عاصمہ کی ایک آنکھ کی روشنی جا چکی تھی، مگر اس کے حوصلے
اب بھی زندہ تھے۔ سلائی مشین کی کھٹ کھٹ میں اس کی امیدیں چھپی تھیں۔ دن
رات محنت کی، سوئی دھاگے سے خواب بنے، مگر جو کمائی ہوئی وہ گھر کا راشن
پورا کرنے میں ختم ہو گئی۔ عید قریب تھی، بچے نئے کپڑوں کا پوچھتے، تو وہ
مسکرا کر کہتی، "رب خیر کرے گا۔" عید کے دن بچوں نے پرانے کپڑے پہنے، مگر
دل میں ماں کی محبت کا لباس تھا۔ شام کو محلے کی فلاحی تنظیم نے تحفے دیے،
اور عاصمہ کی آنکھیں شکر سے بھیگ گئیں۔
|