سانحہ8اکتوبر2005ماتم کدہ سے تعمیر کدہ تک کا سفر؟

تاریخ میں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو گزر جاتے ہیں دن مہینے سال ایسے لمحات کو اپنے اندر سما لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ نا قابل فراموش بن جاتے ہیں۔ انسانی ذہن میں اس طرح نقش کر جاتے ہیں کہ انسان ان کو بھولنا چاہے بھی تو نہیں بھول سکتا ہے۔ ایک ایسا ہی ناقابل فراموش دن8اکتوبر2005ءکا ہے۔ یہ وہ بد قسمت دن تھا جس دن ہزاروں مائیں اپنے لخت جگر کو علم کی پیاس بجھانے کےلئے درسگاہوں میں بھیج کر آج تک ان کی واپسی کی منتظر ہیں لیکن اب ان کی واپسی ناممکن بن چکی ہے ۔ کئی گھر اپنی جنت سے محروم ہوگئے ہیں ۔ کئی گھر اجڑ گئے کئی خاندان مٹ گئے ۔

8اکتوبر2005ءکا زلزلہ اس قدر تباہ کن تھا کہ اس نے ایک پل میں ہی (70,000)سترہزار سے زائد انسانوں کو موت کی وادی میں سلا دیا آزادکشمیر کا ہر گھر ماتم کدہ بن گیا۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی تھی جہاں اس شدید ترین زلزلہ نے جانی نقصان کیا وہاں ہی مالی نقصان کاباعث بنا۔ رہائشی گھروں کے علاوہ سرکاری املاک، سکول، ہسپتال لمحوں میں زمین بوس ہوگئے۔ 8اکتوبر2005ءکے تباہ کن زلزلے میں کچھ علاقوں میں اموات کی تعداد زیادہ جب کہ ان کو تدفین کرنے والوں کی تعداد کم تھی کئی چاہنے والوں نے اپنے پیاروں کو بغیر کفن کے ہی دفنا دیا اور کرتے بھی کیا ہر طرف عجب افراتفری کا سماں تھا اور مایوسی و تباہی کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔

8اکتوبر2005ءکے زلزلے میں بہت ساری قیمتی جانیں زیاں ہوئیں لیکن ناقابل تلافی تقصان تعلیمی اداروں میں ہوا۔ جہاں وطن عزیزکے مستقبل کے پاسبان قوم کے نونہال علم کی پیاس بجھانے کی جستجومیں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ تاریخ کے مورخین نے اسی لیے کہا کہ اس عظیم سانحے کے بعد ملک پا کستان پچاس سال پیچھے چلا گیا ہے۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کی نوجوان نسل پر ہوتا ہے اور پھراگر علم کی جستجو میں مگن، ڈاکٹر بننے کے خواب انجینئر بننے کے خواب اور ملک کی بے لوث خدمت کے خواب بکھر جائیں تو اس کو پوری قوم کا نا قابل نقصان ہی کہا جائے گا۔

زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں زندہ بچ جانے والے انسانوں کو اب اسی دنیا میں زندگی کے آثار معدوم نظر آرہے تھے۔ ہر طرف مایوسی نظر آرہی تھی متاثرہ لوگ سوچ رہے تھے کہ اب ان کا پُر سان حال کوئی نہیں ہوگا۔ لیکن اچانک ہی یہ کیا ہوگیا جس نے پوری دنیا میں ہل چل مچا کر رکھ دی۔ جی ہاں یہ پاکستانی قوم کا جذبہ خدمت انسانی و ایثار تھا۔ آزادکشمیر و بالا کوٹ کی وہ روڈیں جو سنسان ہوچکی تھیں یکدم گاڑیوں کی آمدورفت سے بلاک ہوکر رہ گئیں۔ اسی کی وجہ یہ تھی کہ جب قوم جگ اٹھی اور اپنے متاثرہ بھائیوں کی امداد کے لیے اپنی بساط کے مطابق ریلیف کا سامان لے کر نکلی تو ہر طرف امدادی کارواں ہی نظر آرہے تھے اور اس سے متاثرین کو زندگی کی نئی کرن نظر آنے لگی۔ پاکستانی قوم نے جس محبت، پیار، خلوص اور جذبہ سے آزادکشمیر کے متاثرہ علاقوں میں یکدم ریلیف کا کام شروع کیا اس پر کشمیری قوم آج بھی اپنے پاکستانی محسنوں کی مشکور و ممنون ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قوم نے جذبہ ایثار و قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے قائد اعظم کے الفاظ ’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے“ کی تجدید نو کی تھی۔

آزادکشمیر کے اضلاع مظفرآباد، باغ، راولاکوٹ حویلی نیلم اس تباہ کن زلزلہ میں بری طرح متاثر ہوئے تھے تباہی اس قدر زیادہ تھی کہ آزادکشمیر کے اس وقت کے وزیراعظم سکندر حیات خان کے غمزدہ الفاظ کچھ یوں تھے کہ میں کسی ملک کا نہیں بلکہ قبرستان کا وزیر اعظم ہوں ۔

پاکستان کی حکومت نے اس تباہی کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی برداری سے ہنگامی امداد کی اپیل کی۔ اس اپیل پر پوری دنیا کے ممالک نے ہنگامی امداد بغیر وقت ضائع کیے پاکستان روانہ کرنا شروع کردی جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر امدادی کاروائیاں شروع کی گئیں اور فوری طور پر غذائی قلت کا خدشہ ٹل گیا۔

اسی امدادمیں بردار اسلامی ملک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، انڈونیشیا، ایران کے علاوہ، چین، امریکہ اور (او۔ آئی۔سی) نے اپنا فعال کرداد اداکیا۔ اس کے علاوہ پوری دنیا سے انسانی حقوق کی تنظیمیں ،این جی اوز بھی متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی اور بحالی و تعمیر نو کا عمل شروع کیا۔ ان این جی اوز میں اوکسفام، یواین او، قطرچیرٹی، مسلم ہینڈز، اسلامک ریلیف ،سیودی چلڈرن، اے ڈی ایف ، ہکس اینڈ سوس(ترکی) ایدھی ویلفئراور کئی دوسری تنظیموں نے اپنا فعال کردار ادا کیا۔اس میں کیوبا کے ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل ٹیمیں بھی متاثرہ اضلاع میں پہنچ گئیں اور مثالی کردار اداکیا۔اس کے علاوہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بلا تخصیص قابل رشک کردار اداکیا۔سماجی شخصیات کا کردار بھی موثر رہا۔ان شخصیات میں آذاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان،بیڑسٹر سلطان محمود، سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان ، ،مسعود راٹھور،سید امجد گردیزی،سردار یونس عباسی(ّچمن کوٹ)،سردار افراسیاب عباسی،مولاناامتیاز عباسی، شامل ہیں کے علاوہ بہت ساری شخصیات شامل ہیں ۔اس کے علاہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادکی تینوں تنظیموں(اسوہ،اووا،اکےڈمک سٹاف )نے بھی مثالی کردار ادا کیا

چوں کہ متاثرہ اضلاع میں تعلیمی اداروں کی تباہی کی وجہ سے تعلیم کا عمل بری طرح متاثر ہوچکا تھا۔ پاکستان کی حکومت نے متاثرہ اضلاع کے طلباءکی ایک سال کی فیسیں معاف کرنے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے تعلیمی عمل بغیر کسی تعطل کے جاری رہا۔ اس کے علاوہ کئی ایک تعلیمی اداراں نے متاثرہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلباءکے تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ قیام و طعام کا سہرا بھی اپنے سر لیا ۔ ان میں سر فہرست بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، محی الدین اسلامی یونیورسٹی نیاراںشریف اور نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجزسر فہرست ہیں ۔

زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو و بحالی کے لیے قومی ادارے (ایرائ)،(سیرا) کا قیام عمل میں لاگیا پہلے مرحلے میں رہائشی مکانوں کا سروے کر کے متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی تین اقساط میں کی گئی جس سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں نے رہائشی مکانوں کی تعمیر کی اور اب تک رہائشی مکانوں کی 90سے95فیصد تعمیر مکمل ہوچکی ہے۔

جب کہ دوسرے مرحلے میں سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ متاثرہ شہروں، مظفرآباد، باغ، راولاکوٹ کی تعمیر نو کا عمل تھا۔ اس میں تعلیمی اور صحت کے اداروں کی تعمیر این جی اوز نے کرنی تھی این جی اوز نے اپنی تعمیربروقت مکمل کی۔ لیکن جو تعمیر نو حکومتی سطح پر ہونی تھی وہ بری طرح متاثر ہوئی اور ابھی تک متاثرہ شہروں میں سے ایک شہرکی تعمیر بھی ممکن نہیں ہوسکی۔ ایرا کا کہنا ہے کہ اس کے پاس فنڈز کی کمی ہے جب کہ آزادکشمیر میں حکومت کا بار بار تبدیل ہونا بھی اس کی ایک وجہ بتائی جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں آزادکشمیر میں تعمیر نو خوشحال اور مظبوط مستقبل کی ضامن ہے اس کو مزید بغیر وقت ضائع کیے شروع کیا جانا چاہیے اور بر وقت تکمیل پذیر کیا جانا چاہیے ایراءکو اپنے کام میں بہتری کے ساتھ ساتھ تیزی بھی لانا ہوگی۔ ورنہ متاثرہ علاقوں میں پسماندگی بڑھے گی اور غربت میں اضافہ ہوگا۔

آج پوری قوم 8اکتوبر2005ءکی چھٹی یاد منا رہی ہے۔کئی گھرانے اپنے بچھڑے ہوئے پیاروں کی یاد آج بھی اسی طرح موجزن رکھے ہوئے ہیں آج کے دن ان شہداءزلزلہ کے لیے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے سوائے اس کے کہ ان کے درجات کی بلندی کی دعا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج بھی اپنے اندر من حیث القوم وہ آٹھ اکتوبر والا جذبہ خدمت انسانی زندہ رکھیں آج پوری قوم سیلاب اور ڈینگی کی آزمائش سے گزر رہی ہے، اس موقع پر پوری کشمیری قوم پاکستانی قوم کے ساتھ بھرپور یک جہتی کااظہارکرتی ہے۔
Syed Majid Gurdaizi
About the Author: Syed Majid Gurdaizi Read More Articles by Syed Majid Gurdaizi: 8 Articles with 8024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.