آپ بھی خاموش رہے کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دے سکتے ھیں

جو شخص غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا ہو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر سکتا ہے“ غصے کی کیمسٹری کیا ہے؟“

غصے کی کیمسٹری کے معنی ”ہمارے اندر سولہ کیمیکلز ہیں‘ یہ کیمیکلز ہمارے جذبات‘ ہمارے ایموشن بناتے ہیں‘ ہمارے ایموشن ہمارے موڈز طے کرتے ہیں اور یہ موڈز ہماری پرسنیلٹی بناتے ہیں. ”ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہے. ”مثلاً غصہ ایک جذبہ ہے‘ یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ہوتا ہے‘مثلاً ہمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ ضرورت سے کم تھی‘ ہم نے ضرورت سے زیادہ نمک کھا لیا‘

ہماری نیند پوری نہیں ہوئی یا پھر ہم خالی پیٹ گھر سے باہر آ گئے‘ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ ہمارے اندر کیمیکل ری ایکشن ہو گا‘ یہ ری ایکشن ہمارا بلڈ پریشر بڑھا دے گا اور یہ بلڈ پریشر ہمارے اندر غصے کا جذبہ پیدا کر دے گا‘ ہم بھڑک اٹھیں گے لیکن ہماری یہ بھڑکن صرف 12 منٹ طویل ہو گی‘ ہمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کو بجھانے والے کیمیکل پیدا کر دے گا اور یوں ہم اگلے 15منٹوں میں کول ڈاؤن ہو جائیں گے چنانچہ ہم اگر غصے کے بارہ منٹوں کو مینیج کرنا سیکھ لیں تو پھر ہم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے“

” یہ نسخہ صرف غصے تک محدود نہیں ہے بلکہ ‘ ہمارے چھ بیسک ایموشنز ہیں‘ غصہ‘ خوف‘ نفرت‘ حیرت‘ لطف(انجوائے) اور اداسی‘ ان تمام ایموشنز کی عمر صرف بارہ منٹ ہو تی ہے‘ ہمیں صرف بارہ منٹ کیلئے خوف آتا ہے‘ ہم صرف 12 منٹ قہقہے لگاتے ہیں‘ ہم صرف بارہ منٹ اداس ہوتے ہیں‘ ہمیں نفرت بھی صرف بارہ منٹ کیلئے ہوتی ہے‘ ہمیں بارہ منٹ غصہ آتا ہے اور ہم پر حیرت کا غلبہ بھی صرف 12 منٹ رہتا ہے‘

ہمارا جسم بارہ منٹ بعد ہمارے ہر جذبے کو نارمل کر دیتا ہے. ”لیکن آپ کے ارد گرد اکثر لوگوں کو سارا سارا دن غصے‘ اداسی‘ نفرت اور خوف کے عالم میں نظر آتے ہونگے‘ یہ لوگ سارا دن نارمل نہیں ہوتے. ”آپ ان جذبوں کو آگ کی طرح دیکھیں‘ آپ کے سامنے آگ پڑی ہے‘ آپ اگر اس آگ پر تھوڑا تھوڑا تیل ڈالتے رہیں گے‘ آپ اگر اس پر خشک لکڑیاں رکھتے رہیں گے تو کیا ہو گا ؟ یعنی یہ آگ پھیلتی چلی جائے گی‘ یہ بھڑکتی رہے گی‘

ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کو بجھانے کی بجائے ان پر تیل اور لکڑیاں ڈالنے لگتے ہیں چنانچہ وہ جذبہ جس نے 12 منٹ میں نارمل ہو جانا تھا وہ دو دو‘ تین تین دن تک وسیع ہو جاتا ہے‘ ہم اگر دو تین دن میں بھی نہ سنبھلیں تو وہ جذبہ ہمارا طویل موڈ بن جاتا ہے اور یہ موڈ ہماری شخصیت‘ ہماری پرسنیلٹی بن جاتا ہے یوں لوگ ہمیں غصیل خان‘ اللہ دتہ اداس‘ ملک خوفزدہ‘ نفرت شاہ‘ میاں قہقہہ صاحب اور حیرت شاہ کہنا شروع کر دیتے ہیں. ”کبھی غور کیا ہم میں سے بے شمار لوگوں کے چہروں پر ہر وقت حیرت‘ ہنسی‘ نفرت‘ خوف‘ اداسی یا پھر غصہ کیوں نظر آتا ہے؟

وجہ صاف ظاہر ہے‘ جذبے نے بارہ منٹ کیلئے ان کے چہرے پر دستک دی لیکن انہوں نے اسے واپس نہیں جانے دیا اور یوں وہ جذبہ حیرت ہو‘ قہقہہ ہو‘ نفرت ہو‘ خوف ہو‘ اداسی ہو یا پھر غصہ ہو وہ ان کی شخصیت بن گیا‘ وہ ان کے چہرے پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے درج ہو گیا‘ یہ لوگ اگر وہ بارہ منٹ مینج کر لیتے تو یہ عمر بھر کی خرابی سے بچ جاتے‘ یہ کسی ایک جذبے کے غلام نہ بنتے‘ یہ اس کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوتے. ” کوئی سمجھتا ہے کہ محبت جذبہ نہیں ہوتی, حالانکہ محبت اور شہوت دراصل لطف کے والدین ہیں‘ یہ جذبہ بھی صرف بارہ منٹ کاہوتا ہے‘

آپ اگر اس کی بھٹی میں نئی لکڑیاں نہ ڈالیں تو یہ بھی بارہ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے لیکن ہم بے وقوف لوگ اسے زلف یار میں باندھ کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں اور یوں مجنوں بن کر گلیوں ، چوراہوں ، بازاروں میں ذلیل ہوتے ہیں‘ ہم انسان اگر اسی طرح شہوت کے بارہ منٹ بھی گزار لیں تو ہم گناہ‘ جرم اور ذلت سے بچ جائیں لیکن ہم یہ نہیں کر پاتے اور یوں ہم سنگسار ہوتے ہیں‘ قتل ہوتے ہیں‘ جیلیں بھگتتے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں‘ ہم سب بارہ منٹ کے قیدی ہیں‘ ہم اگر کسی نہ کسی طرح یہ قید گزار لیں تو ہم لمبی قید سے بچ جاتے ہیں ورنہ یہ 12 منٹ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتے“۔

جبکہ یہ سب اب آپ پرمنحضر ہے کہ آپ یہ بارہ منٹ کیسے مینیج کرتے ہیں. مثلا کوئی شخض غصے میں آفس کے اندر داخل ہوا ‘ اس نے کلرک سے کہا میری اپنی فائل مجھے دو مثلا کلرک نے کہا میں نے آپ کی فائل پر دستخط کر کے واپس بھجوا چکا ہوں لیکن یہ نہیں مانے‘ انہوں نے کلرک پر جھوٹ اور غلط بیانی کا الزام بھی لگایا اور اُسے ماں بہن کی گالیاں بھی دیں‘ کلرک کے تن من میں آگ لگ گئی لیکن کیونکہ وہ جانتا تھا اس بندے کی یہ صورتحال صرف 12 منٹ رہے گی چنانچہ کلرک خاموش رہا اور اس کے بعد وہ خاموشی سے اٹھا‘

وضو کیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی‘ کلرک کے اس عمل پر 20 منٹ خرچ ہوئے‘ ان 20 منٹوں میں کلرک کا غصہ بھی ختم ہو گیا اور وہ صاحب بھی حقیقت پر پہنچ گئے‘ کلرک اگر نماز نہ پڑھتا تو ایسے جواب دیتا‘ ان کے درمیان تلخ کلامی ہوتی‘ لوگ کام چھوڑ کر اکٹھے ہو جاتے‘ان دونوں درمیان ہاتھا پائی ہو جاتی‘ دونوں میں سے کوئی ایک کسی کا سر پھاڑ دیتا یا کسی نقصان پہنچا دیتا لیکن اس سارے فساد کا آخر میں کیا نتیجہ نکلتا؟ پتہ چلتا یہ دونوں بے وقوف تھے‘ ہم سارا دن اپنا کان چیک کئے بغیر کتے کے پیچھے بھاگتے رہے چنانچہ اگر آپ جائے نماز پر بیٹھ کر وہ بارہ منٹ گزار لئے اور یوں کلرک ‘ اور وہ اور یہ سارا دفتر ڈیزاسٹر سے بچ گیا‘ ہم سب کا دن اور عزت محفوظ ہو گئی

کوئی یہ سمجھے کہ ”کیا ہر وقت غصے میں ہر بار نماز پڑھنا پڑیگی تو ایسا ہرگز نہیں‘ آپ جب بھی کسی جذبے کے غلبے میں کوئی آتا ہو تو اس کو چاہیے سب سے پہلے اپنا منہ بند کر لے‘ زبان سے ایک لفظ نہیں بولے ‘ میں قہقہہ لگاتے ہوئے بھی بات نہیں کرئے ‘ ہوسکے تو صرف ہنستے ہوئے اور ہنستے ہنستے کوئی دوسرا کام شروع کر دینا چاہیے‘ اگر خوف‘ غصے‘ اداسی اور لطف کے حملے میں واک کرنے نکل جائے‘ غسل کرلے ‘ وضو کرلینا چاہیے‘ 20 منٹ کیلئے چپ کا روزہ رکھ لینا چاہیے‘ استغفار کی تسبیح پڑھ لے‘

اپنے والدین یا اپنے بچوں وغیرہ کو فون کرلے ‘ اپنے کمرے‘ اپنی میز کی صفائی شروع کرنا شروع کردے‘ اپنا بیگ کھول کر بیٹھ جائے‘ اپنے کان اور آنکھیں بند کر کے لیٹ جائے یا پھر اٹھ کر نماز پڑھ لے اس طرح یہ بارہ منٹ گزر جاتے ہیں‘ طوفان ٹل جاتا ہے‘ آپ کی عقل ٹھکانے پر آ جاتی ہے اور آپ فیصلے کے قابل ہو جاتے ہیں. ہاں اگر آپ کو یہ تمام سہولتیں حاصل نہ ہوں تو پھر کیا کرنا چاہیے ”آسمان گر جائے یا پھر زمین پھٹ جائے‘ مگر آپ کو منہ نہیں کھولنا ‘
خاموش رہنا چاہیے اور آپ یقین کرینگے سونامی خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو خاموشی کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ وہ بہرحال پسپا ہو جاتا ہے ‘ آپ بھی خاموش رہ کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دے سکتے ھیں۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پائی..
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 415 Articles with 227344 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.