ماں

ایس ۔یو۔شجر

ماں کے موضوع پر لکھنے کی جسارت کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔میرے پاس اُن مقدس الفاظ کا ذخیرہ نہیں جنہیں ماں کی شان میں ورق پر اُتار سکوں۔اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کے ماں کی لازوال محبت کو الفاظ کا روپ نہیں دیا جا سکتا۔اور جذبات تو ویسے بھی لفظی کھیل سے ماورا ہوا کرتے ہیں۔

دنیا کی جتنی تہذیبوں‘مذاہب اور زبانوں نے جس قدر الفاظ ”ماں “کے لیئے تخلیق کیئے وہ ”ماں“کی مہرومحبت‘ایثارووفااور الفت کا بحربے کنار ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ماں“جو تین الفاظ کا مخفف ہے۔”م“سے محبت‘الف سے ”آغوشِ مادر“اور ’ن‘سے دنیا جہان کی نعمتیں۔ماں ایک ایسا سایہ دار شجر ہے جو بے رحم حالات کی چلچلاتی دھوپ خود برداشت کرکے اولاد کو اس سے محفوظ رکھتی ہے۔اگر اُسے اپنے پھولوں کی آبیاری کے لیئے کولہوکے بیل کی مانند بھی زندگی کا سفر جاری رکھنا پڑے تو پھر بھی اُس کے ماتھے پر شکن تک نمودار نہیں ہوتی اور اولاد کی پرورش کی خاطر ہرغم کو بھلا دیتی ہے‘ہر تکلیف کو نظر انداز کردیتی ہے۔پہاڑوں اور چٹانوں سے ٹکرا جاتی ہے مگر اپنی آغوش میں موجود بچے کو آنچ تک نہیں آنے دیتی۔

”ماں “کسی بھی خطہ یا مذہب سے تعلق رکھتی ہو اس کے جذبات اور اولاد سے وابستگی اور اپنے بچوں کیلئے تڑپ یکساں نوعیت کی ہوتی ہے۔بسمل کی تڑپ ہو‘ماہی بے آب کی یا زخمی مرغ کی تڑپ وہ اس ”تڑپ “کا عشر عشیر بھی نہیں جوایک ماں کی اپنے جگر کے ٹکڑوں کیلئے ہوتی ہے۔

ماں افریقہ کی ہو یا ایشیا کی ‘اس کا تعلق صحراسے ہویا کسی نخلستان سے‘مندر میں جائے یا کلیسامیں اس کی دعا لمحہ بھرمیں فلک تلک پہنچ جاتی ہے۔حتی کہ ماں اگر”حیوان“کی بھی ہے تو اس کا درجہ دعا وہی ہے۔تاریخ کہ سینہ پہ رقم ہے کہ ہرن کے بچے کو جب سبکتگین نامی غلام نے آزاد کیا تو اس کی مامتا کے لبوں سے نکلی ہوئی دعا نے سبکتگین کو تخت پر جابٹھایا۔ماں کے ہونٹوں کی جنبش عرش ہلادیتی ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر مذہب ‘اور سماج نے ماں کی عظمت کا اعتراف کیاہے۔لیکن محبوب خداﷺ جو ابدی ضابطہءحیات لے کر معبوث ہوئے اُس نے اس عظیم ہستی کو دیگر تمام مذاہب و تہذیبوں سے اعلٰی وارفع مقام عطاءکیا۔اللہ کے رسولﷺکافرمان ہے”جنت ماں کے پیروں تلے ہے“۔

روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیؑ نے اللہ تعالٰی سے پوچھا کہ جنت الفردوس میں میرا ساتھی کون ہوگا؟میرا ہمسایہ کون ہوگا؟اللہ نے جواباًفرمایا:وہ ایک قصاب ہے جو فلاں علاقہ میں رہائش پذیر ہے۔یہ جواب سن کر حضرت موسیؑ کلیم اللہ کو اس قصاب کے عمل کے متعلق تجسس پیدا ہوا کہ آخروہ کونسا عمل ہے جس کے نتیجے میں رب کریم نے اُس قصاب کو نبیؑ کا ہمسایہ ہونے کا شرف عطاءکیاہے۔حضرت موسیؑ سے ملاقات اور اُن کی بات سن کر قصاب انہیں اپنے گھر لے گیا۔حضرت موسیؑ ہمہ تن گوش ہو کر اُس کی تمام حرکات وسکنات کا جائزہ لے رہے تھے کہ اسی اثناء میں وہ اپنی والدہ کی جانب متوجہ ہوا۔اُس نے نہایت احترام سے اپنی ضعیف العمر والدہ کو سہارا دیا‘ان کا منہ صاف کیا‘اپنے ہاتھوں سے اپنی ماں کو کھانا کھلایا‘پھر جب اس کی ماں کے لبوں نے جوش محبت میں آکر جنبش لی اور اس پیکرمحبت کے ہونٹوں اور زبان کی حرکت سے یہ لفظ یکایک ادا ہوئے:”اللہ تجھے جنت میں موسیؑ کا پڑوسی بنائے“۔یہ قصاب نہ کوئی عالم تھا نہ عابد و زاہد‘نہ مجاہد تھا نہ غازی بلکہ اُسے یہ عظیم مقام اپنی والدہ محترمہ سے بہتر سلوک کے صلے میں ملاتھا۔ماں سے حسن سلوک کے ضمن میں حضرت ابوہریرةؓسے روایت ہے کہ ایک شخص آپﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ‘یا رسول اللہﷺ!میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟آپ ﷺنے فرمایا”تیری ماں“اس شخص نے کہا پھر کون‘آپﷺ نے فرمایا”تیری ماں“‘اس بشر نے کہا پھر کون ؟رحمت اللعالمینﷺ نے ارشاد فرمایا’تیری ماں“چوتھی دفعہ سوال دہرانے پر فخرموجوداتﷺ نے فرمایا’تیرا باپ“۔(صحیح بخاری کتاب الادب)۔

ایک مرتبہ ایک معمر خاتون آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں تو سیدنامولانا الحسین ؑ کے نانا نے ان کی تعظیم وتکریم فرمائی اور ان کے بیٹھنے کے لیئے اپنی چادر مبارک بچھا دی‘اس ذی شان خاتون کے تشریف لے جانے کے بعد صحابہ اکرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ!یہ عورت کون تھیں ؟جن کی آپﷺنے اس قدر عزت کی۔حبیب خداﷺ نے فرمایا :یہ میری رضاعی ماں حلیمہ سعدیہؓتھیں ۔آپ ؓ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی آپﷺ کی نظر مبارک حضرت حلیمہ سعدیہؓ پر پڑتی تو” میری ماں“”میری ماں “کہہ کر دوڑتے ہوئے اُن کی جانب تشریف لے جاتے۔

نماز دین کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم فریضہ بھی ہے۔ارشاد رسولﷺہے کہ”اگرمیری ماں حیات ہوتیں اور میں حالت نماز میں ہوتا‘پھر وہ مجھے پکارتیں:اے محمد‘تومیں اُن کی صدا پر لبیک کہتا‘اور نماز کو توڑ کر ان کی خدمت اورفرماں برداری میں مصروف ہو جاتا“۔

الغرض دنیا میں موجود تما م رشتوں میں سب سے عظیم اور مقدم رشتہ ماں کا ہے۔ماں وہ قوت ہے جو خود کانٹوں پر چلنا تو گوارا کر لیتی ہے لیکن اپنی آل کو پھولوں کے بسترپر سلاتی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جو تاعمر بے لوث رہتی ہے۔کبھی احسان نہیں جتلاتی۔آندھی چلے یا طوفان اس کی الفت سدا بہار ہے۔آج تک کوئی ایسا پیمانہ معرض وجود میں نہیں آیا جو ”ماں“کی محبت کو ماپ سکے۔انسان خواہ عمر کے کسی بھی حصہ میں ہو ہر دکھ و تکلیف میں زبان پر یا ”خدا“کا نام آتا ہے یا ”ماں “کا۔

معزز قارئین ہم نے ”ماں“کی عظمت اجاگر کرنے کی سعی کی ‘آپ نے ایک ہی نشست میں کالم پڑھ لیا لیکن ہمارا ٹارگٹ یہ فارسی مصرعہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
گفتند نشستند برخاستند

ہم نے لکھا آپ نے پڑھا ۔اور اب محمدﷺ کے خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو اور ہمیں ”ماں“کی فرمانبرداری کرنے اور اُن کی خدمت کرنے کی توفیق عطاءفرمائے ۔گو کہ کسی بھی خدمت کے ذریعے ہم اُن کا احسان نہیں اتار سکتے ۔کہ ماں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ ہم پر خرچ کر ڈالا۔

آخر میں آپ کو یہ بتاتا چلو ں کہ اس موضوع پر لکھنے کی تحریک اسوقت ہوئی جب میری والدہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں چند دن پہلے داخل ہوئیں ۔اب اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے اُن کی صحت کافی بہتر ہے۔معزز قارئین سے اپیل ہے کہ اُن کی مکمل صحت یابی کیلئے دعا فرمائیں۔اللہ ہم سب کے والدین کو صحت کاملہ عطاءفرمائے(آمین)
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174802 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.