پاکستان ہو ،یا پنچاب ۔یا سندھ ۔خیبر پختونخوا ہوکہ
بلوچستان۔گلگت بلتستان ہو کہ کشمیر ہر جگہ لوگ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں
۔نفرت وعداوت کے جذبات عام ہورہے ہیں ۔ 1971 میں یہی حالت مشرقی پاکستان کی
تھی۔طاقت کا استعمال تب بھی تھا اب بھی ہے۔بے تحاشا نقصان تب بھی اٹھانا
پڑا تھا اب بھی اٹھانا پڑرہا ھے ۔ وسیع تناظر سے آپ کو آگاہ کرنےکا مقصد یہ
تھا کہ آپ کو ایک محدود تناظر میں ایک صورتحال کا تجزیہ کرنے اور زمہ داران
کو ہوش کے ناخن لینے پر آمادہ کیا جاسکے۔یہ قصہ ہے ریور گارڈن کا جو کہ
اسلام آباد کے زون پانچ کی ایک رہائشی کالونی ہے۔ یہ سوسائیٹی دو
سوسائیٹیوں کے ملنے سے بنی ہے ایک گلگت بلتستان ھاوسںنگ سوسائٹی اور دوسری
ریور گارڈن ۔یہ چمن میجر اعجاز محمود اور گلگت بلتستان کے چند ساتھیوں نے
آباد کیا تھا ۔اپنے منفرد محل وقوع کی وجہ سے رہائش کے لیے اسے ہمیشہ پسند
کیا گیا ہے۔ اس سوسائٹی میں کل ایک ھزار گھروں کی گنجایش ہے ۔ ایک لحاظ سے
یہ ایک بند سوسائٹی ہے۔ منصوبے کے مطابق اس سوسائٹی کا لے آؤٹ پلان سی ڈی
اے کے طرف سے منظور شدہ ہے ۔ جس کی رو سے سی ڈی اے کو یہ یقین دلایا گیا
تھا کہ سوسائٹی رھائشیوں کو رھائش کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولتوں کی فراہمی
کی پابند ہو گی ۔ یہ سی ڈی اے کی بنیادی شرط ہے کہ نجی یا کوآپریٹو
سوسائیٹی میں مارکیٹس۔مساجد ۔اسکول ۔ھسپتال ۔ سیکیورٹی ۔سڑکیں۔قبرستان۔پانی
۔بجلی ۔گیس ۔ بنک ۔پارک۔بچوں کے کھیلوں کے گراؤنڈ ۔ٹیلی فون کی سہولیات کی
فراہمی کو یقینی بنایا جاے اور ریور گارڈن کے کیس میں ان تمام سہولیات کی
زمہ دار ریور گارڈن کی انتظامیہ ہے۔ ان تمام کے بدلے سوسائٹی رہائشیوں سے
بل وصول کرتی ہے جن میں وقت کے ساتھ ساتھ بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جبکہ
سوسائیٹی کی مجموعی صورتحال ابتری کی طرف گامزن ہے ۔ آئے دیکھتے ہیں کہ آخر
اس ابتری کا سبب کیا ہے۔وہ کونسی خرابیاں ہیں جن کے باعث صورت حال روزبروز
بگڑتی جارہی ہے۔ملک کا کیا کہنا ایک چھوٹی سی سوسائیٹی ہم سے سدھارتے نہیں
سدھرتی۔۔ گہرے اور عمیق جائزے کے بعد یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ میجر اعجاز
محمود کی ضعیف العمری کے باعث اس سوسائیٹی سے انکا عملی تعلق کمزور ہو کر
رہ گیا ہے اگرچہ وہ ذہنی طور پراب بھی اس سوسائیٹی سے ایک جذباتی لگاؤ
رکھتے ہیں وہ کہا کرتے تھے سوسائٹی میرے لیے اپنے بیٹے رضوان کی طرح ہے۔
انکی مرنجان مرنج مزاج کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ وہ سیکیورٹی کے
انچارج ندیم خان کو بھی اپنا بیٹا قرار دیتے تھے۔ خرابی کا آغاز کہاں سے
ہوا اس وقت ہوا جب انہوں نے اور انکے فرزند رضوان اعجاز نے سارا انتظام
نوکروں کے حوالے کردیا اور نوکر کاروبار کا کیا حشر کرتے ہیں وہ کسی سے
پوشیدہ نہیں ہے ۔ اور المیہ تو تب ہوتا ہے جب نوکر ٹریننگ لینے کو اپنی کسر
شان سمجھتے ہوں اور اپنے آپ کو مینیجر سمجھنے کے بجاے آقا سمجھ بیٹھیں
سوسائیٹی میں ٹیلیفون بچھانے کا آغاز ہوا تو رہا ئشیوں سے وصولی کی گئ جو
کہ سراسر انتظامیہ کی زمہ داری تھی اس لئے کہ انتظامیہ پلاٹوں کی قیمت پہلے
ہی وصول کر چکی تھی دوسرا مرحلہ سوسائٹی کے گرد حفاظتی باڑ لگانے کا آیا تو
بھی انتظامیہ نے وصولی کرلی حالانکہ باڑ لگانے کی رقم پلاٹوں کی قیمت میں
پہلے ہی شامل تھی۔رہا ئشیوں سے ستر فیصد رقم وصول کرنے کے باوجود باڑ کا
کام آدھورا چھوڑ دیا گیا جس سے باڑ لگانے کا مقصد ہی فوت ہوگیا ۔سوسائٹی
کےسترہ کنال رقبے پر محیط قبرستان کو سوا دو کنا ل پر لایا گیا ۔باقی
قبرستان کو تیرہ کیلو میٹر دور کہوٹہ روڈ پر منتقل کردیا گیا ۔اس میں
رہائشیوں کی مرضی کا کوئ عمل نہ تھا اور نہ ان سے پوچھا گیا۔ 2023 اور
2024- 25 اس سوسائیٹی کے لئے سب سے تباہ کن سال ثابت ہوے ہیں۔بجلی کے مسائل
نے سوسائٹی کو گھیرے رکھا ۔گیس کے مسائل الگ سر نکالتے رہے لیکن جنوری 2025
میں پولیس اسٹیشن بنانے کے بہانے سوسائیٹی کاوہ پلاٹ بھی خطرہ میں پڑ گیا
جو کمیونٹی سنٹر کے لیے وقف تھا ۔سوسائٹی انتظامیہ کی یہ غفلت تھی کہ اس نے
کمیونٹی سنٹر کا پلاٹ خالی چھوڑے رکھا خالی گھر میں تو دیو بھی اپنا گھر
بنالیا کرتے ہیں اس کے علاؤہ کئی اور پلاٹ بھی خالی پڑے ہیں ۔کئی سڑکیں کچی
چھوڑی ہوئی ہیں۔ اسکولوں اور ہسپتالوں کے پلاٹ بھی خالی پڑے ہوے ہیں اس کے
علاؤہ بھی ان گنت مسائل ہیں جن کے باعث اس سوسائیٹی کا حسن گہنا کے رہ گیا
ہے اور میجر اعجاز محمود کا خواب بکھرتا جارہا ہے ۔اس موقع پر سب سے بڑے
مسئلے کا بھی ذکر کیا جاے تو بے جا نہ ہوگا اور انتظامیہ کا رہائشی دشمن
رویہ ہے۔ کسی بھی ادارہ یا ملک کی اس وقت تباہی مقدر ٹھہرتی ہے جب اس کے
لوگ اندرونی طور پر بے چین ہوں ۔جب انکے درمیان امتیاز برتا جاتا ہو۔یا کچھ
لوگوں کو قریب اور کچھ کو دور رکھا جاتاہوجن کو قریب رکھا گیا ہے وہ پچھلے
کیی سالوں سے انتظامیہ کے منظور نظر اور قربت میں بڑھ کر ہیں ان کے علاوہ
رہائشیوں کو فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اگر رہائشی اپنےمیں سے کسی
کو منتخب کر بھی لیں تو انتظامیہ ماننے کو تیار نہیں لہذا تباہی کی ایک بڑی
وجہ ریورگارڑن انتظامیہ کے ایسے فیصلے بھی ہیں۔میرے خیال میں میجر اعجاز
محمود اور انکے فرزند رضوان اعجاز تک حقیقی بات نہیں پہنچنے دی جاتی ورنہ
وہ اپنے گلشن کو یوں تباہ نہ ہونےدیتے۔
|