حکیم لقمان ؒ سے منسوب ایک حکایت
میں تحریرہے کہ ایک چرواہے کے پاس ایک کتاتھا چرواہے کو اپنے کتے کی
وفاداری پر بڑا ناز تھا جب بھی وہ کہیں جاتا تو سار اگلہ کتے کے حوالے
کرجاتا اور بے فکر رہتا وہ اس کتے کو میٹھا دہی او راچھی اچھی چیزیں کھلاتا
لیکن وہ کتا یہ کرتاتھا کہ جب چرواہا کہیں باہر جاتا تو کتا گلے میں سے ایک
بھیڑ یا بکری کو پھاڑ کھاتاتھا اور الزام بھیڑیے کے سر جاتا آخر کار چرواہے
کو اصل حقیقت معلوم ہوگئی اس نے کتے کے رسی باندھی اور اسے درخت پر لٹکا
دیا اس پر کتے نے کہا کہ اے مالک میں آپ کا پرانانوکر ہوں آپ میرے ساتھ اس
بے رحمی کے ساتھ کیوں پیش آرہے ہیں میں نے کوئی ایک آدھ غلطی ہی کی ہے جب
کہ بھیڑیا جو آپ کا اور آپ کی بکریوں کا دشمن ہے وہ ہمیشہ آپ کا نقصان
کرتاہے آپ اسے کیوں نہیں مارتے چرواہے نے جواب دیا اے بدبخت تو بھیڑیے سے
دس گنا زیادہ سزا کے لائق ہے اس لیے کہ بھیڑیے کے متعلق مجھے اچھی طرح
معلوم ہے کہ وہ میرا دشمن ہے اور اس لیے میں اس سے خبردار بھی رہتاہوں جبکہ
میں تجھے اپنا نمک حلا ل سمجھ کر بے فکر رہتاتھا اس لیے تجھے کھلاتا پیلاتا
اور پیار کرتارہا تیرا اتنا خیال کرنے کے باوجود جب تو ایسی حرکت کرے اور
بے وفائی کرے تو تجھے معاف کرنا بالکل جائز نہیں ہے تیرا جرم بھیڑیے کے جرم
سے کہیں بڑھ کرہے ۔
قارئین ہم نے آزادکشمیر ریڈیو ایف ایم 93پر ڈاکٹر عطاالرحمن سابق وفاقی
وزیر برائے سائنس ،ٹیکنالوجی و انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سابق چیئرمین ہائر
ایجوکیشن کمیشن کا جو انٹرویو کیا اس میں انہوں نے اتنی سیر حاصل او رعلم
افروز گفتگو کی کہ اس پر کئی کالم لکھے جاسکتے ہیں ڈاکٹر عطاالرحمن کے اس
انٹرویو میں لندن ،بریڈفورڈ ،مانچسٹر ،شفیلڈ ،آسڑیا ،برلن ،واشنگٹن سمیت
دنیا بھر کے درجنوں ممالک سے لوگوں نے فون کیے اور انٹرنیٹ کے ذریعے بھی
سوالات کیے یہ پروگرام لائیو سٹریمنگ کے ذریعے پوری دنیا میں سنا جارہاتھا
ڈاکٹر عطاالرحمن کا یہ کہنا تھا کہ اگر ہم دورحاضرمیں عزت کے ساتھ جینا
چاہتے ہیں تو ہمیں علم کے میدان میں چار ستونوں پر کام کرنا ہوگا یہ چار
ستون پرائمری ،سیکنڈری ،ٹیکنکل اور ہائر ایجوکیشن پر مبنی ہیں ہماری
پرائمری ،سیکنڈری اور ٹیکنکل ایجوکیشن اس وقت نزع کے عالم ہے جبکہ ہائر
ایجوکیشن کے حوالے سے ان کے دور میں بڑے پیمانے پر کام کرنے کی وجہ سے
صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے انہوں نے بتایا کہ پورے پاکستان میں ایک سال میں
جتنے پی ایچ ڈی سکالر تیار کیے جاتے ہیں بھارت کے دہلی انسٹیٹیوٹ میں ایک
سال میں اس سے بھی زیادہ سکالر پی ایچ ڈی کرکے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اس سے
اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ بھارت کہاں کھڑا ہے اور ہم کہاں لیٹے ہیں ڈاکٹر
عطاالرحمن کا یہ کہناتھا کہ پنڈت جواہر لعل نہرونے آج سے چالیس سال قبل
بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تحقیقی ترقی کی بنیادرکھی تھی آج بھارت
کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ 60ارب ڈالر ارب سے زائد ہے جب کہ انہوں
نے جب وزارت سائنس وٹیکنالوجی سنبھالی تو پاکستان کی ایکسپورٹ 30ہزار ڈالر
تھی جسے بتدریج بڑھا کر ایک ارب ڈالر تک اس کا حجم پہنچادیا گیا ڈاکٹر
عطاالرحمن نے کہا کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہماری تمام سیاسی جماعتوں
کی ترجیحات میں تعلیم یاتو آخر ی نمبرپر ہے یاپھر ان کے ایجنڈے میںشامل ہی
نہیں ہے اس وقت ہم اپنے جی ڈی پی کا 1.8فیصد تعلیم پر خرچ کررہے ہیں جبکہ
دنیا کے دیگر ممالک کم از کم دس فیصد رقم تعلیم کے لیے مختص کرتے ہیں
ملائشیا نے ڈاکٹر مہاتیر محمد کی سربراہی میں آج سے تیس سال قبل تعلیم کے
لیے تیس فیصد بجٹ مختص کیااور آج یہ صورتحال ہے کہ اکیلاملائشیا ہائی
ٹیکنکل پراڈکٹ کی 87فیصد ایکسپورٹ کررہاہے جب کہ باقی 56اسلامی ممالک مل کر
صرف 13فیصدایکسپورٹ کررہے ہیں ڈاکٹر عطاالرحمن نے کہا کہ آج کا دور علم ،سائنس
،ٹیکنالوجی ،تحقیق اور ستاروں پر کمندیں پھینکنے کا دور ہے جبکہ ہم اپنی
قبر اپنے ہاتھوں سے کھود رہے ہیں ملک میں پائی جانے والی جہالت ،خودکش
دھماکوں ،مذہبی تشدد ،غیرت پر کیے جانے والے قتل اور تمام معاشرتی برائیوں
کا خاتمہ صرف او رصرف اچھی تعلیم کے ذریعے کیا جاسکتاہے ۔
قارئین میں نے ڈاکٹر عطاالرحمن سے برلن سے آنے والا سوال پوچھا کہ کیا وجہ
ہے کہ ڈاکٹر عطاالرحمن ،ڈاکٹر عبدالقدیر خان جوہری سائنسدان ،عمران خان اور
دیگر تمام ایماندا راور شفاف لوگ مل کر ایک اتحاد تشکیل دیتے ہوئے سیاسی
تبدیلی کی کوشش کیوں نہیں کرتے اس پرڈاکٹر عطاالرحمن ہنس پڑے اور انہوںنے
شگفتہ انداز میں کہا کہ اگر وہ الیکشن میں کھڑے ہوئے تو وہ یقین دلاتے ہیں
کہ ان کی تعلیمی کامیابیوں کی طرح اس میدان میں ان کی ریکارڈ شکست ہوگی
انہوںنے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان
ہیں اور اسی طرح وہ بذات خود پی ایچ ڈی ان آرگینک کیمسٹری ہیں اس طرح ہم
دونوں کا میدان تعلیم سائنس اور ٹیکنالوجی ہے پاکستانی حکومت چاہے تو ہم
دونوں آج بھی اپنے ملک وقوم کے لیے ہر طرح کا کام کرنے کے لیے تیارہیں اور
ہمیں نہ تو کسی معاوضے کی ضرورت ہے اور نہ ہی صلے اور ستائش کی تمنا ۔اس
پروگرام میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی جنرل عبدالقادر بلوچ
نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پوری امت مسلمہ کا اثاثہ ہیں
اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کا جائز مقام دیاگیا
اور ان سے تحقیق وترقی کے لیے درخواست کی گئی تو امریکہ ناراض ہوجائے گا
اگر یہ بات ہے تو ہماری طرف سے امریکہ بھاڑ میں جائے ہمارے لیے ڈاکٹر
عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر عطاالرحمن اہم ہیں نہ کہ امریکہ۔۔۔
بقول اقبال
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھے گا گفتگو کا
مری خاموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا
کوئی دل ایسا نظرنہ آیا ،نہ جس میں خوابیدہ ہوتمنا
الہیٰ تیر اجہان کیاہے! نگار خانہ ہے آرزو کا
تمام مضموں مرے پرانے ،کلام میرا خطا سراپا
ہنرکوئی دیکھتاہے مجھ میں ،تو عیب ہے میرے عیب جو کا
گیا ہے تقلید کا زمانہ ،مجاز رخت ِ سفر اُٹھائے !
ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں توکس کو یار اہے گفتگوکا
قارئین اب آتے ہیں دوچھوٹی لیکن بڑی خبروں کی طرف ۔۔۔
آزادکشمیر محکمہ تعلیم تعلیمی ترقی کے لیے بڑے پیمانے پر کام شروع کرچکاہے
اور جلد سکول اور کالجز لیول پر انقلابی اقدامات نظرآئیں گے یہ خیالات وزیر
تعلیم میاں عبدالوحید کے ہیں جو انہوں نے اسی انٹرویو کے دوران راقم سے
شیئر کیے ان سے اتنی گزارش ہے عالی جاہ ابھی آپ نے محکمہ تعلیم کی
بیورکریسی سے لے کر کلرک اور چپڑاسی تک جو زنجیر ہے اس کی طاقت کو نہیں
دیکھا کہاں آپ کے دعوے اور کہاں 64سال کا مفلوج زنگ آلودہ نظام تعلیم
۔۔۔؟لیکن ہم آپ کے لیے دعا گو ہیں ۔۔۔
دوسری خبر ضلع میرپور میں ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد طیب کے حکم پر ضلع بھر
میں عطائی ڈاکٹر اور حکیموں او رنان کوالیفائیڈ میڈیکل سٹاف کو پکڑنے کے
لیے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ،ڈی ایچ او ڈاکٹر بشیر چوہدری اور ڈسٹرکٹ ڈرگ
انسپکٹر ڈاکٹر ظفراقبال پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی گئی ہے جو تمام ضلع کے
تمام ہسپتالوں ،کلینکس ،میڈیکل سٹورروں اور دیگر تمام طبعی مقامات کو چیک
کرے گی ہمیں اس کمیٹی سے بہت سی مثبت امیدیں ہیں لیکن یہ امیدیں تبھی درست
ثابت ہوں گی جب ان کو مکمل اختیارات دے کر بھیجا جائے گا اور جب یہ لوگ
انسانی جانوں سے کھیلنے والے مجرموں کو پکڑ لیں گے تو نہ تو ان کو پراسرار
کالیں آئیں گی اور نہ ہی ان پر سیاسی دباﺅ ڈال کر مجرموں کو چھڑانے کی کوشش
کیاجائے گی ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد طیب کا یہ حکم لائق تحسین ہے اور سول
سوسائٹی کا چاہیے کہ اس کمیٹی کی بھرپور مددکے لیے اپنی آواز بلند کرے ورنہ
بقول اقبال
کارِجہاں دراز ہے اب میرا انتظارکر
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
شوہر نے بیگم سے پوچھا کہ تم ایک گھنٹے سے دوازے پر کھڑی کس سے باتیں کررہی
تھیں
بیگم نے جوا ب دیا
میری سہیلی تھی بچاری کے پاس اندر آنے کے لیے ”وقت “نہیں تھا
قارئین جہالت کا شیر اس وقت پورے ملک میں دھاڑیں مار رہاہے اورڈاکٹر
عطاالرحمن اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ”الاسد ،الاسد “کی آواز سننے کے لیے
حکمرانوں کے پاس”وقت “نہیں ہے ۔۔۔ |