سوال:
شہنشاہ روم ہرقل کے اسلام اور نبی اسلام کے متعلق تجزیات والی حدیث پاک کا
مکمل ترجمہ چاہئے۔
جواب:
صحیح بخاری کی کتاب الایمان میں موجود طویل حدیث پاک کا ترجمہ یوں ہے:
”ہمیں بتایا ابوالیمان حکم بن نافع نے، وہ کہتے ہیں ہمیں خبر دی شعیب نے
زہری سے، وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے،
کہ عبد اللہ بن عباس (رحمة اللہ علیہ ورضی اللہ عنہم) نے ان کو خبر دی، کہ
سفیان بن حرب نے ان کو بیان کیا، کہ ہرقل نے ان کے پاس ایک شخص کو بھیجا (اور
وہ اس وقت قریش کے چند سرداروں میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ لوگ شام میں تاجر
کی حیثیت سے گئے تھے (یہ واقعہ اس زمانے میں ہوا) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ابوسفیان اور دیگر کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا،
غرض! سب قریش ہرقل کے پاس آئے، یہ لوگ اس وقت ایلیا میں تھے، تو ہرقل نے ان
کو اپنے پاس دربار میں طلب کیا، اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے)
تھے، پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب بلایا) اپنے ترجمان کو طلب
کیا قریشیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب
النسب کون ہے، جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں، میں نے کہا
میں ان سب سے زیادہ ان کا قریبی رشتہ دار ہوں، یہ سن کر ہرقل نے کہا کہ
ابوسفیان کو میرے قریب کردو اور اس کے ساتھیوں کو بھی اس کے قریب رکھو، اور
ان کو ابوسفیان کی پس پشت کھڑا کردو، پھر ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو
کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے
اگر مجھ سے جھوٹ بیان کرے، تو تم فورا اس کی تکذیب کردینا (ابوسفیان کہتے
ہیں کہ) اللہ کی قسم اگر مجھے اس بات کی غیرت نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر
جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو یقینا میں آپ کی نسبت غلط باتیں بیان
کردیتا، غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا، وہ یہ تھا کہ اس نے کہا
کہ اس کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں،
پھر ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس سے پہلے بھی اس بات (نبوت) کا
دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا، کہ کیا ان کے باپ دادا
میں کوئی بادشاہ گذرا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ امیر لوگ
ان کی پیروی کر رہے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا نہیں، بلکہ کمزور (پھر) ہرقل
نے پوچھا آیا ان کے پیروکار (یوم فیوما) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں،
میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں، ہرقل نے پوچھا، آیا
ان میں سے کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد دین کی شدت کے باعث اس
دین سے خارج بھی ہوجاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں (پھر ہرقل نے) کہا کہ کیا
وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں اور اب ہم ان کی مہلت میں
ہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی
یا ایفائے عہد) ، ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے مجھے اور کوئی
موقع نہ ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات میں داخل
کر دیتا، ہرقل نے کہا آیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا ہاں،
تو بولا تمہاری جنگ ان سے کیسی رہتی ہے، میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان
کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے، کہ کبھی وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور کبھی ہم
ان سے لے لیتے ہیں (کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ) ہرقل نے پوچھا کہ وہ
تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں صرف اللہ کی عبادت کرو
اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور شرک کی باتیں جو تمہارے باپ دادا
کیا کرتے تھے چھوڑ دو، اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور
صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے
کہہ دے کہ میں نے تم سے ان کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے
درمیان میں اعلٰی نسب والے ہیں اور تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی
طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (اپنی
نبوت کا دعویٰ) تم میں سے کسی اور نے بھی کیا تھا، تو تم نے بیان کیا کہ
نہیں میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا
ہو تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہے جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان
سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی
بادشاہ تھا، تو تم نے بیان کیا کہ نہیں، پس میں نے (اپنے دل میں) سمجھ لیا
کہ ان کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہوگا، تو میں کہہ دوں گا کہ وہ
ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک حاصل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے تم سے
پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے ان پر کبھی جھوٹ کی
تہمت لگائی گئی ہے، تو تم نے کہا کہ نہیں، پس (اب) میں یقینا جانتا ہوں کہ
(کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں پر جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ
بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا
کمزور لوگوں نے، تو تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، (دراصل)
تمام پیغمبروں کے پیر ویہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ
ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں، تو تم نے بیان کیا کہ
وہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں (درحقیقت) ایمان کا کمال کو پہنچنے تک یہی حال ہوتا
ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اس کے بعد ان کے دین میں داخل
ہوجائے ان کے دین سے ناخوش ہو کر (دین سے) پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان
کیا کہ نہیں اور ایمان کی یہی صورت ہے، جب کہ اس کی بشاشت دلوں میں بیٹھ
جائے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تو تم نے بیان
کیا کہ نہیں (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور
میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے بیان کیا
کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کی
شریک نہ کرو اور تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز پڑھنے
اور سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں، پس اگر تمہاری کہی ہوئی بات
سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک
میں (کتب سابقہ سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں، مگر میں یہ نہ
جانتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے، پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا،
تو یقینا میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو
یقینا میں ان کے پیروں کو دھوتا، پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا (مقدس) خط جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دحیہ کلبی کے ہمراہ امیر
بصری کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصری نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا،
منگوایا، اور اس کو پڑھوایا، تو اس میں یہ مضمون تھا اللہ نہایت مہربان رحم
کرنے والے کے نام سے (یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف، اس شخص پر سلام ہو جو
ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا
ہوں، اسلام لاؤ گے تو (قہرالہی) سے بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا دو گنا
ثواب دے گا اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری)
تمام رعیت (کے ایمان نہ لانے) کا گناہ ہوگا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات
کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم
خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور
نہ ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا پروردگار بنائے، خدا فرماتا ہے کہ پھر
اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دنیا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم
خدا کی اطاعت کرنے والے ہیں، ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہا
کہہ چکا اور (آپکا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں شور زیادہ ہوا،
آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیئے گئے، تو میں نے اپنے
ساتھیوں سے کہا کہ (دیکھو تو) ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) کا کام ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ خوف رکھتا ہے،
پس اس وقت سے مجھے ہمیشہ کے لئے اس کا یقین ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ضرور غالب ہوجائیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اسلام میں داخل
فرمایا اور ابن ناطور ایلیا کا حاکم تھا اور ہرقل شام کے نصرانیوں کا سردار
تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت
پریشان خاطرا اٹھا، تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہم (اس وقت) آپ کی حالت
خراب پاتے ہیں؟ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کاہن تھا، نجوم میں مہارت رکھتا
تھا اس نے اپنے خواص سے جب کہ انہوں نے پوچھا، یہ کہا کہ میں نے رات کو جب
نجوم میں نظر کی، تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہوگیا تو (دیکھو
کہ) اس زمانہ کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود
کے کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک
کے بڑے بڑے شہروں میں لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردیئے
جائیں، پس وہ لوگ اپنی اس تدبیر میں تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا،
جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی خبر بیان کی، جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی، تو کہا کہ جاؤ اور
دیکھو کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے کہ نہیں، لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا
کہ وہ ختنے کئے ہوئے ہیں، اور ہرقل نے اس سے عرب کا حال پوچھا، تو اس نے
کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) اس زمانہ کے لوگوں کا بادشاہ ہے، جو روم پر غالب آئے گا، پھر ہرقل نے
اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ کر بھیجا اور وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم
پایہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہرقل حمص کی طرف چلا گیا، پھر حمص سے باہر نہیں
جانے پایا کہ اس کے دوست کا خط (اسکے جواب میں) آگیا وہ بھی نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا
اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں اس کے بعد ہرقل نے سرداران روم کو
اپنے محل میں جو حمص میں تھا، طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر
لئے جائیں تو وہ بند کر دئیے گئے اور ہرقل (اپنے گھر سے) باہر آیا تو کہا
کہ اے روم والو کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے اور (تمہیں)
یہ منظور ہے کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی کی
بیعت کر لو، تو (اسکے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف
بھا گے، تو کواڑوں کو بند پایا بالآخر جب ہرقل نے اس درجے ان کی نفرت دیکھی
اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہوگیا، تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس
واپس لاؤ (جب وہ آئے تو انسے) کہا میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے
تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا تھا وہ مجھے معلوم ہوگئی تب لوگوں نے
اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے، ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔ ابوعبداللہ
کہتے ہیں کہ اس حدیث کو (شعیب کے علاوہ) صالح بن کیسان اور یونس اور معمر
نے (بھی) زہری سے روایت کیا ہے۔“ |