میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
قرآن مجید کی سورہ الم نشرح کی آیت 6 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(6)
ترجمعہ کنزالعرفان::
بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔
سورہ الم نشرح میں اس آیت کو دو بار استعمال کیا گیا جہاں یہ معلوم ہوتا ہے
کہ ایک تنگی کے بعد دو سہولتیں اور آسانیاں ہیں ایک دنیا میں مئیسر ہوگی
اور ایک آخرت میں حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں
’’ایک دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ (اپنے
کاشانۂ اقدس سے) خوشی اور سُرُور کی حالت میں مسکراتے ہوئے باہر تشریف
لائے اورارشاد فرمایا ’’ایک تنگی دو آسانیوں پر ہر گز غالب نہیں آئے
گی،تو بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔ آج کی
تحریر سورہ الم نشرح کی اس آیت پر موقوف ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ " اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم جو شدت اور تکلیف آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کفار کے مقابلے میں
برداشت فرماتے ہیں وہ جلد ختم ہوں گی اور ہم ان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم کو غلبہ عطا فرمائیں گے " اس آیت سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کسی
بھی مصیبت اور تکلیف میں پریشان نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس پریشانی میں صبر
کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ اس تکلیف کے بعد ہمارے لئے
راحت فراہم کرے جیسے سورہ الطلاق کی آیت 7 میں ارشاد فرمایا کہ
’’ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ
اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا‘‘( طلاق7)
ترجمعہ کنزالعرفان::
اللّٰہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے دیا ہے، جلد ہی
اللّٰہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔
قرآن مجید میں موجود حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت یونس علیہ السلام ،
حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہ کے واقعات بھی ہمیں
اسی بات کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ زندگی میں آنے مصیبت یا پریشانی
پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ کیسے کرم فرماتا ہے اور مشکل کی ان گھڑیوں کے
گزرجانے کے بعد رب تعالیٰ کیسی آسانی عطا فرماتا ہے انبیاء کرام علیہم
السلام ہوں یا صحابہ کرام علیہم الرضوان ، اولیاء کرام ہوں یا بزرگان دین
ان تمام لوگوں کی زندگیاں ایسی ہی مشکلات اور پریشانیوں سے بھری ہوئی تھیں
جبکہ خود اللہ تعالیٰ کے حبیب کریمﷺ بھی زنگی میں کئی مرتبہ مشکلات اور
پریشانیوں کا سامنا کرتے رہے ہیں لیکن ان کا اپنے رب پر مکمل بھروسہ اور
پختہ یقین تھا کہ ہر مشکل یا دشواری کے بعد آسانی ضرور ہوتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب ہمارے گھروں میں کوئی کام ہو یعنی اگر
لائٹ کا مسئلہ ہو تو ہم کسی الیکٹریشن کو بلاتے ہیں گھر میں کوئی نلکا خراب
یا لیک ہو تو ہم کسی پلمبر کی مدد لیتے ہیں تو آخر ایسا کیوں ہے ؟ صرف اس
لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ جو انسان جس کام میں ماہر ہوگا اس کام کو بہتر طور
پر وہی کر سکتا ہے بالکل اسی طرح ہماری ہر پریشانی اور مصیبت کا ہل صرف
اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جب ہم اپنی مصیبت پر صبر کرتے ہیں اور اپنے معاملات
رب تعالی پر چھوڑ دیتے ہیں تو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کس بندے کی کس
پریشانی کو کس طرح ٹھیک کرنا ہے بس ہمیں اپنے ارادے اور یقین پر مظبوط رہنا
ہوگا پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس مشکل کے بعد ہمارے لئے رب تعالیٰ نے آسانی ہی
آسانی رکھی ہوئی ہوتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہم کسی
پریشانی کا شکار ہوتے ہیں تو رب تعالی سے آسانیوں کی دعا کرتے ہیں اور جب
وہ آسانی عطا فرماتا ہے تو اس کا شکر ادا نہیں کرتے ہم پریشانی والے لمحات
بھلا دیتے ہیں اب دیکھیں جب انسان پورے دن کام کرکے محنت کرکے رات کو اپنے
بستر پر لیٹ کر نیند پوری کرتا ہے تو صبح تروتازہ ہوکر اٹھتا ہے تو وہ نیند
اس کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی لیکن ہم صبح فریش ہوکر اٹھتے ہی اس رب
کا شکر ادا نہیں کرتے یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے ۔۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ رب العزت کا خاص بندہ بننے کے لئے
دوسروں سے الگ اور خاص کام کرنا ہوں گے ویسے تو اس کائنات میں موجود ہر
انسان پر اس کی نظر ہر وقت ہر لمحہ ہوتی ہے لیکن کسی کسی پر نظر خاص بھی
ہوتی ہے جب وہ کسی پر اپنی رحمت کی نظر خاص فرماتا ہے ایک جگہ بہت خوبصورت
بات لکھی ہوئی تھی کہ ”وہ سب سنتا ہے لیکن اسے خاص طور پر سنتا ہے جو صرف
اسے پکارتا ہے۔ وہ سب کے پاس ہے لیکن اس کے پاس خاص طور پر ہے جو اس کی
تلاش میں ہے۔ وہ سب کو دے رہا ہے لیکن اسے خاص دے رہا ہے جو پورے یقین سے
مانگ رہا ہے۔ سب بیمار ہیں اور سب پریشان حال ہیں، اس کا رحم سب کی تلاش
میں ہے، لیکن یہ رحم اس پر خاص طور پر سایہ فگن ہے، جو پرامید ہے، اور یقین
رکھتا ہے کہ اس کا رب اس سے غافل نہیں ہے…یقین…صرف یقین…اللہ کو اپنے بندے
سے صرف یہ”یقین“ چاہیے۔“
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پریشانی یا مصیبت میں صبر صرف اس پختہ یقین
کے ساتھ کرنا چاہئے کہ اس پریشانی کے بعد ہمارے رب نے ہمارے مقدر میں آسانی
لکھ رکھی ہے کیوںکہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم ہر وقت ہر لمحہ اس کی نظروں
میں ہیں بیشک دنیا کی زندگی عارضی ہے لیکن مشکلات بھی مستقل نہیں ہوتی یہ
وقتی ہوتی ہیں کیونکہ اللہ نے قرآن میں کئی جگہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے بندوں
پر پریشانی اور مصیبت ڈال کر انہیں آزماتا ہے خاص طور پر اپنے خاص اور
محبوب بندوں پر مگر وقتی طور پر جب بندے اس آزمائش میں صبر اور شکر کے ساتھ
اپنا وقت گزار لیتے ہیں تو پھر ان کے آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں جیسے
سورہ البقرہ کی آیت 155 میں فرمایا کہ
وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ
مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ
الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ
ترجمعہ کنزالایمان:
اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں
اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس آیت کریمہ میں واضح پیغام ہے کہ اللہ
اپنی حکمت پیش نظر کسی کو اس کے مال میں کسی کو اس کی جان یعنی بیماری میں
کسی کو کاروبار میں نقصان سے آزماتا ہے اور پھر جس نے اس کی اس آزمائش میں
صبر سے کام لیا تو پھر اس رب کی طرف سے اس کے لئے آسانیوں کا وعدہ ہے
کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا
بیشک دشواری کے بعد آسانی ہے
صبر کا عملی مظاہرہ ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام علیہم
الرضوان کی زندگیوں میں ملتا ہے صبر کا عملی نمونہ ہمیں اولیاء کرام اور
بزرگان دین کی زندگی میں نظر آتا ہے ایک نوجوان ایک اللہ کے ولی کے پاس
حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت صبر کیا ھے؟ وہ بظاھر فارغ نظر آرھے تھے۔وہ
خاموش رھے جیسے انہوں نے بات سنی نہ ھو نوجوان نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا
حضور صبر کیا ھے؟ انھوں نے نوجوان کی طرف دیکھا لیکن بولے کچھ نہیں نوجوان
کو عجیب سالگا اور غصہ بھی آیا کہ کچھ کر بھی نہیں رھے اور بولتے بھی نہیں
وہ اٹھ کر جانے لگا تو کہنے لگے کہ سنو
"صبر انتظار ھے“
وہ نوجوان شرمندہ سا ھو کر واپس بیٹھ گیا پھر وہ دوبارہ گویا ھوئے اور
فرمایا
”صبر برداشت“ ھے۔
جو تم میں نہیں کہ میری کچھ دیر کی خاموشی پر تم دل برداشتہ ھو کر جانے
لگے۔
نوجوان نے معزرت کی اور کہا نہیں حضرت مجھے کہیں کام سے جانا ھے اسلئے جلدی
ھے۔۔
”دوسرے کی بات کو تحمل سے سننا بھی صبر ھے"
اب وہ نوجوان خاموشی سے سر جھکانے ان کے سامنے بیٹھ گیا۔وہ مسکرائے اور پھر
فرمانے لگے بیٹا صبر مشکل وقت میں ثابت قدم رہنے کا نام ھے جسکی مثال
” ابراہیم علیہ اسلام اور حضرت امام حسین رضیﷲ عنہا کی آزمائش“ھیں۔
”مصیبت یا بیماری کو برداشت کرنا صبر ھے“
جیسے ”ایوب علیہ اسلام“ نے صبر کیا۔
اور ” برے عمل واقدام سے اپنے آپ کو روکنا “ بھی صبر ھے۔جسکی بہترين مثال "
حضرت یوسف علیہ السلام"کا واقعہ ھے۔
نوجوان نے کہا حضرت یہ سب تو بہت رتبے والے خاص اور عظیم لوگ ھیں ھم ان
جیسے کہاں! ھم کیسے برداشت کرسکتے ھیں؟ ھمیں کیسے صبر آئیگا؟ کہنے لگے بیٹا
بےشک ھم ان جیسے نہیں لیکن ان خاص لوگوں کی زندگیاں ھی ھمارے لئےنمونہ حیات
ھیں۔ بیٹا ﷲ کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا۔ وہ ھم سے زیادہ ھم کو
جانتا ھے۔
”(لَا یُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِلَّا وُسۡعَهَاۚ)“
جسکا جتنا بڑا رتبہ ھوتا ھے اسکی آزمائش بھی اتنی سخت ھوتی ھے رھی یہ کہ
صبر کیسے آتا ھے تو بیٹا ” توکل صبر کا سب سے بڑا ساتھی ہے۔ اگر آپ ﷲ پر
توکل رکھتے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ صبر آپ کو حاصل نہ ہو“ قرآن میں
ارشاد ھے
”وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ“
(بےشک) بغیر رب کی عطا کے آپ صبر نہیں کرسکتے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ فرماتے ہیں کہ انسان فطرتاََ جلد باز ھے
ھر چیز میں نقصان فائدے کا سوچتا ھے زرا سانقصان اس کو غم میں مبتلا کردیتا
ھے اس نقصان کو پر کرنے کیلئے ادھر ادھر ھاتھ مارنے لگتا ھے زرا سی جسمانی
تکلیف میں پریشان ھوکر شور کرنے لگتا ھے اور دعا اور دوا پر اصرار کرنے
لگتا ھے کہ پس جلد صحتیاب ھو جاوں یہ سب اسلئے ھے کہ اسے سارا فائدہ دنیا
میں نظر آتا ھے یہ سب ﷲ اور آخرت پر کمی کی وجہ سے ھوتا ھے کہ وہ اپنا مقصد
حیات یعنی یہ کہ ”ﷲ نے زندگی اور موت کو انسان کی آزمائش کے لئے پیدا
فرمایا“ بھول جاتا ھے جب آپ کو دنیا کے مقابلے میں آخرت کے دگنے اجر کا
یقین ھوتا ھے
بیماری اور مشکلات میں اپنے گناہوں میں کمی اور درجات کی بلندی کا یقين
ھوتا ھے اور یہ یقين ھوتا ھے کہ ﷲ سب اسکی بہتری کے لئے کرتا ھےتو پھر یہ
نقصان، بیماری اسکے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے
" اسکو اپنا فائدہ آخرت میں موجود اجر اور جنت کی ،صورت میں نظر آرھا ھوتا
ھے“اور ھاں ایک آخری چیز بیٹا ”صراط مستقیم“ سیدھاراستہ یعنی انعام یافتہ
لوگ صدیقین، شہداء صالحین کا راستہ”اس پر چلنا ھی سب سے بڑا صبر ھے۔ کیونکہ
یہاں لڑائی خود اپنے آپ سے ھے۔“ اگر تمہیں صبر کا مطلب سمجھ میں آگیا اور
تم نے اس پر عمل کرنا شروع کردیا تو پھر بعد میں تمہارے لئے اللہ کا وعدہ
ہے کہ آسانیاں ہی آسانیاں ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم لوگ اکثر پریشانی ، مصیبت اور آزمائش
میں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے لیکن کسی نے کیا
خوب کہا ہے کہ " کبھی یہ مت سوچو کہ اللہ مجھے کیوں آزماتا ہے بلکہ یہ
سمجھنا کہ اللہ صرف ان کو ہی آزماتا ہے جن لوگوں سے وہ محبت کرتا ہے " اس
لئے جن لوگوں کو اپنے رب تعالیٰ کی ذات پر پختہ یقین اور مکمل بھروسہ ہے وہ
ہمیشہ آگے کا سوچتے ہیں وہ پریشانیوں میں گھبراتے نہیں ہیں کیونکہ انہیں ان
پریشانیوں کے وقتی ہونے کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور بعد کی آسانیوں کا بھی
علم ہوتا ہے اس وہ ہمیشہ مصیبت میں صبر کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن
مجید کی سورہ الانبیاء کی آیت 85 میں ارشاد فرمایا کہ
وَإِسْمَاعِيْلَ وَإِدْرِيْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِنَ الصَّابِرِيْنَ‘
ترجمعہ کنزالایمان::
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) ، وہ سب صبر والے تھے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم دنیاوی معاملات
میں بڑی دواںدیشی سے کام لیتے ہیں لیکن آخرت کے معاملے میں ہم نے کبھی
دوراندیشی سے کام نہیں کیا اب آج کے عنوان کو ہی دیکھ لیں کہ ہمیں اللہ
تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف اور واضح طور پر بتادیا کہ
" بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے " لیکن ہم اپنے دنیاوی مفاد کے لئے تو دور
تک کا سوچتے ہیں جبکہ وقتی طور پر آنے والی پریشانی ، مصیبت یا آزمائش پر
یہ نہیں سوچتے کہ ان کے ساتھ آسانی کا وعدہ ہے ہمارے رب کی طرف سے اس لئے
صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے بس ذرا سی پریشانی یا مصیبت ہم پر
آجاتی ہے تو ہم دعا کرنا شروع کردیتے ہیں کہ یااللہ میری تکلیف دور کردے
مجھے اس پریشانی سے نجات دے دے بیشک ہمیں دعائیں مانگنی چاہئے لیکن بیزاریت
سے نہیں اکتاہٹ سے نہیں بلکہ صبر اور شکر کے ساتھ التجاء کے انداز میں اور
یہ جانتے ہوئے یہ مانتے ہوئے کہ دشواری کے ساتھ آسانی ہے رات کے بعد سویرا
ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں اپنی زندگی میں کئی ایسے لوگوں سے ملتا
ہوں جنہیں دس یا بیس سال پہلے میں نے انتہائی غربت اور پریشان حال زندگی
گزارتے ہوئے دیکھا لیکن وہ اپنی زندگی سے مطمعن نظر آتے تھے اور جب آج ان
سے ملاقات ہوتی ہے تو مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ وہی لوگ ہیں شاید ان برے
حالات میں انہوں نے صبر کیا ہو جن کا پھل اب انہیں آسانی کی صورت میں مل
رہا ہو جبکہ میں ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا
ہوا بہت کچھ تھا بیشمار نعمتوں سے رب تعالی نے انہیں نوازا ہوا تھا لیکن
غرور و تکبر کی وجہ سے ان کے پائوں زمین کی بجائے آسمان پر رہتے تھے لیکن
آج وہ در در بھٹکتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ سب رب تعالی کی نافرمانی ، ناشکری
، صبر نہ کرنے کی عادت اور رب تعالی پر پختہ یقین نہ ہونے کے سبب تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن مجید میں موجود ایک ایک لفظ ہماری
زندگی کے لئے مشعل راہ ہے زندگی کے ہر مسئلہ کا ہل خواہ وہ دنیاوی زندگی ہو
یا آخرت کی زندگی اس قرآن مجید میں موجود ہے شرط یہ ہے کہ ہم اس کو معنی
اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں تو ہمیں کہیں جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی قدم
قدم کی رہنمائی ہمیں اس قرآن مجید سے ملتی ہے اور ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ
رب تعالیٰ نے اپنی یہ مبارک کتاب اپنے اس نبی ہر اتاری جن کی امت میں اس نے
ہمیں پیدا کیا اور قرآن میں موجود ہر ہر آیت کو میرے حضور ﷺ نے اپنی احادیث
مبارکہ کے ذریعے ہمیں بڑے احسن طریقے سے بتایا ہے اور سمجھایا ہے جبکہ امام
اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ نے قرآن
مجید کا صحیح اور واضح ترجمعہ یعنی ترجمعہ کنزالایمان کا تحفہ جو ہمیں دیا
ہے وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے اسی لئے ہمارے اسلاف ہمیشہ قرآن و حدیث کی مدد
سے اپنے ہر معاملات کو سرانجام دیا کرتے تھے اور ہمیں بھی یہ ہی تلقین کی
گئی کہ اپنی زندگی سے جڑے ہر مسئلہ کے ہل کے لئے قرآن و حدیث کی مدد لی
جائے جہاں ہمیں دنیاوی عارضی زندگی اور ہمیشہ قائم رہنے والی اخرت کی زندگی
کی بھلائی کا راستہ بخوبی مل جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سورہ الم نشرح کی اس آیت کو دو بار استعمال
کیا گیا ہے یعنی "تو بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے" اور
" بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے" جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے
فرمایا کہ
" ایک تکلیف دو آسانیوں ہر غالب نہیں آسکتی " مطلب اگر کسی تکلیف میں انسان
صبر اور شکر کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسے اس کی بدولت دو آسانیاں فراہم کی
جاتی ہیں ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں یہ ہم جیسے گناہگار ، سیاح کار اور
بدکار انسان کے لئے ایک بڑی نعمت ہے اگر قرآن مجید کی اس ایک آیت پر ہم
اپنے رب تعالیٰ پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اپنی پوری زندگی گزارنا شروع کردیں
تو میرا ماننا ہے کہ قرآن کی یہ آیت ہی ہمارے لئے کافی ہوگی اس دنیاوی
عارضی زندگی کے لئے بھی اور ہمیشہ قائم رہنے والی اخرت کی زندگی کے لئے بھی
۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی بیشمار نعمتوں
میں سے پریشانی ، مصیبت اور تکلیف کو بھی ہم نعمت سمجھ کر اس پر صبر کرنا
سیکھ لیں تو اس کے ساتھ آسانی ہمارا مقدر ہوگی اور اس ملنے والی آسانی پر
رب العزت کا شکر کریں تو ہمارا ٹھکانہ بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقرب
بندوں جیسا ہوگا ان شاءاللہ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے
حفظ و امان میں رکھے ہر تکلیف اور پریشانی سے دور رکھے اگر پریشانی آ بھی
جائے تو ہمیں اس پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے صبر پر ہمیں
آسانیاں عطا فرمائے مجھے سچ لکھنے ہم سب کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|