تقسیمِ ہند 1947 میں برصغیر کی تاریخ کا ایک المناک باب
ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد نے ناقابلِ بیان مصائب سہے۔ برطانوی راج
کے تحت ہندو، مسلم اور سکھ صدیوں سے ایک ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے، مگر جب
آزادی کا وقت آیا تو اس کا مطلب محض ایک نئی صبح نہیں بلکہ خون کی ایک ندی
بن گیا۔ خاص طور پر پنجاب وہ خطہ تھا جہاں سب سے زیادہ خونریزی ہوئی، اور
پنجابیوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔
پنجاب: تقسیم کا مرکز
پنجاب وہ خطہ تھا جو تقسیم سے پہلے ہندوستان کی سب سے خوشحال ریاستوں میں
شمار ہوتا تھا۔ یہاں ہندو، مسلمان اور سکھ بڑی تعداد میں آباد تھے۔ مگر جب
تقسیم کا اعلان ہوا تو یہ خطہ دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا: مشرقی پنجاب
بھارت کے حصے میں آیا اور مغربی پنجاب پاکستان کا حصہ بنا۔ اس فیصلے نے
لاکھوں خاندانوں کو بےگھر کر دیا اور پنجاب میدانِ جنگ بن گیا۔
لاکھوں جانوں کی قربانی
تقسیم کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتیں پنجاب میں ہوئیں۔ مؤرخین کے مطابق
تقریباً 5 سے 10 لاکھ افراد فسادات میں مارے گئے۔ مسلمانوں، ہندوؤں اور
سکھوں نے ایک دوسرے پر بےرحمانہ حملے کیے۔ مسلح جتھوں نے بستیاں جلا دیں،
عورتوں کی عصمت دری کی گئی، اور بچوں تک کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا۔
ہجرت: دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی
یہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی جس میں ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زائد افراد
کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ مسلمان مغربی پنجاب اور پاکستان کے دیگر
علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے تھے، جبکہ ہندو اور سکھ مشرقی پنجاب اور بھارت
کی جانب جا رہے تھے۔ یہ ہجرت کسی عام سفر کی طرح نہیں تھی بلکہ خون اور
آنسوؤں سے بھری ہوئی تھی۔ ٹرینوں میں لاشیں بھری ہوتی تھیں، قافلوں پر حملے
ہوتے، اور راستے میں بے شمار معصوم زندگیاں دم توڑ دیتیں۔
خواتین اور بچوں پر مظالم
پنجاب میں ہونے والے فسادات میں عورتوں اور بچوں نے سب سے زیادہ تکلیفیں
برداشت کیں۔ تقریباً 75 ہزار عورتوں کو اغوا کیا گیا، جن میں سے کچھ کو
جبری شادیاں کرنی پڑیں، کچھ کو جسم فروشی پر مجبور کیا گیا اور کچھ نے عزت
بچانے کے لیے خودکشی کر لی۔ اس انسانی المیے کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔
پنجابیوں کی قربانیاں اور اثرات
پنجابیوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر آزادی کا خواب پورا کیا، مگر اس کا
خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں بسنے والے پنجابی آج بھی
اس زخم کو محسوس کرتے ہیں۔ لاکھوں خاندان بکھر گئے، ثقافت متاثر ہوئی اور
پنجابی تہذیب کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو گیا۔
تقسیمِ ہند صرف دو ملکوں کی علیحدگی کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک انسانی
سانحہ تھا، خاص طور پر پنجاب کے لیے۔ اگرچہ وقت گزر چکا ہے، مگر تقسیم کے
زخم آج بھی تازہ ہیں۔ پنجابیوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہماری ذمہ داری
ہے، تاکہ آئندہ نسلیں اس المیے کو سمجھ سکیں.
|