بدبو

وہ دونوں بہنیں اعلٰی تعلیم یافتہ تھیں۔ بہت ہی خوددار اور بے حد حساس۔ ہر ایک کا غم بانٹنا اور دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک رہنا اُن کی عادت تھی۔اُن کے والد ،وجئے بھٹ سنٹرل گورنمنٹ کے ایک ادارہ میں اعلٰی عہدہ پر فائز تھے اورپوری دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔جہاں جہاں پوسٹنگ ہوتی اپنی فیملی کو ساتھ رکھتے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھتے۔ ارون نے انجینیرنگ کی تعلیم مکمل کرلی تو خلیجی ملک کی ایک کمپنی میں ملازم ہوگیا۔ورشا اور آشا کی ابھی تعلیم جاری تھی۔وجئے بھٹ کے ریٹائرمنٹ کے دن قریب آرہے تھے۔ وجئے بھٹ نے شہر کی پوش کالونی میںجہاں صاحب حیثیت اور آسودہ حال خاندان رہتے تھے ایک فلیٹ بھی خرید لیا تھا۔آس پاس میں اُن کے قریبی رشتہ دار بھی آباد تھے۔ارو ن گھر کا اکلوتا بیٹا تھااس لیے اُس کو ماں اُسے بہت سمجھاتی رہتی تھی کہ آکر اپنے ساتھ رہے۔ گھردار اور گاڑی سب کچھ ہے۔ لیکن ارون پر تو پیسہ کمانے کی دھن سوار تھی اور وہ ہر وقت اپنے خوشحال مستقبل کے بارے میں ہی سوچتارہتا۔بڑھاپے میں ماں باپ کواولاد کے سہارے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اُسے اس بات کا احساس ہی نہیں تھاکہ اپنی کمائی پر قناعت کرے اور ماں باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر رہے۔ شادی ہوئی تو ارون کی بیوی شوہر کی غیر موجودگی میں سسرال میں رہنے کے لیے تیار نہ تھی۔ وہ کسی اور فلیٹ میں رہنے لگی‘ چونکہ وہ بھی بینک میں ملازم تھی اپنے نھنے بچوں کے لیے بے بی سٹر کا انتظام کررکھاتھا۔گویا کسی سے کسی کو کوئی لگاﺅ نہیں تھا بس ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے زندگی بسر کرنا چاہتاتھا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ورشا یونیورسٹی میں پڑھانے لگی تھی اور آشا نے بزنس مینجمنٹ کا کورس مکمل کرکے ایک غیر ملکی کمپنی میں ملازمت کرنے لگی تھی۔ریٹائرمنٹ کے چند ہی مہینوں بعدوجئے بھٹ پر فالج کا حملہ ہوا اوروہ معذور و فریش ہوگئے۔ماں ضعیف تھیں باپ کی خدمت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ماں باپ کے دیکھ ریکھ کی ذمہ داری تو ارون پر تھی اگروہ سمجھتا ۔ لیکن اب اُس سے کسی قسم کی اُمید رکھنا ہی بیکار تھا۔ وجئے بھٹ کواپنی دونوں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر بھی کھائے جارہی تھی۔ساتھ ہی ساتھ بیٹیوں کی شادی کے بعد اُنہیں اپنے تنہا ہوجانے کے اندیشے بھی ڈرانے لگے تھے۔ارون جب چھٹی پر وطن آیا تو ماں باپ سے بھی ملنے کے لیے آیا۔ وجئے بھٹ نے بیٹے کو اپنے پاس بٹھا کر سمجھایاکہ وہ شہر میں ہی کوئی ملازمت کرلے اور ساتھ رہے ۔ ورشا اور آشا کی شادی ہوجائیگی تو وہ دونوں اپنے گھر کی ہوجائیں گی اور باقی جو کچھ ہے سب اُسی کا ہے۔ارون کی عقل پر ایسا پردہ پڑا تھا کہ نہ اُسے بہنوں کی شادی کی فکر تھی نہ ماں باپ کی خدمت کی۔ اِن حالات میں ورشا اور آشانے اپنے طور فیصلہ کرلیا کہ وہ شادی نہیں کرینگی۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اس مادی آسائشوں کے پیچھے دوڑنے والی دنیا میں اُن کے والدین کو تن تنہا چھوڑدے اور اُن کا کوئی پرسان حال بھی نہ ہو۔ دونوں کافی سیانی ہوچکی تھیں اور اُنہیں اپنے رشتہ داروں کی نا پاسداری کا بھی اچھی طرح احساس ہوگیا تھا۔

وجئے بھٹ نے جب اپنے نئے گھر میں سکونت اختیار کی تھی تو اپنے رشتہ داروں اور پاس پڑوس کی شاندار دعوت بھی کی لیکن دوبارہ کسی کو پھر ان کی خیر خیریت معلوم کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ ارون تہواروں کے موقع پر اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گھر آتا اور ماں باپ کا آشیرواد لیکر چلاجاتایا اپنی بہنوں سے راکھی بندھانے کی غرض سے آجاتا ۔اُس کا گھر سے تعلق بس اتنا ہی رہ گیا تھا۔ارون کے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ ہفتہ دو ہفتہ میں فون کے ذریعہ ہی ماں باپ کی خیر خیریت دریافت کرلے۔اگر کبھی کوئی فون کال آجاتی تو ماں حسرت سے ارون کو بار بار سمجھاتی اور التجائیں کرتی کہ وہ گھر آکر رہے لیکن وہ ماں کی بات مان کر نہ دیتا۔بوڑھے ماں باپ کی خاطر اپنی آزادی کو قربان کرنے کا اُس میں حوصلہ ہی نہیں تھا۔وجئے بھٹ کا طویل علالت کے بعد دیہانت ہو گیا تو ورشا نے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔ماں نے ورشا کو لاکھ سمجھایا کہ ملازمت نہ چھوڑے لیکن ضعیف ماں کو گھر پر اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا تھا۔وہ دونوں اپنی ماں کو بے سہارا مجبور و تنہا چھوڑنے پر تیار نہیں تھیں۔

ورشا اور آشا اب بہت فکر مند رہنے لگیں تھیں اور گھنٹوں بیٹھ کر سوچا کرتیں کہ ماں کے بعد اُن کا کیا ہوگا۔رشتہ داروں اور پاس پڑوس سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کی بھی دونوں نے بہت کوشش کی ۔ بہانے بہانے سے وہ دوست احباب کے گھر ملنے ملانے کے لیے بھی جانے لگیں لیکن جلد ہی اُنہیں احساس ہوگیا کہ سب لوگ اُنہیں بن بلایا مہمان سمجھنے لگے ہیں۔رشتہ داروں کی خلوص و محبت سے پہلو تہی نے ا نہیں دنیا کی اس بھیڑ میں تنہا وبے سہارا محسوس کرنے پر مجبور کردیا۔احساس محرومی کی وجہ دونوں کو اپنے آپ کے غیر محفوظ ہونے کااحساس بھی ڈرانے لگااور دھیرے دھیرے یہ ڈر ایک مستقل خوف کی شکل اختیار کرگیا۔رفتہ رفتہ دونوں بہنوں پریاسیت طاری ہونے لگی۔انہوں نے اپنے بھائی سے بھی قطع تعلق کرلیا ۔ باہر کی دنیا سے اُنہیں چڑ سی ہوگئی۔ ہر چہرہ بھیانک لگنے لگا ۔ دن کے اُجالے ڈراونی ہوگئے۔چند مہینوں بعد ماں بھی اس دنیا سے چل بسی تو ورشا اور آشاکو بھی اپنی زندگی سے بری طرح نفرت ہو گئی ۔پھردونوں نے فیصلہ کرلیا کہ باہر کی دنیا سے ناطہ توڑ کر اپنے گھر میں قید ہوجائیں۔باہر کی دنیا کی فضاءمیں انہیں دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگاتھا۔ مردہ ضمیروں کی سڑاند ٬ رشتوں کی ناپاسداری کا تعفن ٬ حرص و ہوس کی گندگی۔خود غرضیوں کے زہر سے آلودہ فضاﺅں میں زندہ رہنا اُن کے لیے دوبھر لگ رہا تھا۔اُنہیں اپنے چاروں طرف گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی لگ رہی تھی۔آدمی جب اخلاقی پستیوں کی گندگی میں رہنے کا عادی ہوجاتا ہے توخوش بو کا احساس ہی مر جاتا ہے اور وہ اپنے اطراف بھنکتی ہوئی سڑاندسے اس قد ر مانوس ہوجاتا کہ اُسی ماحول میں زندگی گزارنے میں مگن ہوجاتاہے۔

آخرکار ایک دن اُن دونوں نے اس مردہ اخلاقی اقدار کی زہر آلود فضاءسے بچنے کے لیے اپنے آپ کو اپنے گھرکے کمرہ کی چار دیواری میں مقید کرلیااوراسی طرح سات ماہ گزر گئے ۔ اِ س اثناءمیں ارون کو اتنی فرصت ہی نہیں ملی کہ اپنی بہنوں کی خیر خبر دریافت کرتا۔پاس پڑوس نے بھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کہ اُن کی بغل میں کچھ لوگ رہتے تھے اب زندہ بھی ہیں یا مرگئے۔ پھراس گھر سے ایک اور طرح کی مہک کا اخراج ہونے لگا ا اوریہاں سے اُٹھنے والی بدبو کے بھبوکے پڑوسیوں کو متوجہ کرنے لگے۔کسی نے ناک پر کپڑا لگائے کھڑکی سے اندر جھانکنے کی جرات کی فلیٹ کے اندر کچھ زندگی کے آثار دکھائی دیے اُسے کچھ اطمینان سا ہوگیا پھر بھی اُس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ گھر کے اندر دو جیتی جاتی ہستیاں زندگی سے بیزار موت کا انتظار کررہی ہیں۔رفتہ رفتہ پاس پڑوس میں کچھ چہ گوئیاں ہونے لگیں۔ اس گھر سے اُٹھنے والی بد بو جوں جوں بڑھتی گئی پڑوسیوں کی چہ گوئیاں بھی بڑھتی گئیں۔ جب یہ بو ناقابلِ برداشت ہو گئی تب کہیں جاکر پڑوسیوں کو اپنی صحت اور اپنی قیمتی زندگی کو لاحق ہونے والے خطرات کی فکرہوئی کہ کہیں یہ بدبو ان کی تندرستی پر اثر انداز نہ ہوجائے اور جان کے لالے نہ پڑجائیں۔ کسی طرح سے یہ خبر ایک سماجی کارکن کے کانوں تک بھی پہنچی جو بلاوجہ عوام کے دکھ درد کا خود بہ خود ٹھیکا لے لیتا ہے۔ اُس نے پولیس کی مدد سے دروازہ توڑ کراُن دونوں بہنوں کو باہر نکالا۔گھر میں تعفن و بدبو سے ناک نہیں ٹھہرتی تھی۔ مسلسل بھوک پیاس سے اُن کے جسم لاغر ہوچکے تھے ہڈی پر چمڑی کے سوا کچھ نہ تھا۔ بڑی بہن ورشا نیم مردہ حالت میں تھی اور آشا بمشکل بات کر پارہی تھی۔ایمبولنس کے ذریعہ دونوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ چند ہی گھنٹوں بعد ورشا نے بھی اپنی مونس وغمخوار بہن آشا کو تنہا چھوڑ کی اس بے درد دنیا سے رخصت ہوگئی۔کچھ روز علاج معالجہ کے بعد آشا کی طبعیت سنبھلنے لگی اور ڈاکٹروں نے اُسے گھر جانے کی اجازت دیدی توآشا غم کی تصویربنی بیٹھی سوچنے لگی کیا اُس کا زندہ رہنا اتنا ہی ضروری ہے؟۔خلاؤں میں گھورتے گھورتے اُس کا دم گھٹنے لگا ۔ اُس کو اپنے اطراف چاروں سمت گندگی میں لتھڑے ہوئے انسان دکھائی دینے لگے اور اُن کے وجود سے اُٹھتی ہوئی سڑاند سے جیسے دنیا کی فضازہر آلودہورہی ہو۔ورشا کو سارے ماحول میں بدبو ہی بدبو کا احساس ہونے لگا۔

رشتوں کی ناپاسداری کی بدبو۔۔۔۔۔۔صلہ رحمی سے بے اعتنائی کی بدبو ۔۔۔۔۔۔۔ حق جوار سے لاپرواہی کی بدبو ۔۔۔۔۔۔مال کی محبت میں انسانیت سے پہلو تہی کی بدبو۔ وہ سوچنے لگی بے شک لوگوں نے اُس کے گھر سے اُٹھنے والی بدبو سے نجات پالی لیکن دنیائے انسانیت میں پنپتی ہوئی اِن مسموم بدبووں میں کیا وہ زندہ بھی رہ سکے گی؟۔ اُسکی گھٹن اور بڑھنے لگی اور سانسیں اُکھڑنے لگیں۔
Abu Nabeel Khawaja Masseh Ud Din
About the Author: Abu Nabeel Khawaja Masseh Ud Din Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.