حکیم لقمان ؒ سے منسوب ایک حکایت
میں تحریر ہے کہ ایک دن بہت سے عام مکھیاں شہد کی مکھیوں کے چھتے کے پاس
جاکر اُن سے کہنے لگیں یہ شہد ہمارا ہے یہ ہمیں دے دو اس پر جھگڑا ہوگیا
دونوں قسم کی مکھیاں مقدمہ لے کر فیصلے کے لیے زنبور کے پاس گئیں اور اسے
جج بنایا زنبور مکھیوں کے مزاج کو بہت اچھی طرح سمجھتا تھا اس نے تمام
تفصیل سن کر کہا کہ ”اے دوستوں عدالتی معاملات میں بہت خرچا بھی ہوتاہے اور
فیصلے میں وقت بھی لگتاہے تم دونوں طرف کی مکھیاں ہماری دوست ہو اس لیے میں
نہیں چاہتاکہ تمہارا کوئی نقصان ہو اور فیصلے میں زیادہ وقت لگے اب تم
دونوں قسم کی مکھیاں جو میرے پاس آئی ہو تم دونوں کی شکلیں بہت ملتی جلتی
ہیں اس لیے اس بات سے سچ اور جھوٹ کو معلوم کرنا بہت مشکل کام ہے بہترحل یہ
ہے کہ تم دونوں قسم کی مکھیاں ابھی جاﺅ اور خالی چھتوں میں شہد بناﺅ میں اس
کا مزا اور رنگ دیکھ کر معلوم کرلوں گاکہ اس شہد کا مالک کون ہے اور سچے
جھوٹے کا معلوم ہوجائے گا “
شہد کی مکھیوں نے یہ بات فوراً قبول کرلی جبکہ دوسری قسم کی مکھیاں یہ سن
کر گھبراگئیں اور آپس میں بحث کرنے لگیں اس پر زنبور نے فیصلہ سنادیا کہ
شہد کی مکھیاں سچی او رعام مکھیاں جھوٹی ہیں ۔
قارئین ہمارے آج کے کالم کے موضوع کو دیکھ کر آپ کے زہن میں یقیناناگوار
قسم کے سوالات پیدا ہوئے ہوں گے او رآپ نے سوچا ہوگا کہ فرانس جیسے بدکار ،بدقماش
اور آوارہ معاشرے کو آزادکشمیر کے اسلامی تشخص رکھنے والے علاقے سے تشبیہ
دینا کہاں کا انصاف ہے تو اپنے معزز پڑھنے والو ں کو ہم بتاتے چلیں کہ کل
شام تک ہم بھی آزادکشمیر میں آنے والے اس منفی انقلاب اور بدمعاشی اور بے
غیرتی پر مبنی ایک سرکاری ادارے میں کی جانے والی کوشش سے لاعلم تھے ہمیں
درجنوں دوستوں نے رابطہ کیا اور اپنے مجروح جذبات ارباب اقتدار تک پہنچانے
کا حکم دیا اس لیے آج اپنے ایمان کے تقاضوں اور دوستوں کے حکم کی تعمیل میں
ہم ایک انتہائی خطرناک سازش آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں ۔
قارئین مجھے آپ کو اور ہم سب کو سرکاری ہسپتالوں میں جانے کا اتفاق ہوتاہے
اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ہماری ہی مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں فرشتوں جیسا
سفید لباس پہنے دکھی انسانیت کی خدمت کررہی ہوتی ہیں یہ مائیں بہنیں اور
بیٹیاں ہماری قوم کی عزت ہیں انہی ہسپتالوں میں ایڈمنسٹریشن کا ایک شعبہ
بھی ہوتاہے جو تمام ہسپتال کے انتظامی امور کی نگہداشت کرتاہے ان تمام شعبہ
جات کا سربراہ میڈیکل سپرنٹڈنٹ نامی ایک صاحب ہوتے ہیں آزادکشمیر کے معاشی
دل میرپور کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں درجنوں نرسیں کام کرتی ہیں ان کی
سربرا ہ ایک عیسائی خاتون ہیں میرپور ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال کو انگلینڈ اور
میرپور کی معروف کاروباری ،سماجی اور مذہبی شخصیت حاجی محمد سلیم نے اپنی
ذاتی آمدن سے کروڑوں روپے خرچ کرکے کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی بناکردیا
اس ادارے نے گزشتہ دس سالوں کے دوران لاکھوں لوگوں کو امراض قلب کے علاج کی
سہولیات مہیاکیں اس ادارے میں ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر ،ڈاکٹر یوسف چوہدری
،ڈاکٹر رضا گورسی اور ڈاکٹر رضوان عابد کارڈیالوجسٹ کے طور پر کام کررہے
ہیں جبکہ متعدد نرسیں 24گھنٹے ڈیوٹی پر ہوتی ہیں حاجی محمد سلیم کی شخصیت
کا یہ اعجاز ہے کہ امراض قلب کے اس ادارے میں انہوں نے جو مسجد بنوائی ہے
وہاں باجماعت نماز اداکی جاتی ہے اور مذہب کا مثبت اثر ڈاکٹرز اور نرسز پر
بھی بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کام کرنے والی بچیاں ”حجاب یعنی پردہ
“کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی انجام دیتی ہیں واقعہ یہ پیش آیا کہ نرسز کے شعبہ کی
سربراہ ایک عیسائی خاتون نے ان بچیوں کو حکم دیا کہ اگر انہوں نے نوکری
بچانی ہے تو پردہ ترک کردیں اور نرسز کا لباس پہن کر ڈیوٹی کریں اس پر نرسز
نے جو بلاشبہ پہلے مسلمان اور بعد میں کوئی پروفیشنل ہیں انہوں نے شدید
احتجاج کیا اس پر ہسپتال کی طرف سے نوٹیفیکیشن جاری کیاگیا کہ تمام نرسز
ڈیوٹی کے دوران ”پاکستان نرسنگ کونسل “کے بیان کردہ لباس کی پابندی کریں
ورنہ ان کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے گی ۔
ہماری معلومات کے مطابق سابق ضلع مفتی معروف عالم دین اور سکالر مفتی محمد
رویس خان ایوبی اور موجودہ ضلع مفتی نے متفقہ طور پر یہ رائے دی ہے کہ اگر
یہ بچیاں حجاب کے ساتھ اپنی ڈیوٹی کرنا چاہتی ہیں تو حکومت ان پر کوئی
پابندی نہیں لگاسکتی ۔
قارئین یہ بھی ہر کوئی جانتاہے اور سینہ گزٹ سے پھیلنے والی خبریں تصدیق
کرتی ہیں کہ بدکردار افسروں کو خوش کرنے کے لیے انہی معصوم بچیوں کا
استحصال بھی کیاجاتاہے ایک سابق حکومت کے دور میں تو یہاں تک خبریں پھیلی
تھیں کہ وزراءکو خوش کرنے کے لیے ان بچیوں کو نوکریوں سے نکالنے کی دھمکیاں
دے کر جنسی استحصال کی کوشش بھی کی گئی اور بات وزیر اعظم آزادکشمیر تک بھی
پہنچی ۔
فرانس اور یورپ کے بعد ”تہذیبی ترقی اور مادر پدر آزادمعاشرت “اب پاکستان
اور آزادکشمیر کے دروازے پر دستک دے رہی ہے ہمیں سمجھ نہیں آتاکہ ہماری
حکومتیں اور سیاسی قیادت کیاکررہی ہیں اگر فکری سطح پر اس طرح کی بدمعاشی
جاری رکھی گئی اور شعائر اسلامی کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کی گئی تو
یادرکھیے ہمارامعاشرہ تباہ وبربادہوجائے گا اور وہ تمام حادثات جو مغربی
معاشرت کو پیش آ چکے ہیں او رپیش آرہے ہیں وہی ہمیں بھی پیش آئیں گے بقول
اقبال
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدارہوگا
یادرکھیے ہر انسان ایک معین مدت کے لیے اس دنیا میں آیا ہے او راس دار
امتحان میں مخصوص وقت گزار کر اس نے اپنے خالق کے پاس جاکر حسا ب دیناہے
محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران او ر حکومت آزادکشمیر سے ہماری گزارش ہے کہ
خدارا وہ کام مت کیجیے کہ جس پر ہم اللہ کے آگے جواب دینے کا قابل نہ ہوں
اگر نرسز پاکستان نرسنگ کونسل کے بتائے گئے یونیفارم کے ساتھ پر دہ کرنا
چاہتی ہیں تو اس حجاب پر پابندی مت لگائی جائے یہی ہماری درخواست اور ان
نرسز کی استدعا ہے باقی رہی بات وہ لوگ جو معاشرے کے اندر بے حیائی بے
غیرتی اور بدمعاشی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ان کے لیے اس دنیا میں بھی
عذاب اور آخرت میں بھی یہ لوگ شرمسار ہوں گے بقول اقبال ایسے لوگوں کے لیے
ہم یہی کہیں گے
چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صبحت ِرنداں سے واجب ہے حذر
جائے مے اپنے کو کھینچاچاہیے
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے
قوم کے مسیحاﺅں کے ساتھ فرشتوں جیسی پاکیزگی کی حامل یہ نرسیں ہماری عزت
ہیں اور ہمیں اپنی عزت کی حفاظت کرنا آنا چاہیے -
اگر خدانخواستہ یہ راستہ کھل گیا اور نرسز کے پردے اور حجاب پر آزادکشمیر
میں پابندی عائد کردی گئی تو یادرکھیے ہم اپنی تباہی کی بنیاد خود رکھ لیں
گے -
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ڈاکٹر نے نر س سے پوچھا
ارے سسٹر اس بیڈ والا مریض کہاں گیا ؟
نرس ”ڈاکٹر صاحب اسے بہت سردی لگ رہی تھی اس لیے میں نے اسے ا س مریض کے
ساتھ شفٹ کردیا جسے ایک سو پانچ بخار ہے “
قارئین ہمارے اعلیٰ افسران نجانے کون سی الٹ پھیر کرکے صحت کی سہولیات
بہتربنانے کی کوششیں کررہے ہیں اور اس کا آغاز انہوں نے نرسز کے حجاب پر
پابندی سے کیا ہے ۔۔ |