جس تنا سب سے پاکستا ن میں ملکی
و غیر ملکی فو ڈز چین، ہو ٹلز، اور ڈھا بوں کی بھر ما ر ہو رہی ہے وہ دکا
نیں جہا ں کبھی کتا بوں کے خر یدار آتے تھے وہا ں اب اب انواع واقسام کے
کھا نوں کا رو با ر عروج پر ہے عوام میں اس وقت سب سے منا فع بخش کا رو با
ر اسے ہی تسلیم کیا جا تا ہے عوام کی بھوک کا ندازہ فوڈ چینلز کی بھر ما ر
ان پر دکھا ئے جا نے والے گراں قدر کھا نے کی تر اکیب جسے دیکھ کر عوام کی
بھو ک میں مز ید اضافہ ہو جا تا ہے اسی موضوع سے ملتا ہو ا ایک ایس ایم ایس
بھی پڑھ لیجیے اگر آپ کو قیامت کا منظر دیکھنا ہو تو شا دی ہا لوں میں کھا
نا کھلنے کے منظر پر نظر ڈا ل لیجئے کھا نا کھلنے کی دیر ہو تی ہے تما م
ادب و آداب کو با لا ئے طاق رکھ کو ئی کسی کو نہیں پہنچا نتا ما ئیں بچوں
کو بھو ل کر کھا نا لینے دوڑتی ہیں ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہو تی ہے ایسا
لگتا ہے کہ آخری کھا نا ہو اس کے بعد پھر کبھی نصیب نہ ہو گا یہ مناظر
ہماری قومی مزاج کی پہچان ہے کہ ہم ایک نا ئشستہ اور بھوکی قوم ہیں ہم اسی
پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ کھانے کے بعد ہم جس طرح بہت سارا کھا نااپنی
پلیٹوں میں ضائع کر تے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہم کو ئی بہت امیر کبیر ،آسودہ
حال ملک کے شہری ہیں بد قسمتی سے یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسری جا نب ہمیں
گھنٹوں دھوپ میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے بو ڑھے مردو خواتین نظر آتے ہیں
جو چند مٹھی بھر راشن کے لیے ذلت اٹھا تے ہیں انتظامیہ اور پو لیس کی
دھتکار اور ڈنڈوں کو بر داشت کر تے ہیں کئی ایک اپنی جا نوں سے بھی ہا تھ
دھو تے ہیں پورے سال ملک میں کبھی آٹا، چینی یا پیاز وغیرہ کی قلت کا عوام
شکار رہتے ہیں مگرہما رے حکمراں لمبے لمبے خو شحالی کے دعوے کرتے تو نظر
آتے ہیں لیکن وہ حالات کی سنگینی پر سنجیدہ نہیں شا ئد اس لیے بھی کہ ان کے
محلوں کو بھوک نا می بلا سے کو ئی واسطہ نہیں پڑا ،یا پھر انھیں تا ریخ سے
سبق لینا نہیں آتا جب1789ءفرانس میں آٹا با زارسے غا ئب ہو گیا عوام بھوک
اور غربت کے ہا تھوں تنگ آکر شاہی محل کے سا منے بھوک بھوک کی صدا لگا رہے
تھے یہ نعرے ملکہ اینٹو نیٹ کو سخت برے لگ رہے تھے اس نے کہا ”کہ اگر تم لو
گوں کو رو ٹی نہیں ملتی تو تم کیک کھا لو“ جواب میں روٹی کا نعرہ لگا نے
والوں میں بغاوت کی چنگاری بھڑکی وہ اپنے گھروں سے نکلے انھوں نے بیٹا ئل
جیل کا رخ کیا اور ان تما م لو گوں کو رہا ئی دلا ئی جو بے گنا ہی کا سزا
بھگت رہے تھے اس کے بعد پورے فرانس میں ان تما م کسانوں، مز دوروں اور بے
روزگا روں کو جو آسودہ حال نظر آیا انھوں نے اسکا سر تن سے جدا کر دیا ملکہ
اینٹو نے کو پھانسی دے دی گئی یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ملکہ کو پھا نسی بھی
16 اکتوبر کے دن دی گئی سارا شاہی خا ندان ما را گیا ، جا گیردار، امراءاور
پا دری ما رے گئے اس دور میں حالت یہ ہو گئی کہ فرانس میں جو شخص خو بصورت
اور صحت مند نظر آتا اسکے با ل لمبے ،ہا تھ خو بصورت نظر آتے عوام اسے قتل
کر دیتے تما م پولیس اور فو ج بھی مل کر اپنے حکمرانوں کو نہ بچا سکی آج
بھی پو ری دنیا اس وقت جس معا شی اور مالی بحران سے دوچار ہے اس میں غریبوں
کی حالت سب سے بد تر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مز ید ابتر ہو تی جا رہی ہے
۔۔
پوری دنیا میں16 اکتوبر 1945ءکو عالمی ادارہ فوڈ اینڈ ایگری کلچرآر گنا
ئزیشن (فا ﺅ) کا دن مقرر کر نے کا فیصلہ کیا گیا اس کی کو شش ہوتی ہے کہ
دنیا میں پھیلے ہو ئے بھوک کے اژدھے سے مقابلہ کرے 16 اکتوبر کو عالمی یوم
خوراک منا نے کا مقصد ہی یہ ہے کہ پیٹ بھرے لو گوں کو اس با ت کا احساس دلا
یا جا ئے کہ اپنی اس خوش نصیبی میں دوسروں کو برابر کا شریک سمجھیں جنھیں
اس کی تو فیق نہیں ہو تی وہ اس کا احساس ضرورکر یں ۔ ہر سال ڈیڑھ سو ممالک
میں منائے جا نے وا لے اس دن دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی تنظمیں،
یورنیورسٹیوں ، کا نفرسوں اور ورکشا پوں میں خوراک کی پیداوار، تقسیم اور
حفا ظت کے با رے میں خصوصی اقدامات پر غور کرتی ہیں اس سال عالمی ادارہ
خوراک کادن دنیا بھر میں غذائی اجناس کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں کے حوالے سے
منا یا جا رہا ہے جس میں اس سال کا مو ضوع ہے ”خوراک کی قیمتوں میں بحران
سے استحکام “دنیا کے غریب ترین ممالک کے لو گوں کے با رے میں اندازہ لگا یا
گیا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا اسی فی صد حصہ اپنے کھا نے پر خرچ کر تے ہیں
غذائی قیمتوں میں اضافے سے مز ید غربت میں اضافہ ہو اہے جب کہ دوسری جا نب
فا ﺅ کا شکوہ ہے امریکہ سمیت تما م امیر ممالک عالمی ادارہ خوراک کو وعدہ
کے مطا بق ما لی امداد فراہم نہیں کرر ہے سال بہ سال اس کی کمی کا ندازہ اس
با ت سے لگا یا جا سکتا ہے 1980میں یہ رقم نو ارب ڈالر تھی جوایک دھا ئی کے
بعد پا نچ ارب ڈالر تک پہنچ گئی افریقی ممالک جو خانہ جنگی ، ایڈز اور ٹی
بی کے عذاب میں مبتلا ہیں وہا ں بھوکوں کی تعداد میں اضافہ تشویش نا ک امر
ہے فا ﺅ کا نفرس میں عہد کیا گیا تھا کہ 2015ءتک دنیا سے بھوک اور غربت میں
کمی کی جا ئے گی مگر افسوس اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا اب سے دوسال قبل
غربت کی نچلی تر ین سطح پر گزر بسر کر نے والوں کی جو تعداد ایک ارب تھی اب
دو ارب پر پہنچ چکی ہے ۔
پا کستا ن میں بنیا دی ضرورتوں سے محروم پاکستا نیوں کی تعداد کے با رے بے
نظیر انکم سپورٹ کی انچارچ فرزانہ را جہ کے مطا بق 37 لا کھ سے سے بھی زائد
ہے یہ وہ لو گ ہیں جو انتہا ئی حد تک کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ہمارا
ملک ایک زرعی ملک ہے جس کے پاس افرادی قوت ،اچھی آب وہوا اوردنیا کا سب سے
بڑا نہری نظام ہے اسکی 75فی صد سے زائد آبا دی بلواسطہ یا بلا واسطہ زراعت
کے پیشے پر انحصار کر تی ہے جب کہ پورے ملک کی نصف سے زیادہ کا شتکاری پنجا
ب میں ہو تی ہے پنجاب کا شمار دنیا کے زر خیز علاقوں میں ہو تا ہے مگر ہما
ری غلط پا لیسیوں اور اصلا حات کی وجہ سے پورے ملک میں کا شتکا ری کا تنا
سب کم سے کم ہو تا جا رہا ہے دوسال سے سیلا ب کی تبا ہ کاریوں کے بعدجو
حالا ت ہیں ان میں قدرتی آفات سے زیا دہ غلط اصلا حات اورہما رے پا لیسی سا
زوں کے نا قابل حد تک بڑھے ہو ئے غیر پیداواری اخراجا ت ہیں اس میں بیورو
کر یسی ، افسر شا ہی اور حکو متی ارکا ن شامل ہیں اس بحران سے نکلنے کے لیے
ایک مخلص اعلیٰ قیا دت کی ضرورت ہے جوہمیں کہیں نظر نہیں آتی افسوس کہ
ہمارے معاشر ے میں کس قدر تضاد ہے کہ ایک طرف اشرفیہ طبقہ دونوں ہا تھوں سے
دولت لو ٹنے اور پیٹ بھرنے میں مگن ہے طر ح طرح کے انواع واقسام کے کھا نے
اس کے دستر خوان پر سجتے ہیں انھیں سمجھ نہیں آتا کیا کھا ئیںکیا نہ کھا
ئیں اور دوسری جا نب وہ لوگ ہیں جنھیں ایک وقت پیٹ بھر کھا نا بھی نصیب
نہیں ۔۔۔ |