ابتداۓ عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
|
|
میرے دوستو میرےی بہنوں۔۔ میرے بھائیو۔۔۔۔اور میرے بزرگو
اسلام علیکم۔۔۔
ایک لمبے وقفے تک ہماری ویب پر نظر نہ آنے کی کچھ وجوہات تھیں۔۔۔جنکو مختصرا بیان تو نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔مگر۔۔۔ایک سطر میں بات کی کچھ وضاحت ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔اور وہ یہ کہ میری شادی کے بعد کچھ ذمہ داریاں بڑھ گئیں ہیں مصروفیات بدک گئیں ہیں۔۔۔۔وقت کی قلت اور ذہنی رجحان کے بٹ جانے سے میرا۔۔۔آپ لوگوں سے رابطہ کٹ سا گیا تھا۔۔۔۔۔بہر حال جب جب فرصت ملے گی میں آپ لوگوں کے ساتھ اپنے خیالات شئیر کرتی رہوں گی۔۔۔۔۔۔
قارئین اکرام عشق جیسا بے باک لفظ زبان پر آتے ہی ہماری رگوں میں موجود خون کی گردش جوش میں آ جاتی ہے اور اسکے ساتھ اسم محمد بھی لگ جاۓ تو اس سمندر میں ڈوب جانے کا دل چاہتا ہے
مگر ذرا رک کر غور کیجیے کہ ہم کہیں عشق کے اسباق کو سمجھ بھی پاۓ ہیں یا کہ نہیں ۔۔۔۔ع ش ق سے بنا یہ ایک لفظ انسن کو عروج سے اس لیۓ نوازتا ہے ۔۔۔۔کہ اس لفظ پر عمل کرنے والے معشوق تمام اشراق سے پاک یعنی مشرک نہیں ہوتے انکا عقیدہ اسی ایک ہستی پر ایمان لانا ہوتا ہے جس نے انکا جلا بخشی ہے مگر میں ان عاشقوں سے سراپا سوال ہوں ۔۔۔۔کہ کیا کوئ عاشق ع کے بغیر بھی منزل تک پہنچنے میں کبھی کامیاب ہوا ہے جس لفظ سے اسکی ابتدا ہوئ ہو اسے انتہا پر دھکیل کر عروج کی تمنا سمجھ سے بالا تر ہے۔۔۔۔
عقل کا آئینہ توڑ کر عشق وجود میں آتا ہے جب عاشق ہی عقل کا لبادہ اوڑھ لے گا تو پھر باقی لوگوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے مجھے ان عاشقوں سے انتہائ ادب سے شکوہ ہے جو ہماری سوچ کو اندھیرں کی نظر کرنا اپنا عین فرض سمجھے ہوۓ ہے۔۔۔ہمارے وجود پر خوف کے پہرے لگا کر ہمیں منزل سے گرانا چاہتے ہیں مجھے تو ایسے عاشقوں کو اپنے ساتھ کھڑے کرنے میں توہین سی محسوس ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ جن کے مقاصد کا آغاز فریب سے ہوتا ہو انکی منزل بھی دھوکے کے علاوہ کچھ بھی نہیں انتہاۓ افسوس کے بعد بھی میں آپکو اپنے ارادوں کی پختگی کا یقین دلاتی ہوں اور آپکی خدمت میں ایک شعر عرض کرتی ہوں جو کہ اقبال نے اپنے شاہینوں کو کچھ اسطرح گفٹ کیا ہے۔۔۔۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جنکی خدا پر ہو طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے جناب میں عرض ہے کہ خدا اپنے بندوں کو آزمائش میں تو ڈالتا ہے مگر جب آزمائش ظلم میں ڈھل جاتی ہے تو برداشت سے باہر ہونا ایک عام سی بات ہے۔۔۔جب ہم ظلم کے خلاف ہی نہ کھڑے ہوں گے تو پھر یہ ہی ظلم کی آگ آپکو بھی جھلسا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔میرا کہنے کا مقصد محض یہ ہے کہ آمائش اللہ کیطرف سے ہوتی ہے اور ظلم خاموش رہنے کی وجہ سے ڈھایا جاتا ہے تو پھر انکو عشق کے ق کے دو نقطے کیوں بنا دیا گیا ہے یعنی کہ ہر دو آنکھیں رکھنے والا انسان خواب دیکھنے کا خواہشمند ہے مگر یہاں ایک راز کی بات بتاتی چلوں کہ ہماری آنکھیں خواب دیکھنے کے لیۓ درد دل کی محتاج ہوا کرتی ہیں اور یہ ہی درد دل کا مرض بڑھتا ہے تو عاشق عشق کی صورت اختیار کر لیتا ہےاور اسی عشق کو اقبال نے اپنی شاعری میں کچھ اسطرح بیان کیا ہے
آتش عشق میں پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
کہ مجرم سوز وفا شمع بھی پروانے بھی |