دنیا میں ہمیشہ سے حق اور باطل کے درمیان جنگ رہی ہے،
لیکن آج کے سوشل میڈیا کے دور میں یہ جنگ مزید پیچیدہ ہو چکی ہے۔ پہلے لوگ
آنکھوں دیکھی باتوں پر یقین کرتے تھے، لیکن آج کل پروپیگنڈے اور افواہوں کے
ذریعے حق اور باطل کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ لوگ بغیر تحقیق کے قیاس (اندازے)
کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگے ہیں، جو نہ صرف ذاتی طور پر نقصان دہ ہے بلکہ
پورے معاشرے میں فتنے اور فساد کا سبب بھی بنتا ہے۔
آج کے دور میں سب سے زیادہ ضروری چیز "حق کی پہچان" ہے، کیونکہ اگر ہم حق
کو نہ پہچانیں تو نہ صرف خود گمراہ ہو سکتے ہیں بلکہ باطل کا غیر ارادی طور
پر ساتھ بھی دے سکتے ہیں۔
حق کی پہچان کیوں ضروری ہے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ بغیر تحقیق کسی بھی خبر
پر یقین نہ کرو:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ
فَتَبَيَّنُوا..."
(الحجرات 49:6)
ترجمہ: "اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو
تحقیق کر لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانستہ نقصان پہنچا دو
اور بعد میں پشیمان ہو۔"
سوشل میڈیا کے دور میں ہر روز جھوٹی خبریں، فیک ویڈیوز، اور من گھڑت بیانات
سامنے آتے ہیں جو بغیر تحقیق کے پھیلائے جاتے ہیں اور معاشرتی انتشار پیدا
کرتے ہیں۔
کسی بھی احتجاج، سیاسی جلسے یا کسی کی بھی حمایت کرنے سے پہلے یہ لازمی
تحقیق کریں کہ آیا یہ واقعی حق پر مبنی ہے یا صرف ایک پروپیگنڈہ ہے۔ اکثر
لوگ جذبات میں آ کر یا سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے ایسے اجتماعات کا حصہ
بن جاتے ہیں، جو بعد میں معاشرتی انتشار، فتنہ اور گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔
امام علیؑ نے فرمایا: "سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ تم بغیر سمجھے کسی معاملے
میں کود جاؤ۔" (نہج البلاغہ، حکمت 150)۔
لہٰذا، بغیر تحقیق کے کسی تحریک یا احتجاج میں شامل ہونا دانشمندی نہیں
بلکہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ہمیشہ پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اس اجتماع
کا مقصد کیا ہے، اس کے پیچھے کون لوگ ہیں، اور آیا یہ واقعی حق پر مبنی ہے
یا محض فریب اور دھوکہ۔
حق کی پہچان کا معیار کیا ہے؟
• کسی بھی خبر یا دعوے کو پرکھنے کے لیے پہلے مکمل تحقیق کریں۔
• حق اور باطل کو افراد کے بجائے اصولوں کی بنیاد پر پہچانیں۔
• جذبات میں آ کر بغیر تصدیق کے کسی پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں۔
امام علیؑ نے فرمایا:
ترجمہ: "جب معاملہ تم پر مشتبہ ہو جائے تو حق کو پہچانو، تمہیں اس کے ماننے
والے معلوم ہو جائیں گے، اور باطل کو پہچانو، تمہیں اس سے دور رہنے والے
معلوم ہو جائیں گے۔"
(نہج البلاغہ، خطبہ 147)
قیاس: حق اور باطل میں فرق نہ کر سکنے کی سب سے بڑی وجہ
قیاس کا مطلب ہے ظاہری مشابہت یا اندازے کی بنیاد پر فیصلہ کرنا، بغیر کسی
تحقیق یا دلیل کے۔ قیاس کی بنیاد پر فیصلے کرنے سے اکثر جھوٹ، ناانصافی اور
گمراہی جنم لیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا: "وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ
الْحَقِّ شَيْئًا"(سورۃ النجم 53:28)
ترجمہ: "اور بے شک گمان (قیاس) حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔"
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اندازے اور قیاس کی بنیاد پر حق کو تلاش کرنا
ممکن نہیں۔ سچائی کے لیے تحقیق اور علم ضروری ہے، محض گمان اور قیاس کافی
نہیں۔
نبی کریم ﷺ نے بھی قیاس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: "گمان (قیاس) سے بچو، کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔"
یعنی قیاس سے اکثر گمراہی اور جھوٹ جنم لیتا ہے، کیونکہ یہ بغیر تحقیق اور
دلیل کے کیا جاتا ہے۔
قیاس کا سب سے بڑا نقصان شیطان کے واقعے میں دیکھنے کو ملتا ہے، جب اس نے
حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، کیونکہ اس نے قیاس کیا کہ وہ آگ سے
بنا ہے اور آدم مٹی سے، لہٰذا وہ بہتر ہے۔
یہی قیاس شیطان کی گمراہی اور اس کے راندۂ درگاہ ہونے کی وجہ بنا۔ اس سے
ہمیں سیکھنا چاہیے کہ قیاس کے بجائے ہمیشہ تحقیق، علم اور حقیقت پر مبنی
فیصلے کرنے چاہییں۔
حق مل جانے کے بعد اس کا ساتھ دینا بھی فرض ہے
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ حق کو پہچاننا ہی کافی نہیں، بلکہ جب حق
معلوم ہو جائے تو اس کا ساتھ دینا بھی ضروری ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: "جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ
ہو تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں برا جانے، اور یہ ایمان
کا سب سے کمزور درجہ ہے۔" (صحیح مسلم: 49)
یعنی حق کو جاننے کے بعد خاموش رہنا بھی ایک جرم ہے۔
نتیجتاً، کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے درج ذیل نکات کو ذہن میں رکھنا
چاہیے:
• حق کی پہچان سب سے ضروری چیز ہے، اور یہ افراد یا گروہوں کے بجائے اصولوں
پر ہونی چاہیے۔
• قیاس پر فیصلے کرنا دھوکہ دہی اور ناانصافی کا سبب بن سکتا ہے۔
• سوشل میڈیا کے دور میں پروپیگنڈے سے بچنے کے لیے تحقیق اور احتیاط بے حد
ضروری ہے۔
• حق معلوم ہو جانے کے بعد اس کا ساتھ دینا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
اگر ہم ان اصولوں پر عمل کریں گے تو ہم نہ صرف خود کو گمراہی سے بچائیں گے،
بلکہ ایک بہتر اور پرامن معاشرہ بھی تشکیل دے سکیں گے۔
|