دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبائ....مقامی یا غیر مقامی

گزشتہ دنوں بی بی سی اور دیگر ذرائع ابلاغ کی وساطت سے ایک رپورٹ منظر عام پر آئی۔ ان ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ یہ رپورٹ کو وزارت داخلہ اور پاکستان کے دیگر خفیہ اداروں کی طرف سے جاری کی گئی ہے ۔اس رپورٹ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اسلام آباد میں 444مدارس کے تمام اساتذہ وطلباءغیر مقامی ہیں،یہ لوگ امن وامان کے لیے سنگین خطرہ ہیں،ان کی مانیٹرنگ کا کوئی تسلی بخش انتظام نہیں ،یہ لوگ کوائف طلبی کے لیے جانے والوں کو وفاق المدارس کی طرف رجوع کرنے کا کہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ تمام گھسی پٹی باتیں جو کچھ عرصے سے اہل مدارس کی طرف منسوب کرنے کا چلن عام ہوا ہے ،وہ سب اس رپورٹ میں مدارس کے اساتذہ وطلباءکے سرتھونپنے کی کوشش کی گئی ۔

مدارس دینیہ کے خلاف پروپیگنڈہ اور رپورٹ بازی ویسے تو کوئی تو کوئی نئی چیز نہیں۔لیکن اس رپورٹ میں مقامی اور غیر مقامی کا جو شوشہ چھوڑا گیا وہ اس حوالے سے سنجیدگی کا متقاضی ہے کہ ہمارے ہاں جب کبھی عملی طور پر کوئی ایکشن لینے کی کوشش کی جاتی ہے یا کوئی خاص قسم کی پالیسی تشکیل دی جانے لگتی ہے تو اس قبل اس قسم کی رپورٹیں جاری کروا کر اور مختلف قسم کے شوشے چھوڑ کر رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے ،لوگوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس پر عملی طور پر ایکشن لیا جاتا ہے،یہ مقامی اور غیر مقامی کے شوشے بھی بار بار اس لےے چھوڑے جارہے ہیں تاکہ لوگوں کے دل ودماغ میں رفتہ رفتہ یہ بات ڈالی جاسکے کہ مدارس کے اساتذہ وطلباءاجنبی مخلوق اور پردیسی لوگ ہیں ۔پھر عوام الناس کو یہ باور کروایاجائے کہ یہ لوگ ہم پر بلاوجہ کا بوجھ ہیں اس کے بعد اگلے مرحلے میں یہ بات کی جاسکے کہ رہائشی مدارس کو ختم کردینا چاہیے اور صرف اس علاقے کے بچوں کو مدارس میں داخلہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے ۔ پہلے پہل کراچی میں مقامی اور غیر مقامی ،مہاجر اور اجنبی کی بحث شروع ہوئی تھی اور اب یہ بحث اسلام آباد تک آگئی ہے خدشہ ہے کہ رفتہ رفتہ یہ بحث پورے ملک تک پھیل جائے گی،اس قسم کے بحث مباحثے اور رپورٹس سراسر بدنیتی اور بددیانتی پر مبنی ہوتی ہیں۔

آپ عجیب اتفاق ملاحظہ فرمائیے کہ ابھی اس رپورٹ کی باز گشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایم کیو ایم کے رہنماءاور وفاقی وزیر ڈاکٹر بابر غور ی نے نارتھ ناظم آباد کراچی کے مدرسہ منورہ میں کی بندش کے احکامات جاری کر دئیے اور مسجد منورہ کے خطیب کو ہدایات جاری کیں کہ وہ آنے والے جمعہ کو اعلان کر دیں کہ یہ مدرسہ بند کر دیا گیا ہے ۔اس معاملے پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ایکشن لیا خصوصا مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور مولانا مفتی نعیم نے اس معاملے میں بہت کلید ی کردار ادا کیا اورا س مدرسہ کی بندش کی نوبت نہیں آئی گزشتہ شب مولانا محمد حنیف جالندھری کی جب گورنر سندھ سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بھی یہی مقامی اور غیر مقامی کا قضیہ چھیڑ دیا کہ اس مدرسہ کو بند کرنے کی کوشش اس لیے کی گئی کہ وہاں پختون اور پنجابی طلباء زیر تعلیم تھے جن کی وجہ سے امن وامان کے حوالے سے مسائل پید اہونے کا خدشہ تھا ۔جس پر مولانا حنیف جالندھری نے کہا کہ گورنر صاحب !کراچی کا وہ کون سا محلہ اور گلی ہے جہاں مہاجر ،پختون ،پنجابی ،سندھی اور بلوچ نہ بستے ہوں ،ہر ادارے میں تمام قومیتوں کے لوگ پڑھتے بھی ہیں ،ملازمت بھی کرتے ہیں اور مل جل کر رہتے بھی جب کسی اور جگہ ایسے مسائل پیدا نہیں ہوتے تو صرف مدرسہ کے معاملے میں ایسا کیوں ہے ؟جس پر گورنر نے مولانا جالندھری مے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیوایم اور حکومت سندھ مدارس کے بارے میں کسی قسم کی مہم جوئی کے عزائم نہیں رکھتی ،ہم مدارس کی خدمات کو تحسین اورقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اسی طرح گورنر سند ھ نے مولانا حنیف جالندھری کو یقین دہانی کروائی کہ مدرسہ منورہ کو بند نہیں کیا جائے گا ۔

یہ رپورٹ مدارس کے تالاب میں پہلا پتھر اورمدرسہ منور ہ کا معاملہ ایک ٹیسٹ کیس تھا اور ابھی اس قسم کی آوازیں مختلف اطراف سے مزید شدومد سے اٹھنے کا امکان ہے اس لیے ہمیں اس صورتحال کا انصاف پسندی سے جائزہ لینا چاہیے۔اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام آباد اور دیگر شہروں کا سروے کروالیا جائے کہ ان شہروں کے کالجز ،یونیورسٹیز ،سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین وغیرہ کی کتنی تعداد مقامی افراد پر مشتمل ہے اور کتنی غیر مقامی ؟اگر اس قسم کا کوئی سروے انصاف کے ساتھ کروایا جائے تو کاروباری اورتعلیمی مقاصد اور ملازمت وغیرہ کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم ننانوے فیصد لوگ غیر مقامی نکلیں گے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ”غیر مقامی “ہونے کی پھبتی صرف مدارس دینیہ کے طلباءپر ہی کَسی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر کسی اور مقصد کے لیے اسلام آباد میں قیام جرم نہیں تو صرف دینی تعلیم کا حصول کیوںجرم ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی شہری کو ملک کے کسی بھی حصے میں رہنے کا حق حاصل ہے اور اس حق سے اسے قطعاً محروم نہیں کیا جاسکتا بالخصوص تعلیم کے حصول کا حق کی تو پاکستان کا آئین بھی ضمانت دیتا ہے۔ اس لیے یہ پاکستان کے ہر شہری کی مرضی ہے کہ وہ جس جگہ ،جس شہر اور جس ادارے سے اپنے بچے کو تعلیم دلوانا چاہے یا خود تعلیم حاصل کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے اور کوئی اس پر قد غن نہیں لگاسکتا۔

اسی رپورٹ میں دینی مدارس کو امن وامان کے حوالے سے خطرہ قرار دیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ اسلام آباد کے تھانوں کا ریکارڈ نکال لیا جائے،یہاں پر ہونے والے حادثات کی تفصیلات معلوم کرلی جائیں،دہشت گردانہ کاروائیوں کی فہرست تیار کرلی جائے تو اس میں ملوث افراد میں سے ایک فیصد کا تعلق بھی مدارس سے نہیں ہوگا بلکہ ان تمام چیزوں میں جو لوگ ملوث ہیں خصوصاً وہ لوگ جو اسلام آباد میں بیٹھ کر اس ملک کی لوٹ رہے ہیں،اس کا لہو چوس رہے ہیں ان میں سے کسی کا تعلق بھی مدارس سے نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود یہ کتنی زیادتی کی بات ہے کہ وہ ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد لوگ جو جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے تعلیمی اداروں کا کوئی حوالہ نہیں دیا جاتا،ان کا علاقہ اور برادری وغیرہ ڈسکس نہیں ہوتی لیکن وقتاً فوقتاً جو دہشت گردی کے حوالے سے ڈرامے سٹیج کےے جاتے ہیں ان میں ملوث افراد کا کھرا کسی ناکسی طریقے سے مدارس تک ضرور پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اسلام آباد شہر میں بلا شبہ مدارس موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جہاں کالجز ،یونیورسٹیز،ہوٹلز،مارکیٹو ں اور پارکوں کے لیے جگہیں مختص کی جاتی ہیں اسی تناسب سے مدارس کے لیے جگہیں کیوں مختص نہیں ہوتیں ؟حالانکہ مدارس بھی تو یہاں کے عوام کی اہم ترین دینی ضرورت پوری کرتے ہیں ۔اسی طرح اسلام آباد سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں جو مدارس میں ان میں آج تک کبھی اسلحہ نہیں آیا،کبھی طلباءتنظیموں کے درمیان تصادم نہیں ہوا،کبھی پولیس اور رینجرز کو طلب نہیں کیا گیا جبکہ یہاں کئی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جن میں تمام ”مقامی“طلباءزیر تعلیم ہیں لیکن وہاں سے اسلحہ بھی برآمد ہوتا ہے،طلباءگروپوں کے درمیان تصادم بھی روز کا معمول ہے۔ان تعلیمی اداروں میں بپھرے ہوئے قوم کو” نونہالوں“ کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس اور رینجرز کو بھی طلب کرنا پڑتا ہے اور وہاں منعقد ہونے والے امتحانات بھی سنگینوں کے سائے تلے منعقد ہوتے ہیں لیکن ان کے بارے میں کبھی مقامی اور غیر مقامی کی اصطلاح سننے میں نہیں آئی اور نہ ہی یہ آواز بلند کی گئی کہ یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے ؟

اس رپورٹ میں مدارس کی مانیٹرنگ اور کوائف کے حصول کا معاملہ بھی ذکر کیا گیا ،ہمارے خیال میں تو اس وقت مانیٹرنگ ہوتی ہی صرف مدارس کی ہے،مدارس کے اساتذہ اور طلباءکے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں، ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے ،ان کے مکمل کوائف کاریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے،آئے روز کوئی نا کوئی سروے فارم گشت کرنے لگتا ہے جس میں روٹین کی معلومات کے علاوہ گھر کی خواتین تک کے بارے میں سوالات شامل ہوتے ہیں یہ سب” عنایات“ صرف مدارس دینیہ کے ساتھ ہیں،برساتی کھنبیوں کی طرح اُگ آنے والے ہاسٹلز پر کوئی چیک نہیں ،مکانات کی خرید وفروخت اور کرائے پر لین دین کی کوئی مانیٹرنگ نہیں،جرائم پیشہ لوگوں کو کھلی چھوٹ ہے اور ہماری ہر بات کی تان آکر صرف مدارس دینیہ پر ٹوٹتی ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے،اس معاملے میں اربابِ مدارس کو بھی خبردار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کو بھی مدارس اور اہل مدارس کے بارے میں اپنے دوہرے معیار اور امتیازی سلوک پر نظرِ ثانی کی حاجت ہے ۔
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130128 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.