ادب اطفال، نو آموز قلم کار اورتحقیق

ادب اطفال، نو آموز قلم کار اورتحقیق


ذوالفقا رعلی بخاری

ایک طویل جمود کے بعدادب اطفال میں نئے لکھنے والے بڑی تعدادمیں دکھائی دے رہے ہیں۔کئی اُن سے خفا ہیں تو بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے اُنھیں سراہنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اورپھر یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اُن سے زیادہ اور کوئی نوجوانوں کو حوصلہ نہیں دے رہا ہے۔

نئے لوگ کسی شعبے میں آتے ہیں تو اُس کی وجہ سے نت نئے رجحانات بھی جنم لیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کئی احباب ایسے ہوتے ہیں جو خائف ہو جاتے ہیں کہ ہمارے دورمیں شہرت کا حصول بڑی محنت کے بعد ہوتا تھا اورآج کے نو آموز لکھاری راتوں رات مقبول ہو جاتے ہیں اور مختصر سے عرصے میں سرحد پار بھی پہنچ جاتے ہیں۔نئے لکھنے والوں کا المیہ ہے کہ جب وہ لکھنا شروع کرتے ہیں تو پہلے پہل اُنھیں کوئی سراہنے کو تیار نہیں ہوتا ہے،کہانی رسائل میں بھیج دی جائے تواُنھیں یہ آگاہ نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ کب تک شائع ہو گی۔
اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں یہ تبدیلی تو آچکی ہے کہ تحریر کی اشاعت کے بارے میں آگاہ کر دیا جاتا ہے۔لیکن کہانیوں کی نوک پلک درست کرنے والے یہ آگاہ نہیں کرتے ہیں کہ کہانیوں کو بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے۔جن اخبارات اوررسائل کے مدیران سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں صرف وہی ادیبوں کو بہتر بنانے میں مصروف عمل ہیں۔یہ المیہ ہے کہ خواتین لکھاریوں کی رہنمائی روز اول سے ہوتی ہے لیکن نو عمر بچے اِس سے محروم رہتے ہیں اورآپ اِس کا اندازہ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ماضی میں کتنے لکھنے والے کم عمری میں لکھتے تھے اورآج اُن میں سے کتنے ناموری حاصل کر چکے ہیں۔

ہمارے ہاں کبھی اِس حوالے سے تحقیق نہیں ہوئی ہے کہ لکھنے والوں کو کتنا معاوضہ دیا جا رہا ہے،اُنھیں تربیت دی جا رہی ہے، اُنھیں کتنا وقت مطالعے کے لیے میسر ہے،اُنھیں کتنے ادیب سراہنے یا بہتر بنانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔کتنے نامور ادیب نئے صاحب کتاب بننے والوں کی کتب خریدتے ہیں اورحوصلہ بڑھاتے ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ نئے لکھنے والوں کی غلطی کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے اُنھوں نے گناہ کبیرہ کر دیا ہے۔ حالاں کہ ماضی کا ادب اطفال جس پر بڑا فخر کیا جاتا ہے۔ اُس میں کچھ ایسا مواد لکھا گیا اورشائع کیا گیا جس پر انگلی اُٹھائی جا سکتی ہے اوروہ نوآموز قلم کاروں کی تخلیقات بھی نہیں ہیں۔لیکن تحقیق کرنے والے کچھ باتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں تاکہ اُنھیں زیادہ مسائل کا شکار نہ ہونا پڑے۔دوسری طرف وہ ایسے معاملات میں الجھنا زیادہ پسند کرتے ہیں جس سے سستی شہر ت حاصل ہو سکے، اگرچہ سب ایسا نہیں کرتے ہیں لیکن ایسا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک موصوف کی دو نظموں کے حوالے سے اعتراض اُٹھایا گیا کہ وہ کسی اورکی تھیں جسے اپنے نام سے شائع کروالیا گیا۔کسی دوسرے کی تخلیق کو اپنے نام سے شائع کروانا کوئی نیا عمل نہیں ہے،یہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ایک صاحب کتاب نے راقم السطور کو تلخ واقعہ سنایا کہ کیسے اُن کی تحریر ہتھیائی گئی اوراُنھوں نے ادب سے کنارہ کشی کرلی۔کیا ماضی کے اُن ادیب کے بارے میں کوئی محقق کھل کر لکھنے کی گستاخی کرے گا؟ راقم السطور نے کئی مرتبہ رسائل میں چوری کرنے والوں کو”بلیک لسٹ“ ہوتے دیکھا ہے۔ یہ اصولی اورقانونی اعتبار سے کسی رسالے، اخبار یا ویب سائٹ کی ذمے داری ہوتی ہے کہ مذکورہ فرد یعنی چورسے باز پرس کرے۔اورثبوت ملنے پر اُس کی تحریریں شائع کرنا روک دے۔ لیکن کسی تحقیق کرنے والے فرد یا محقق یا ادیب کویہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ سرعام سوشل میڈیا پر
کسی کی غلطی کو یوں پیش کرے کہ اُس کی اصلاح سے زیادہ تذلیل ہو۔
تحقیق ایک سنجیدہ نوعیت کاکام ہے جسے تحریری صورت میں منظرعام پر آنا چاہیے اوراِس کے لیے بہترین فورم ویب سائٹس، اخبارات اوررسائل ہیں جن پر مضامین پیش ہونے چاہئیں۔سوشل میڈیا پر پیش کیے جانے والے دلائل اورمنطق کو کسی تحقیقی مقالے کاحوالہ نہیں بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر معلومات پیش کرنے سے کوئی فرد تحقیق نگار بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہونے لگے تو ہر دوسرا فرد جو ادبی یا غیر ادبی معلومات اورحقائق پیش کرے گا،وہ تحقیق نگار قرار پائے گا۔

ادبی حوالے سے تحقیق کو معیاری جرائد میں شائع ہونا چاہیے اوراُسے بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جانا بھی ضروری ہے۔یہی دیکھ لیجیے کہ ایک معروف رسالے پر ہونے والا تحقیقی مقالہ اعتراض کا شکار ہوا تو اُس پر ماسوائے ایک کالم نویس کے کسی اورنے کچھ لکھنے کی زحمت نہیں کی۔ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ دورحاضر میں ادب اطفال پر تحقیق کرنے والے بھی جانبداری کا شکار ہو چکے ہیں،اپنی ساکھ مجروح کر رہے ہیں اورملک کی بدنامی کا سبب بھی بن رہے ہیں کہ تحقیق کرنے والوں کا رویہ کیسا ہے کہ جہاں کچھ غلط صاف دکھائی دے وہاں خاموشی اختیار کرلی جائے،خرابی کو بصورت تحقیقی مضمون بنانے سے گریز کیا جائے اورایک فرد کی محض دو نظموں کو سوشل میڈیا کی زینت بنا کر اُسے بطورحوالہ کسی مضمون کی صورت میں ریکار پر نہ لایا جائے کہ مستقبل میں اسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

قصہ مختصر،بچوں کے ادب سے وابستہ نئے لکھنے والوں کو محتاط روی اختیار کرنی چاہیے تاکہ کسی ایک کی غلطی کی وجہ سے دیگر ادیبوں پر انگلی نہ اُٹھے۔نئے ادیبو ں کو تحقیق کے میدان میں اترنا چاہیے تاکہ جو کام ماضی میں نہیں کیا جا سکا ہے، وہ دورحاضر میں ہو سکے۔تحقیق کے میدان میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ اِس کے بغیر ادب اطفال کے فروغ میں حائل رکاوٹیں دورنہیں ہو سکیں گی اورنہ ہی ماضی و حال کے بہترین و قابل اعتراض مواد کی نشاندہی ہو سکے گی اورنہ سراہا جا سکے گا۔اِس حوالے سے ”اطفال تحقیق نمبر“ گزشتہ ستر برسوں کے ادب پر مبنی ہو جو کہ دس دس سالوں کا احاطہ کرے کہ کس نوعیت کا کام رسائل اوراخبارات کی زینت بنا ہے۔اُس مواد کی خوبیوں اورخامیوں کو اجاگر کیا جائے۔جب کہ گزشتہ چار برسوں پر مبنی خاص شمارہ مرتب کیا جائے تاکہ دورحاضر کے ادیبوں کی تخلیقات کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کیا جا سکے تاکہ آج کے بچوں کے لیے معیاری تخلیقات سامنے لانے کی راہیں ہموار ہو سکیں اورلکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
،ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 395 Articles with 531953 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More