کو، ان ساری فراموش چوٹوں کو اور سب انجان حادثوں کو ہرا ہراکر دیتا
ہے۔ میں نے اسلام آباد یونیورسٹی میں، جو اب قائداعظم یونیورسٹی ہے،
اکتوبر1971 میں داخلہ لیا۔گھر سے چلتے وقت میری ماں نے بڑے اہتمام سے مجھے
رخصت کیا۔ لاہور کی سردی میں ہم جو رضاعی لیتے تھے اس میں ساڑھے تین یا چار
کلو روئی ہوتی تھی۔ اب اسلام آباد جانا تھا اور شنید تھا کہ وہاں زیادہ
سردی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس سردی سے بچنے کے لئے فیصلہ ہوا کہ رضائی میں چھ
کلو روئی ڈالی جائے کہ بچہ سردی سے محفوظ رہے۔ بھلا ہو اس پینجے کاکہ اس نے
پانچ کلو پر قناعت کرنے کا مشورہ دیا، جی ہاں پینجا روئی دھننے والے کو
کہتے ہیں۔ وہ رضائی یونیورسٹی کے ہوسٹل میں بغیر وجہ سے مشہور ہو گئی۔ ان
دنوں بہت سے بنگالی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ دو تین بنگالی ایسے تھے جو آتے ِ
دیکھتے کہ اوپر والے طرف شنیل کا بڑا ملائم کپڑا بڑی چمک دمک سے لگا ہے تو
میرے بستر میں لیٹ کر رضائی الٹی لے لیتے۔ میں کہتا کہ بھائی سردی سے بچنا
ہے تو کاٹن والی سائیڈ نیچے رکھو تو کہتے کیوں۔ ہم سردی سے بچنے نہیں ،
رضائی کا مزا لینے کے لئے لیٹے ہیں ۔
دسمبر میں بھارت اور پاکستان کی جنگ شروع ہو گئی۔ ہمیں مجبوری میں یہ جنگ
یونیورسٹی کے ہوسٹل اور اس کے باہر سنگلاخ میدان ہی میں لڑنا پڑی۔ پہلے دن
ہی یونیورسٹی والوں نے ہوسٹل کے گرد زمین میں خندقیں کھدوا دیں کہ خطرے کی
صورت میں ہم پناہ لے سکیں۔ شاید دوسرا دن تھا کہ جب رات کو ساڑھے نو بجے
سائرن بجا۔ سب لوگ خندقوں کو بھاگے لیکن بھاگتے بھاگتے دوسروں کی دروازے
کھٹکھٹاتے، انہیں خندق میں پہنچنے کا کہتے ہوئے خندق تک پہنچے۔ تھوڑی دیر
میں ہر شخص خندق میں موجود تھا۔ بعض زندہ دل ایسے بھی تھے جو بمعہ مکمل
بستر کے خندق میں موجود تھے ا نہوں نے آرام سے وہیں بستر بچھا یا اور سو
گئے ۔ خطرہ ٹلا تو سب واپس آ گئے مگر بستر والے اٹھنے کو تیار نہ تھے۔ وہ
وہیں خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ صبح چوکیدار نے اٹھایا تو پوچھنے لگے،
ـ’’جہاز لنگ گئے نیں‘‘۔ (مطلب یہ کہ رات جو انڈیا کے جہازآئے تھے، وہ چلے
گئے ہیں)؟ چوکیدار نے ہنس کر کہا،’’جہاز تے راتی لنگ گئے سن، ہون تے سورج
وی لنگ گیا اے‘‘۔(یعنی وہ جہاز تو رات ہی کو گزر گئے تھے، اب تو سورج بھی
گزر گیا ہے) چنانچہ صبح دس بجے کے بعد وہ بستر اٹھائے اپنے کمروں کو لوٹے۔
میں ریاضی کے شعبے میں تھا۔ ہمارے ایک بہت اچھے، انتہائی شفیق اور سادہ منش
استاد ڈاکٹر محمد حسین ہوتے تھے۔ انہیں سردی بہت لگتی تھی۔ دسمبر میں انہیں
نے کہنا کہ آؤ دھوپ میں بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔اب بھلا دھوپ اور ریاضی کا کوئی
میل، کوئی ساتھ۔ مگر وہ دھوپ میں کتاب پکڑتے ، ایک سوال یا کوئی تھیورم
پڑھتے اور پھر بتاتے کہ اسے اس طرح حل کرنا ہے ۔ پہلے یہ کرنا ہے، پھر یہ
اور پھر یہ ۔ وہ سب سمجھا جاتے اور پھر بڑے یقین سے کہتے، امید ہے سب کو
سمجھ آ گئی ہو گی۔ مگر بورڈ کے بغیر سمجھ کیسے آسکتی تھی۔ مگر سب ہاں کہتے
اور انکی کلاس کے بعداتنی جلدی بھاگتے جیسے کوئی پرندہ قید سے آزاد ہو کر
بھاگتا ہے۔بعد میں نوٹس مل جاتے تو کام چل جاتا۔سردیوں میں یونیورسٹی میں
کرکٹ کا انٹر ڈیپاٹمنٹل مقابلہ بھی ہوتا۔ڈاکٹر محمڈ حسین ریاضی کی ٹیم کے
مستقل ممبر تھے۔ کمال کھیلتے تھے۔ ہم سب دعا کرتے کہ محمد حسین صاحب کم از
کم دو اوورز کھیل جائیں۔گیند جیسے مرضی آئے وہ پورے زور سے اسے واپس اچھال
دیتے۔ہر دفعہ چوکا یا چھکا، اس سے کم پر وہ قناعت نہیں کرتے تھے کیونکہ
بھاگ نہیں سکتے تھے۔ مگرآؤٹ بھی جلدی ہو جاتے تھے۔ہمیں خطرہ بہت ہوتا کہ وہ
ابھی آؤٹ ہوئے۔چنانچہ جس دن ان کا بلا چل جاتا ہم واضع مارجن سے جیت جاتے ،
نہ چلتا تو ٹیم کو جیت کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی۔لیکن چانسز بہت کم ہو
جاتے۔
ایک دن ڈاکٹر صاحب کی کلاس ہو رہی تھی۔ دو مختلف کلاسوں کے طالب علم وہاں
موجود تھے۔ کلاس روم میں بڑی خاموشی تھی اور سارے سٹوڈنٹس بڑی توجہ سے
ڈاکٹر صاحب کا لیکچر سن رہے تھے، سوائے ہمارے ایک جونیئر کے جو مزے سے سو
رہا تھا۔ وہ جونیئر ہمارا ایک مرحوم دوست تھا۔ لمبی لمبی زلفیں، بڑی بڑی
مونچھیں ، چھوٹا قد، نام ہی کا نہیں وہ عملی انقلابی تھا۔ کسی دوست کے ساتھ
جا رہا ہوتا تو سامنے سے اس کے مخالف جو اسے پیٹنے کے لئے چار دن سے اسے
ڈھونڈھ رہے تھے ، نظر آ جاتے تو انقلابی نے اسے پلٹ کر بھاگنے نہ دینا بلکہ
نعرہ لگانا، بھائی ڈرنے کی کوئی بات نہیں ، ہم دو ان کے لئے کافی ہیں ۔
میرے ہوتے تمہیں پرواہ نہیں ہونی چائیے۔ وہ آگے بڑھتا اور خوب مار کھاتا۔
اس دوران انقلابی بھاگ کر ہوسٹل پہنچ جاتا اور اس کے دوستوں کو اس کی مدد
کے لئے بھیج رہا ہوتا۔بعد میں جب وہ مار کھانے والا گلا کرتا تو انقلابی
سادگی سے کہتا، بھائی کمک بھیج دی تھی اور میں کیا کر سکتا تھا، مار تو کھا
نہیں سکتا۔تو وہ انقلابی اس وقت کلاس میں سو رہا تھا۔ اس کے ہلکے ہلکے
خراٹوں کی آواز بھی پورے کلاس روم میں سنائی دے رہی تھی۔ڈاکٹر صاحب اس دن
ایک خاص طرح کی دو درجی مساوات پر لیکچر دے رہے تھے۔ اسے سوتا دیکھ کر اس
کے پاس پہنچے ، دوسرے لڑکوں نے اسے اٹھایا تو ڈاکٹر صاحب غصے سے بولے ،بتاؤ
وہ سامنے جو مساوات میں نے لکھی ہے وہ کیسی ہے، جواب تھا دو درجی۔ مگر سونے
والا متوجہ ہی نہیں تھا وہ اس کا جواب کیا جانے۔ کہنے لگا کہ سر کیا پوچھا
ہے۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی غصے سے بولے ، میں پوچھ رہا ہوں کہ وہ سامنے والی
مساوات کیسی ہے۔انقلابی صاحب مسکرائے ، پہلے سر ہلایا، پھر بولے، سر بہت
خوبصورت ہے ماشا اﷲ۔ ساری کلاس ہنس پڑی اور ڈاکٹر صاحب بھی مسکراتے ہوئے
اپنی جگہ واپس آ گئے۔
سوچتا ہوں کیا خوبصورت دن تھے ، ایک ایک واقعہ یاد آتا ہے ، ہر روز اک نئی
خوشی، اک نیا ہیجان، اک نئی مسرت، کوئی دن کسی یادگار واقعے سے خالی نہیں
ہوتا تھا۔ آج انسان اس کے بارے سوچتا ہے تو کبھی ہنستا ہے اور کبھی اداس
ہوتا ہے۔ وہ خوبصورت دور جو بیت گیا، اب کبھی واپس نہیں آ سکتا۔وہاں ہر سال
نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں ، نئے پھول مسکاتے ہیں ، نئے نئے لوگ آتے ہیں اور
ہر سال پرانے لوگ اپنی طالب علمی کے اس آ خری دور کو ختم کرتے ہوئے ، حسین
اور خوبصورت یادوں کا بوجھ لئے ، ز ندگی کے مشقت بھرے پرآلام راستوں میں
کھو جاتے ہیں۔
|