چمڑے کی جھونپڑی اور وال سڑیٹ

 اُفقِ گفتگو۔از۔ایس ۔یو۔شجر

شیرخدا ‘حضرت علیؓکا فرمان ہے ”اگرمفلسی مجھے انسان کی صورت میں نظر آئے تو میں اسے قتل کر دوں“۔غربت کے ہاتھوں مفلوک الحالی اور ذلالت ازل سے ہی قدرت کے کارخانے میں موجود تھی یا انسان نے ہی اس کی ہیئت بدل کر انسانیت کی تذلیل کا بندوبست کیا ؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب نوشہ دیوار ہے مگر انسان دین سے ناطہ توڑ کر کبھی اس کا علاج کمیونزم‘سوشلزم اور کبھی سرمایہ دارانہ نظام میں ڈھونڈتا پھرتاہے۔نتیجتاً کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے محاورے سے بھی پست نتائج کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔مگر شاید جس کے شعور پر پردے پڑچکے ہوں اس پر کوئی نصیحت اثرانداز نہیں ہو سکتی سوا حضرت ”ڈنڈا“کے۔کیونکہ یہ وہ صاحب ہیں جو اس مصنوعی پردہ کے چودہ پرت بھی ہوں تو سب کچھ لمحوں میں آشکار کر وا دیتے ہیں۔

عالمی معاشی مرکزنیویارک کو انتظامی نقطہ سے پانچ حصوں میں منقسم کیا گیاہے۔جن میں سے ایک علاقہ کا نام ”مین ہٹن “ہے۔”مین ہٹن “کے جنوبی حصے کو لوئرمین ہٹن کہتے ہیں۔لوئرمین ہٹن کے مشرق میں ”مشرقی دریا“ مغرب میں دریائے ہڈسن‘اور جنوب میں نیو یارک کی بندرگاہ ہے۔اس طرح یہ علاقہ ایک بندرگاہ کی سی صورت دھار لیتا ہے۔اسی لوئرمین ہٹن میں”وال سڑیٹ ہے“ہے۔اسی ”وال سڑیٹ“کے سامنے امریکہ کے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے مٹھی بھر نوجوانوں نے 17ستمبر 2011 کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاج کیا ۔اس احتجاج کا عنوان ”وال سڑیٹ پر قبضہ کرو“( occupy wall street )تھا۔یہ تحریک اندرون امریکہ ستر سے زائد شہروں میں زور پکڑ چکی ہے ۔ ٹائم میگزین کے مطابق 54فیصد امریکی اس تنظیم کی حمایت کر رہے ہیں۔جبکہ دنیاکے 82ممالک میںسرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھنے والی آواز کے حق میں مظاہرے کیئے جارہے ہیں۔معاشی استحصالی کا شکاردنیا کے پانچوں براعظموں کے انسان سبک رفتاری سے اس تنظیم کا حصہ بن رہے ہیں۔

چند سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے امریکہ کے متوسط طبقہ کی معاشی ناکہ بندی‘عراق افغان جنگ کی وجہ سے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ‘کارپوریٹ سیکٹر کی اجارہ داری اور اس جیسے متعدد مذموم محرکات اس احتجاج کی بنیادی وجہ بنے۔امریکہ نے عراق افغان جنگ میں چار کھرب ڈالر جھونک کر خود ہی اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں بے روزگار افراد کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے۔روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ سرد بازاری امریکہ میں نو سال قبل اختتام پذیر ہو چکی تھی۔مگر اب امریکہ میں بے روزگاری کا تناسب نو فیصد ہے۔گورنمنٹ کی مدد سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے والے امریکی افراد کی تعداد ساڑھے چار کروڑ ہے۔حال ہی میں منظرعام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں بھی ٹیکس دہندگان اسی طرح بٹے ہوئے ہیں جس طرح غریب ممالک میں ہیں۔”وال سڑیٹ پر قبضہ کرو“ تحریک کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جس شرح سے ٹیکس کے نام پر غریب امریکیوں کا خون چوسا جا رہا ہے اس شرح سے سرمایہ داروں سے ٹیکس کی وصولی نہیں کی جاتی۔

غربت اور بے روزگاری سے تنگ آئے افراد پر امید تھے کہ صدر اوباما کا پیش کردہ 477 ارب ڈالر کا بل منظور ہونے سے عوام الناس کو ریلیف ملے گا مگر اسے شاید اوبامہ کی بدقسمتی کہئے کہ سو ارکان کے ایوان میں بل کی منظوری اور اسے لاگو کرنے کی غرض سے ساٹھ ووٹ درکار تھے لیکن بل کی حمایت میں 49 جبکہ مخالفت میں پچاس ووٹ کاسٹ ہوئے۔بل کے مسترد کیئے جانے سے عام امریکی کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی پھر گیا اور نوجوان احتجاج کرنے لگ گئے ۔مگر اب ہمیشہ کی طرح امریکیوں کی انگلی واشنگٹن ‘وائٹ ہاﺅس نہیں بلکہ ” وال سڑیٹ“بنی ۔شاید انہیں کسی نے عیاشی کا انجشکن لگا کر گہری نینند سلا دیا تھا۔

اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں سرمایہ دار افراد کی دولت کا تخمینہ 46کھرب ڈالر لگایا گیاہے۔جو کہ دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے۔جبکہ اسکے برعکس عام امریکی مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔

وال سڑیٹ سے نفرت رکھنے والوں کی صورت میں قدرت نے بنی نوع انسان کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے۔وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو سود جیسے نظام میں جکڑ دیا۔وہ لوگ جہنوں نے امن عالم ‘خاندانی منصوبہ بندی‘مذہنی ہم آہنگی‘انسانی حقوق‘چائلڈلیبرپروٹیکشن‘جمہوریت کے پردے میں انسانیت کو اجتماعی غلامی میں دھکیل دیا آج خودانسانیت کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہورہے ہیں۔ایک وقت تھا جب یہ کہا گیا کہ”کمیونزم کو ماسکو کی دیواروں میں بھی پناہ نہیں ملے گی“۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ فرعونی رعونت کا زعم لیئے جو سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تھا ‘ٹھیک بارہ برس بعد اس کی قوت کا شیرازہ بکھر گیا۔اب جبکہ امریکہ کو افغانستان میں بارہ برس ہونے کو ہیں اس کا سودی نظام لڑکھڑا رہاہے۔خلاف فطر ت قاعدوں پر کھڑی معیشت لزرہ براندم ہے۔عرب و عجم کے مابین نفرت کے بھانبڑ بھڑکا کر ساٹھ ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے والا چوہدری نہ جانتا تھا کہ قدرت جب چاہے‘جسے چاہے‘جہاں چاہے‘جس کے ذریعے چاہے رسواوذلیل کروا سکتی ہے۔چڑیوں سے باز مروا سکتی ہے۔یہ بہت بڑا سچ ہے کہ افغانستان امریکہ کو کھا گیا ہے۔

وال سڑیٹ کے خلاف ابھری لہر دیکھ کر ”بے خدائی معاشرہ“(god less society)کے بانی تھر تھر کانپ رہے ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کے سرمایہ دارانہ نظام جس کی اساس سود پر قائم ہے اس کی طرف داری نہ تو زبور اور تورات نے کی ہے اور نہ ہی اس کی حمایت انجیل مقدس اور قرآن پاک نے کی ہے۔بلکہ یہ صیہونی طاقتوں کا نظام ہے جو انسانیت کے لیئے زہر قاتل ہے۔

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ عیسی ابن مریم ؑ ہوں یا رحمت اللعالمینﷺ‘موسیؑ ہوں یا کوئی اور نبی مجموعی طور پر ان عظیم ہستیوں کو تکالیف پہنچانے میں سرمایہ دار طبقہ ہی پیش پیش رہا ہے۔چاہے وہ فرعون کی صورت میں ہو‘چاہے قارون کی صورت یا قریش مکہ(کفار)۔

لب لبا ب یہ کہ ”وال سڑیٹ پر قبضہ کرو“ نامی تحریک نے امریکیوں سمیت پوری انسانیت کہ دشمنوں کی تشخیص کر لی ہے ۔وال سڑیٹ کے مخالف بخوبی جانتے ہیں کہ ڈالر اور یورو کیوں زوال پذیر ہے اور ”شیکل“آخر کیسے عالمی اقتصادیات میں زور پکڑ رہا ہے۔

متوسط طبقے کا عیسائی ہو یا یہودی‘ہندو ہو یا مسلمان قریباًسب ہی وال سڑیٹ کے خلاف مزاحمتی تحریک کی کامیابی کیلئے دعاگو ہیں۔کیونکہ نسلی‘نظریاتی ولسانی تضاد اپنی جگہ مگر اپنے حقوق کا تحفظ اور چمڑے کی جھونپڑی (پیٹ) کی آگ بجھاناہی وال سڑیٹ کے مخالفین کا ایشو ہے۔اگر یہ تحریک کامیاب ہو گئی تو دنیا کے معاشی نظام کی بساط پلٹ دے گی بشر طیکہ انسان نے فطرت کے قانون کو بالائے طاق نہ رکھا تو۔۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174782 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.