فیملی ولاگنگ اور معاشرے پہ اس کے اثرات

عصر حاضر کے ابلاغ میں ایک نو آموز صنف کے معاشرے پر اثرات کا جائزہ

راجہ محمد عتیق افسر
ایگزیکٹو کوارڈینیٹر شعبہ اسلامیات ، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی ، اسلام آباد
03005930098

کہتے ہیں مذہبی لوگ ہر نئی ایجاد کو حرام گردانتے ہیں جیسا کہ مکبر الصوت (لاؤڈسپیکر) کے معاملے میں ہوا ۔کچھ لوگ شاید اس تحریر کو بھی اسی تناظر میں دیکھیں ۔ یہ ان کا زاویہ نگاہ ہو سکتا ہے ہم ان کی سوچ پہ قدغن نہیں لگا سکتے ۔ہمیں کسی نئی ایجاد یا دریافت سے کوئی دشمنی نہیں ۔ لیکن کیا کریں احساس کا بے جان صحیفہ بھی تو نہیں بن سکتے ۔اگر ولاگنگ کی صنف کے ماہر ہوتے تو اس مؤثر ذریعہ کا استعمال کرتے ہوئے ایک فیملی ولاگ بناتے اور اپنا مؤقف پیش کر دیتے لیکن اپنی خامی کا اعتراف کرتے ہوئے تحریر کو ہی دل کی آواز کا ذریعہ بناتے ہیں ۔
دور جدیدمیں جہاں اور نئی ایجادات سامنے آئی ہیں وہیں نئے فنون بھی سامنے آئے ہیں جن میں ایک ولاگنگ (Vlogging) بھی ہے ۔ کہانی لکھنے اور سنانے کے فن کو کیمرے کے لینز کے ذریعے ایک نیا رخ ملاہے۔ ویڈیو کے ذریعے اپنے تجربات، نقطہ نظر، اور تخلیقی صلاحیتوں اظہار ولاگنگ کہلاتا ہے ۔یہ ایک طرف جدید فن ہے تو دوسری جانب یہ شہرت سمیٹنے اور پیسے کمانے کا ذریعہ بھی ہے ۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مرد و خواتین اس کے طفیل صاحب ثروت ہورہے ہیں ۔فیملی ولاگنگ اسی کا ایک حصہ ہے جس میں لوگ اپنے گھر خصوصا بچوں کے معمولات کو فلم بند کر کے سماجی رابطے پہ نشرکرتے ہیں ۔
فیملی ولاگنگ کے ذریعے نوجوان اور بچے اپنی روزمرہ کی زندگی اور اپنی سرگرمیوں کو براہ راست دکھا دیتے ہیں ۔ جہاں اس میں سیکھنے اور سکھانے کے مثبت پہلو ہوتے ہیں وہیں پہ کئی منفی پہلو بھی پنہاں ہیں ۔ سب سے زیادہ اہم کسی بھی گھر کی نجی معلومات ہوا کرتی ہیں یہ کسی اور کے ہاتھ لگنے سے آپ دوسروں کے سامنے بے وقار ہو جاتے ہیں لیکن سستی شہرت یا چند ٹکوں کے لیے نوجوان اور بچے اپنی نجی معلومات عیاں کر بیٹھتے ہیں ۔خواتین کا پردہ بری طرح متاثر ہوتا ہے اور با عزت گھرانوں کی خواتین اور بچوں کی تصاویر اور ویڈیوہوس کے مارے افراد کے ہاتھوں میں جاتی ہیں اور وہ ان سے جیسا چاہیں سلوک کر سکتے ہیں ۔ان کی تصاویر اور ویڈیو کا فحاشی و عریانی میں استعمال ہو سکتا ہے جو ان کی پوری زندی کو وبال میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ پیسے اور شہرت کے حصول کا آسان ذریعہ ہے لیکن اپنے پیاروں کی حفاظت اور ان کی نجی زندگی کی رازداری والدین کی اولین ذمہ داری ہے ۔
بچوں یا گھریلو خواتین کو فلما کر شہرت اور دولت کمانے کی کوشش کی جاتی ہے گویا اپنے بہت ہی پیارے رشتوں کو مالِ تجارت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ان کے صبح بیدار ہونے سے لے کر شام کو بستر تک جانے کے مختلف معمولات زندگی کو وقتا فوقتا فلما کر نشر کر دیا جاتا ہے ۔اس میدان میں ترقی کے خواہاں افراد کی ترجیح معاشرتی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ ایسا مواد شائع کرنا ہوتا ہے جو انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دے ۔وہ ایسی چیزیں بھی عام کر دیتے ہیں جن کا پردے میں رہنا ہی مفید ہوتا ہے ۔ اپنے پیاروں کو مادی مفاد کا ذریعہ بنانے سے رشتوں کے درمیان موجود محبت،شفقت، اخوت ،احترام ، ہمدردی اور خلوص جیسے جذبات ختم ہو جاتے ہیں اور خاندان اور معاشرہ منتشر ہو جاتے ہیں ۔
خواتین و حضرات میں اداکاری دکھانے کا جوہر پنپنے لگا ہے اور وہ حقیقی روپ سے زیادہ بہروپیے بنتے چلے جا رہے ہیں ۔ فیملی ولاگ میں جیسے نظر آتے ہیں ویسے وہ حقیقی زندگی میں پائے نہیں جاتے ۔اس سے معاشرے میں تصنع کا عنصر پروان چڑھ رہا ہے اور دکھاوا عام ہوتا چلا جا رہا ہے ۔خصوصا بچوں سے وہ کچھ کرایا جاتا ہے جو ان کی عمر کے مطابق نہیں ہوتا۔ اس طرح بچوں کی ذہنی صحت شدید خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے ۔ دوسری جانب بچوں سے اس طرح اداکاری کرانا بچوں کی حق تلفی بھی ہے ۔
مزاح کا کام طبیعت کو لطف پہنچانا ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات حد پار کر دی جاتی ہے اور مزاح کے نام پر مذاق شروع ہو جاتا ہے ۔مثلا شاگرد کے ہاتھوں استاد کو چکمہ دینے کی ویڈیو بنائی جاتی ہے تو اسے مزاح سمجھ کر نشرکیا جاتا ہے اور دیکھنے والے خوب ہنستے ہیں لیکن فی الحقیقت یہ استاد کا مزاق اڑایا جا رہا ہے اور نئی نسل استاد کے ادب کے بجائے اس کی بے توقیری کے لیے تیار کی جا رہی ہے ۔اسی طرح والدین ، ہمسائیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے متعلق منفی رویے پیدا کیے جارہے ہیں جو معاشرے کے لیے نہایت مضر ہیں ۔ بعض افراد قومی مفادات اور دینی شعائر تک کا مذاق اڑا دیتے ہیں حالانکہ بچے تو ناسمجھ ہوتے ہیں ۔یو ٹیوب اور دیگر سماجی میڈیا نے اپنی گائیڈ لائن میں واضح ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ 13 سال سے کم عمر افراد کو ناظر یا تخلیق کار بننے کی اجازت نہیں لیکن ہم دانستہ یا نادانستہ اپنے بچوں کو اس آگ کا ایندھن بنا دیتے ہیں ۔
جب گھر کے مرد و زن خود اور بچوں کو اس کام میں دھکیل دیتے ہیں تو یہ ناظرین کی پسند و ناپسند کے مطابق خود کوڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی شخصیت کھو بیٹھتے ہیں ۔ فیملی ولاگنگ میں بچوں سے مختلف کردار کروا لیے جاتے ہیں جو منفی ہوتے ہیں۔ جب ویڈیو معاشرے میں عام ہوجاتی ہے تو ان افراد کو ان کے منفی کردار کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بچوں کی شخصیت پہ برا اثر پڑتا ہے۔ منفی جذبات شخصیت پہ حاوی ہوتے ہیں اور نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔
فیملی ولاگنگ میں ہر شخص خود ہی مواد تیار کرتا ہے اور خود ہی نشر کرتا ہے ۔ وہ خود ہی استاد ہوتا ہے اور خود ہی اپنا محتسب ۔ فی الحقیقت انسان اپنا محتسب بہت کم ہی ہوتا ہے؛ شہرت اور دولت کی طلب اسے اپنا وکیل بنا دیتی ہے۔بے لگام آزادی کی وجہ سے ولاگنگ کی صنف اقدار سے عاری ہے۔ اگر اس طرح کی نووارد اصناف کا محاسبہ کرنے کی کوئی تدبیر نہ کی گئی تو ہمارا معاشرہ شکست و ریخت کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو جائے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اعلیٰ دماغوں کو یکجا کرے اور ولاگنگ اور دیگر سماجی ابلاغ کو پٹڑی پہ لگانے کے لیے حکمت عملی مرتب کرے اور عملی اقدامات کرے ۔
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 89 Articles with 112170 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More