یہ کہانی ہے بنتِ حوا کی جس کی زندگی میں مشکلات کا پہاڑ
ہے، ایک مشکل ختم نہیں ہوتی دوسری شروع ہو جاتی ہے۔ مایوسی کے ایسے دلدل
میں پھنس گئی کے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا، نہ ہی سمجھ آتا ہے
کہ کیا کرے۔ گھریلو مسئلوں، جلن، حسد، جھوٹ و فریب میں کوئی کب تک زندہ رہ
سکتا ہے؟ اور رہ بھی جائے تو خوشی کا تاثر کہاں سے لائے؟ بنتِ حوا ہونا
ویسے ہی کوئی آسان کام نہیں مستذاد یہ کہ کوئی تکلیف بانٹنے والا تو چھوڑیں،
سننے والا بھی نہیں۔۔۔۔
نہیں نہیں ہے ایک سننے والا، وہ رب جو میرا حال جانتا ہے، کیوں نہیں جانے
گا؟ وہ "الخبیر و العلیم" ہے، خبر رکھنے والا اور علم رکھنے والا۔ مگر جب
اسے پتہ ہے میں مشکل میں ہوں تو وہ کیوں آسانی نہیں کرتا، کیا میں اسکی
بندی نہیں؟؟؟ وہ رب "الحکیم" بھی ہے حکمت رکھنے والا، اسے پتا ہے کہ یہ
آزمائشیں کیوں ضروری ہیں، ان مشکلات میں کیا آسانی چھپی ہے۔
بنتِ حوا کو یاد آیا کہ اس نے قرآن کی آیات کا ترجمہ پڑھا تھا۔ جس میں اللہ
سبحانہ و تعالٰی سورۃ الم نشرح میں فرماتے ہیں کہ
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (5)
تو بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (6)
بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔
پڑھنے میں، اور سننے میں یہ آیات دل کو چھو جانے والی تو تھیں ہی، مگر اس
کے ساتھ غور طلب بھی۔ جب اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ایک بار فرما دیا تو بیشک
دشواری کے ساتھ آسانی ہے تو تکرار کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ بار بار کہنا
کہ تو بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ اس کا
کیا مقصد ہے؟ بنتِ حوا نے سوچا کہ جب قرآن میں کوئی بھی لفظ، حتٰی کہ حرف
بھی بلا مقصد نہیں۔ تو بھلا دو آیات بلاضرورت کیسے ہو سکتی ہیں!!!
قرآن پر تدبر کرنا بھی نیکی کے زمرہ میں آتا ہے، بنتِ حوا نے اس نیکی کو
پانے کی سعی کی اور اپنی مشکلات کا جواب بھی پا لیا۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی
کا یہ کہنا کے "فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (5) تو بیشک دشواری کے ساتھ
آسانی ہے۔" اس بات کا اشارہ ہے کہ جب اللہ سبحانہ و تعالٰی اپنی بندی کو
مشکل میں ڈال رہے ہیں تو وہ اس پریشانی میں اس کی مدد بھی کرینگے، یہ تکلیف
کسی بڑی تکلیف سے بچانے کا راستہ ہے۔ اور یہ آزمائش کسی بڑے اجر کا پیش
خیمہ۔
پھر اس بات کی تکرار "اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (6) بیشک دشواری کے
ساتھ آسانی ہے۔" اس کا مقصد بنتِ حوا کو یہ سمجھ آیا کہ اللہ سبحانہ و
تعالٰی ہر مشکل کے ساتھ دو آسانیاں لازمی دیتے ہیں، وہ آسانیاں ہمیں فوری
طور پر نظر آئیں یا نہیں، سمجھ آئیں یا نہیں الگ بات ہے۔ مگر مشکل کے ساتھ
آسانی کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ہے، جو کہ حرفِ آخر ہے۔
لوگوں کا حسد و جلن کا شکار ہونا آپ کو ان کی سوچ و نیت بتاتا ہے۔ بنتِ حوا
نے ایسے لوگوں کو اپنی زندگی سے دور کرنا شروع کردیا جو حسد و جلن کے مارے
ہیں اور اپنا زہر دوسروں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں، اِس سے بنتِ حوا کی
زندگی میں بہت سکون آیا۔
اس عمل کو کرنے کے بعد بنتِ حوا کا اگلا قدم گھریلو مسائل کو حل کرنے کی
طرف گیا، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ تھا۔ گھر والوں کو چھوڑا نہیں جا سکتا، جو
اللہ نے جوڑا ہے اسے توڑا نہیں جا سکتا۔۔۔ اب اس کا کیا کریں؟؟؟ بہت سوچ
بچار کے بعد بنتِ حوا نے یہ فیصلہ کیا کہ گھر والوں سے صلہ رحمی کی جائے،
ان سے اللہ کی خوشنودی کی خاطر محبت کی جائے۔ جو محبت اللہ سبحانہ و تعالٰی
کی خاطر ہو وہ کبھی دکھ نہیں دیتی، آزمائش بن بھی جائے تو انسان سرخرو ہی
رہتا ہے۔
اس تدبر نے بنتِ حوا کے بیشتر مسائل حل کر دئیے اور جو حل نہ ہو سکے ان پر
گھبرانے کی بجائے اس نے صبر و شکر کیا۔ صبر تھا آزمائش پر، مگر شکر؟ اسلئیے
کہ اللہ رب العزت نے اپنی بندی کو آزمائش کے قابل سمجھا۔
’’ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ
اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا‘‘( طلاق:۷)
اللّٰہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے دیا ہے، جلد ہی
اللّٰہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔
|