علامہ صائم چشتی صاحب نے کتاب ”
عیون المطالب فی اثبات ایمان ابو طالب “ ایمان ابو طالب علیہ السلام کے
بارے میں تحریر فرمائی ہے ۔ جو زیور طبع سے تین بار گزر چکی ہے ، تیسری بار
۱۰ / ربیع الثانی ۱۴۰۳ ء ھ کو چھپی ہے ۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل جس میں
موصوف نے کافی زحمت کی ہے ۔ خدا وند عالم ان کی محنتوں کو قبول فرمائے ۔
اس کتاب میں انھوں نے اپنے کچھ بزرگ علماء کے فتوے اور تقریظات تحریر
فرمائے ہیں جس کو میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔انشاء اللہ
منکرین ایمان ابو طالب کے لئے مفید و قابل اطمینان ثابت ہوگا۔
فتویٰ
از خواجہ ٴ خواجگان ، قدوة السالکین ، زبدة العارفین ، شیخ الاسلام و
المسلمین ، شمع شبستان ہدایت ، قمر آسمان ولایت حضرت جناب خواجہ قمر الدین
چشتی نظامی سیالوی زیب آستانہ سیال شریف:
”بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ، الحمد للّٰہ رب العٰلمین و الصلوٰة و السلام
علی رحمة للعالمین محمد و آلہ و اصحابہ اجمعین اما بعد فقد سئل بعض
الاخلاء ان العقیدة المنقدة فی نجاة ابی طالب صحیة ام غیر ذالک۔
اجیب ان ھذہ المسئلة مفروعة عنھا حیث صنف الکتب اجلة العلماء کثراللّٰہ
امثالھم فی نجات ابی طالب ۔ مثلا ” اسنیٰ المطالب فی نجاة ابی طالب “ وغیرہ
و اما الروایات الدالة علیٰ خلاف ذالک فامثلھا ماروی قولہ ”اخترت النار علی
العار “ حین قال لہ رحمة للعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و اصحابہ اشھد
لاالٰ الا اللّٰہ فقال ذالک ۔
فاولا ان ھذہ الروایة تدل علی التصدیق للتوحید و الرسالة لانہ اعتقد ان من
لم یقل مثل ذالک فلہ النار و ھذا ھو الایمان ، لان الایمان تصدیق بالقب۔
و ثانیا ھذا القول ما کان آخر کلامہ یمکن انہ قال قبل او ان موتہ و الحق
ان سیدنا رحمة للعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم لما کان مختارا من
عنداللّٰہ تعالیٰ ان یزکی لمن یشاء و یوتی الایمان لمن یشاء حتیٰ للحصاة و
البہائم و الحجارة فکیف متصور انہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ما زکیٰ
قلب عمہ و نور صدرہ بالایمان ۔ اما باقی الروایات فعندنا غیر موثق لمن تتبع
الا“ ( محمد قمر الدین السیالوی)
ترجمہ:
” الحمد للّٰہ رب العٰلمین و الصلوٰة و السلام علی رحمة للعالمین محمد و
آلہ و اصحابہ اجمعین
ہم سے ہمارے بعض احباب نے پوچھا ہے کہ نجات ابی طالب درست ہے یا نہیں ۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ تو طے شدہ مسئلہ ہے کیوں کہ جلیل القدر علماء اللہ
تبارک و تعالیٰ ان جیسوں کی کثرت فرمائے “ نے نجات ابو طالب کے متعلق
کتابیں تصنیف فرمائی ہیں مثلا ” اسنی المطالب فی نجات ابی طالب “ اور اس کے
علاوہ دیگر کتب ہیں ، مگر اس کے بر عکس بھی روایات موجود ہیں اس اس کے خلاف
پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ ” ابو طالب “ کا یہ قول بیان کیا جاتا ہے کہ جب
حضور رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انھیں فرمایا کہ آپ ”
لا الٰہ الا اللہ “ کی گواہی دیں تو انھوں نے کہا کہ میں ” اخترت النار علی
العار “
چنانچہ پہلی بات یہ ہے کہ یہ روایت تصدیق توحید و رسالت پر دلالت کرتی ہے
کیوں کہ ابو طالب اس پر اعتقاد رکتھے تھے کہ جو کلمہ کا اقرار نہ کرے وہ
آگ میں جائے گا اور یہی ان کے ایمان کی دلیل ہے کیوں کہ ایمان دل سے تصدیق
کرنے کا ہی نام ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ قول جناب ابو طالب کا آخری کلام نہیں ممکن ہے یہ
بات آپ نے اپنی موت کے وقت سے پہلے کہی ہو ۔
اور حق بات یہ ہے سید نا رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ
تبارک و تعالیٰ کی طرف سے صاحب اختیار ہیں آپ جسے چاہیں پاک کریں اور جسے
چاہیں ایمان عطا فرمائیں حتیٰ کہ سنگ ریزوں چوپایوں اور پتھروں کو بھی ، تو
یہ کیسے متصور کیا جا سکتا ہے کہ آنے اپنے چچا کے قلب کو پاک نہیں فرمایا
اور ان کے سینے کو نور ایمان سے منور نہیں فرمایا۔
اس کے علاوہ جو دیگر روایات ہیں وہ غیر معتبر ہیں اور یہ بات اسانید حدیث
کی اتباع کرنے والے محققین پر پوشیدہ نہیں ۔ ” و اللہ و رسولہ اعلم “(محمد
قمرالدین سیالوی) ۱#
۱۔ عیون المطالب فی اثبات ایمان ابو طالب، ج /۱ ص/۳۴، ناشر چشتی کتب خانہ
چھنگ بازار
تقریظ
عالی جناب فیض المستطاب ، شہباز خطابت ، ابو الکلام پاکستان حضرت صاحبزادہ
سید فیض الحسن شاہ صاحب دامت برکاتہم النورانیہ سجادہ نشین آلومہار شریف۔
محبوب سے منسوب ہر چیز مرغوب ہوتی ہے ۔ اور انسان طبعا ایسی ہر چیز کی
تعریف پر مجبور ہوتا ہے ۔ دوست کا دوست ہی دوست ہوتا ہے اس کا دشمن ،دشمن۔
کچھ لوگ اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہر قیمت پر مخالفین خاندان نبوت کو
متقی ، پرہیز گار اور اسلام کا ہیرو ثابت کیا جائے ۔ اور ان کی یہ کاوش ان
کی باطنی کیفیت کی غمازی ہوتی ہے ۔
دوسری طرف ایک طبقہ ایسے خوش نصیب اور با ذوق مومنین کا بھی ہے جن کی تحقیق
او رکاوش ، محاسن و محامد آل و اصحاب مصطفی علیہ السلام میں خرچ ہوتی ہے
دونوں گروہوں کا فرق ظاہر ہے ۔
جناب صائم چشتی بھی اسی سعادت مند گروہ میں شامل ہیں جنھیں حضور علیہ
السلام اور ان کے اقارب و احباب کی مدح کے لئے خدا نے چن لیا ہے ۔ صائم
صاحب نے جناب ابو طالب کے ایمان کا ثبوت مہیا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ ابو
طالب جنھوں نے نازک سے ننازک حالات میں حضور علیہ السلام کی حمایت اور
حفاظت کی ۔
اسی حمایت کی پاداش میں رؤسائے عرب کے معتوب بنے ۔ شعب ابی طالب میں مقاطعہ
کی طویل مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ ہر موقعہ پر عشق و محبت مصطفےٰ
علیہ السلام کا ثبوت دیا ۔ جن کی وفات کے سال کو عام الحزن قرار دیا گیا ۔
جن کی مساعی کو حضور نے سراہا ۔ اور جن کی شفقت کا ہمیشہ محبت سے ذکر کیا ۔
ان کے ایمان لانے یا نہ لانے کے متعلق روایات میں اختلاف ہے ۔ ان سے مثبت
یا منفی معنی لینا اپنے اپنے ذوق کی بات ہے بہر حال اس اقدام پر جناب صائم
چشتی صاحب تبریک کے مستحق ہیں۔ ۱#
خیال اپنا اپنا
از حضرت علامہ پیر سید محمد امین شاہ صاحب نقوی رضوی فاضل جامعہ رضویہ فیل
آباد
ابو طالب جسے بخشا خدا نے
مگر بخشا نہیں دار القضا نے
اس میں شک نہیں کہ سیدنا ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمر بھر جس انداز
سے حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت و الفت اور حفاظت و
نصرت کا
۱۔ عیون المطالب فی اثبات ایمان ابو طالب، ج /۱ ص/۵۹، ناشر چشتی کتب خانہ
چھنگ بازار
شاندار فریضہ سر انجام دیا ہے ۔ وہ چودہ سو سال میں کسی بڑے سے بڑے مرد
مومن کو بھی نصیب نہیں ہوا یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ۔ اور آپ کے
پورے خاندان ذیشان نے میدان کرب و بلا میں بھی جس ایثار و قربانی سے دین
اسلام کی بنیاد رکھی ہے ۔ تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔
عزم حسین عزم تھا پر ور دگار کا
اس کے باوجود بھی بعض سر پھرے لوگ اپنی جہالت کی بنا پر سیدنا بو طالب اور
والدین مصطفےٰ پر تقریر و تحریر کے ذریعہ سے نت آئے دن مختلف نوعیت کے بے
بنیاد اعتراضات پھینکتے رہتے ہیں کہ حضرت ابو طالب نے کلمہ نہیں پڑھا ۔
زباں سے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے اپنا ایمان ہی مشکوک ہے اور محل نظر ہے
ساتھ ہی ہمیں یہ کہنے میں بھی باک نہیں کہ جن اہل علم نے اس قسم کی روایات
زبان قلم سے بتائیں یا کہ بنائیں ہمیں ان کے اعلان میں تو شک ہو سکتا ہے
مگر سیدنا ابو طالب کے ایمان میں ایک لحظہ کے لئے بھی شک نہیں ہو سکتا کیوں
کہ ارشاد قرآن ” ہل جزاء الاحسان الا احسان “ کے مطابق جس ابو طالب نے خدا
کے دین پر احسان کیا ہے وہ خدا ابو طالب کو احسان کا بدلہ احسان کی صورت
میں ضرور دے گا ۔ بھلا غور تو کرو اگر ایسا عاشق رسول دوزخی ہے تو پھر جنتی
کون ہوگا ۔ جب کہ صحیح حدیث کے فرمان کے موافق حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم قیامت کے دن آپ کی شفاعت فرمائیں گے اور آپ کی شفاعت سے سیدنا
ابو طالب کی نجات و مغفرت بھی ہوگی لہٰذا آپ کا سیدنا ابو طالب کی شفاعت
کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضرت ابو طالب مومن تھے ۔ ورنہ کافر کی
شفاعت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
حالانکہ حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی صحیح حدیث شریف سے آپ کے
کلمہ توحید پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے علاوہ از یں کتاب و سنت اور صوفیائے ملت
اور علمائے امت کے واضح ارشادات سے بھی آپ کا مومن کامل ہونا ثابت ہوتا ہے
۔
سید نا ابو طالب کا نام نامی بعض اہل علم نے عمران لکھا ہے اور بعض حضرات
عبد مناف تحریر کرتے ہیں تو ائیے ذرا حضرت کے اسم گرامی کے معنی دیکھیں کہ
یہ نام کس حقیقت کی غمازی کر رہا ہے عبد کا معنی ہے بندہ اور مناف کا معنی
ہے جس سے ہر چیز کی نفی کی جائے یعنی خدا کے ساتھ کسی شریک نہ کیا جاسکے ۔
لہٰذا منکرین ایمان سے نقوی یہ سوال کرتا ہے کہ سیدنا ابو طالب کے اسم
گرامی نے ہی ڈنکے کی چوٹ اعلان نہیں کر دیا کہ میں اس کا بندہ ہوں جس کے
ساتھ بتوں کو شریک نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ ( عیون المطالب فی اثبات ایمان
ابو طالب، ج /۱ ص/۶۰)
ایک خط
محترم سید شبیر احمد ہاشمی خلیفہٴ مجاز محدث ہزاروی حضور قبلہ عالم سید
محمود شاہ صاحب مد ظلہ العالی ، محبوب آباد حویلیاں
محترمی و محسنی جناب صائم صاحب چشتی سلام مسنون
کتاب ” ایمان ابو طالب “ بذریعہ جناب قبلہ مرشدی و استاذی محدث ہزاروی
پڑھنے کا اتفاق ہوا دل میں ایک تڑپ پیدا ہوئی کہ صائم صاحب کا دیدار نصیب
ہو جائے تو کیا ہی بات ہے ۔ بلا آخر ایک وقت آیا کہ آستانہ عالیہ خانقاہ
محبوب آباد شریف حویلیاں ( ہزارہ ) پر ملاقات ہوئی اور خوب ہوئی کتاب ”
شہید ابن شہید “ دیکھنے اور مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا کیا کہوں اور کیا
لکھوں ، جی چاہتا ہے کہ آپ کی تصانیف کا دیدار ہی کرتا رہوں دعا ہے خدا
وندتعالیٰ اپنے پیاروں کے طفیل آپ کی صحت اور عمر میں برکت فرما دے تاکہ
آپ حسب سابق اپنی نیک کوششوں میں کوشاں رہیں ۔ جہاں تک کتاب ” ایمان ابو
طالب “ کا تعلق ہے یہ ایک مستند مدلل اور مصدقہ کتاب ہے اگر کوئی خدا واسطے
کا بیر چھوڑ کر اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھے تو یہ کتاب ان کے تمام
شبہات ، اعتراضات و سوالات کا کافی و وافی جواب ہے اور اس کی غلط فہمی و
گمراہی اس سے دور ہو سکتی ہے ۔ عرض یہ ہے کہ محبوب اور محب کا تعلق اور
رشتہ یہ ہے کہ ہر اس چیز سے محبت کی جائے جس کے نسبت محبوب سے ہو ۔ اور ہر
اس چیز کو محبوب رکھا جائے جسے محبوب نے پسند کیا ہو ۔ خدا وند تعالیٰ کا
صاف فیصلہ ہے کہ خدا کو راضی رکھنا ہے تو پھر خدا کے محبوب علیہ الصلاة و
السلام کو محبوب رکھو ، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے
کہ جو مجھے محبوب رکھنا چاہتا ہے وہ اسے محبوب رکھے جسے میں نے محبوب رکھا
ہے اسے پسند کرے ، جسے میں نے پسند کیا ہے اور ہر اس چیز کو محبوب رکھے جس
کی نسبت مجھ سے ہو ۔ خواہ وہ نسبت ذاتی و ابدی ہے یا الحاقی و صفاتی ہے ۔
حضور علیہ الصلاة و السلام اور حضرت ابو طالب کا آپس میں عجیب رشتہ اور
تعلق تھا ۔
اختلاف ایک ایسی چیز ہے جو کسی قیمت پر بھی اکٹھا نہیں رہنے دیتی ، جب حضور
پر نور اور حضرت ابو طالب ۴۲ سال اکٹھا رہے خطبہ نکاح پڑھایا، اکٹھے کھاتے
پیتے رہے ، حضور کے مشورے و پروگرام سے اتفاق کیا ۔ خدا کو ایک خدا مانا ۔
رسول کو برحق رسول مانا، تبلیغ حق کی تائید کی اور حمایت کی بلکہ خود بھی
تبلیغ کی نبی علیہ الصلاة و السلام کی غلامی میں زندگی گزاری ، لالچ اور
پھر ڈر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ڈٹ کر ساتھ دیا شعب ابی طالب کو بھی قبول
فرمایا۔
پروگرام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اختلاف کرنے والے پہلے ہی الگ ہو
گئے ، جن میں ابو لہب بھی ہے ۔ اور اتفاق کرنے والوں میں حضرت ابو طالب صف
اول میں آتے ہیں ۔ چلو ظاہر کلمہ ہی سہی وہ حضرت عباس کی موجود گی میں پڑھ
لیا اصحاب کہف رضی اللہ عنہ کی خدمت اور رکھوالی کرنے والا کتا اگر جنتی ہو
سکتا ہے اور یقینا ہے تو پھر تمام نبیوں کے سردار کی غلامی خدمت حفاظت و
حمایت کرنے والی شخصیت کے لئے جنت کا دروازہ کس نے بند کر دیا ہے ۔
اس سے زیادہ اور گمراہی کیا ہو سکتی ہے فرعون والوں میں سے ایک شخص نے اپنا
ایمان پوشیدہ رکھا موسیٰ کی کوئی خدمت نہ کی اعلانیہ مدد و حمایت نہ کی
لیکن ایک وقت آیا جب کہ موسیٰ کو قتل کیا جانے لگا تو وہ مومن شخص جس نے
اپنا ایمان چھپا رکھا تھا موسیٰ کے حق میں بول ۔ رب نے اسے مومن قرار دیا
اس کا نام ہی مومن رکھا ، اس کے ایمان کی خود رب نے تائید کی تو پھر حضرت
ابو طالب کے ایمان پر کیوں کر شبہ کیا جا سکتا ہے اصل میں یہ ایک سازش ہے
کہ اگر نبی کی ۴۲ برس کی غلامی و خدمت سے راہ ہدایت نہیں ملی تو پھر ولیوں
اور پیروں سے کیا حاصل ہو گا ۔
یہ تحریک اور سازش غیرو ں اور گستاخوں کی ہے جس میں ہمارے اپنے بھی سادگی
اور کوتاہ اندیشی سے شامل ہو بیٹھے یہ ہے میری تقریظ و تصدیق بحق کتاب ”
ایمان ابو طالب ۔
والسلام آپ کا مخلص ۔ سید شبیر احمد غازی کاظمی راجوروی کھائی گلہ
راولا کوٹ آزاد کشمیر خلیفہ حضرت مرشد ی محدث ہزاروی ۔( عیون المطالب فی
اثبات ایمان ابو طالب، ج /۱ ص/۶۱)
تقریظ
از عالی جناب عزت مآب ، مجاہد ملت ، سید الخطباء ، فخر الادباء ، شہنشاہ
سلطلنت خطابت ، برادر طریقت ، محترم و مکرم صاحبزادہ محمد افتخار الحسن
صاحب فیصل آباد
۔۔۔ اب میں نے ان کی تازہ تصنیف ایمان حضرت ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
پڑھی ہے جس میں موصوف نے پوری دیانتداری ، حق شناسی اور چشم بصیرت سے ایک
ایسی حقیقت سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے جو صدیوں سے غبار آلود
پردوں میں نہاں تھی ۔ اس سے پہلے بھی ہمارے اکابرین کرام نے اس موضوع پر
لکھنے کی کئی بار کوشش کی مگر مخالفین کی جرح و قدح کے خوف سے ہر بار قلم
ٹوٹے ۔ سیاہی خشک ہوئی اور کاغذ پھٹ گئے جس کے باعث حضرت ابو طالب کا ایمان
مسلمانوں پر عیاں نہ ہو سکا ۔ اب جناب صائم چشتی صاحب کی یہ جراٴت رندانہ
سمجھو یا حُسن عقیدت کی وارفتگی کہ انھوں نے حضرت ابو طالب کے دین و ایمان
پر پڑے ہوئے سیاہ پردوں کو دلائل سے چاک کرکے پوری طرح نکھار کر پیش کیا ہے
۔
باب شہر علم کے والد ، شیر خدا کے باپ اور داماد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے پیارے ابا کے اسلام کے سورج پر چھائے ہوئے بادلوں کو ہٹا کر اس
آفتاب کو پوری طرح چمکا دیا ہے جس کی ہر ایک کرن سے ابو طالب کے حق و
ایمان اور دین و اسلام کی روشنی دکھائی دیتی ہے ۔اگر چہ ہمارے بعض مفسرین
عظام نے قرآن پاک کی بعض آیات کے شان نزول کو حضرت ابو طالب کی ذات اقدس
کو ٹھہرایا ہے مثلاً:
”انک لا تھدی من احببت ۔۔۔ “یا ” ما کان للنبی والذین آمنوا ان یستغفروا
للمشرکین ۔۔۔ “اور یا ” و ینھون عنہ “
لیکن ان مفسرین کی یہ اپنی رائے ہے کوئی قول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نہیں ۔ جب ہم حدیث رسول کو تفسیر قرآن مانتے ہیں تو پھر انھیں آیات کے
شان نزول کے متعلق حضرت ابو طالب کے حق میں زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے نکلا ہوا کوئی لفظ تلاش کرکے پیش کرنا چاہئے جو کہیں نہیں ملے گا ۔
حالاں کہ قرآن پاک کی تشریح و تفسیر اور اس کے ایک ایک لفظ کو کھول کھول
کر بیان کرنے کا حق و منصب خود خدا وند تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک کو عطا کر
رکھا ہے ۔
جہاں تک میری علمی و تحقیقی معلومات کا تعلق ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے کہیں بھی ان آیات کے شان نزول کو حضرت ابو طالب کی ذات کو
نہیں فرمایا ۔ رہی مفسرین کی رائے تو اس میں اختلاف ہو سکتا ہے ۔
جناب ابو طالب کے ایمان کے منکر حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ سید المرسلین
علیہ السلام نے آخری وقت بھی ابو طالب پر اسلام پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ
چچا میرے کان میں ہی کلمہ شریف پڑھ دو تو انھوں نے کہا تھا : قریش کیا کہیں
گے گویا کہ قریش کے خوف سے ابو طالب نے آخری وقت بھی اسلام قبول نہیں کیا
تھا ۔ میں ان حضرات کرام سے نہایت ادب سے پوچھتا ہوں کہ بھلا جس مرد حق
پرست نے علی المرتضیٰ جیسا جری ، بہادر ، قاتل مرحب غارتگر ابن ود اور شیر
خدا کو جنم دیا ہو وہ خود قریش کے چند جوانوں سے ڈر کر دین و ایمان جیسی
متاع عزیز سے محروم رہ جائے حیران کن بات نہیں تو کیا ہے ؟
اور جس مرد حق شناس نے ایک دفعہ صرف اپنے بھتیجے کو ہی نہیں سید المرسلین
اور محبوب خدا کو بھی کفار مکہ کی طرف سے ایذا رسائی پر قبیلہ قریش کے بڑے
بڑے بہادروں ، پہلوانوں اور سورماؤں کے خلاف میان سے تلوار نکال کر انھیں
مقابلہ کے لئے للکارا تھا وہ آج انھیں لوگوں سے ڈر کر اسلام قبول نہیں
کرتا تعجب نہیں تو اور کیا ہے ؟
اس روایت کو ابو طالب کے کفر کی دلیل ٹھہرانے والے حضرات کی نظر سے شاید
شیخ دہلوی ۺ کی کتاب ”مدارج النبوت “جلد دوم صفحہ ۶۸ کی یہ عبارت نہیں گزری
جس میں انھوں نے حضرت ابو طالب کا آخروقت اسلام و ایمان ثابت کرکے
اختلافات کے تمام قلعے مسمار کر دیئے ہیں ۔
” در روایت ابن اسحاق آمدہ کہ وی اسلام آورد نزدیک بوقت موت و گفتہ کہ
چون قریب شد موت وی نظر کرد عباس بسوی وی دید کہ می جنباند لبہای خود را ۔
پس گوش نہاد عباس بسوی او و گفت بآنحضرت علیہ السلام یابن اخی واللہ
بتحقیق گفت برادر من کلمہ را کہ امر کردی تو اورا “
”ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضرت ابو طالب موت کے وقت اسلام لے آئے تھے ۔
وہ فرماتے ہیں کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو حضرت عباس رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف دیکھا اور دیکھا کہ حضرت ابو طالب کے ہونٹ ہل رہے
ہیں پھر حرت عباس نے اپنے کان ان کے لبو ں پر رکھے اور سنا کہ وہ کلمہ شریف
پڑھ رہے ہیں ۔ حضرت عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور
عرض کی : اے مرے بھائی کے بیٹے خدا کی قسم میں پورے یقین اور پوری تحقیق کے
ساتھ کہتا ہوں کہ میرے بھائی ابو طالب نے کلمہ پڑھ لیا ہے جس کا آپ نے
انھیں حکم فریا تھا “
اور شاید ان حضرات کی نظر سے شیخ دہلوی کی عبارت بھی آج تک پوشیدہ رہی ہے
کہ ” صاحب جامع الاصول آوردہ کہ زعم اہل بیت آن است کہ ابو طالب مسلمان
از دنیا رفتہ“
کذافی ، روضة الاحباب ، مدارج النبوة ، جلد دوم صفحہ ۲۴، صاحب جامع الاصول
اور صاحب روضة الاحباب اسی بات پر متفق ہیں اہل بیت اطہار ﷼ کا یہ گمان ہے
ابو طالب اس دنیا سے مسلمان گئے ہیں ۔ ہر مکتب فکر کے علمائے کرام اور
خصوصا اکابرین اہل سنت و جماعت شیخ دہلوی رحمة اللہ علیہ کو جب محدث و محقق
مانتے ہیں تو پھر حضرت ابو طالب کے ایمان و اسلام کے بارے میں ان کی تلاش و
تحقیق سے انکار کیوں ؟
ایک دفعہ حضرت ابو طالب بیمار ہوئے ۔ علاج کروائے مگر اچھے نہ ہوسکے ، آخر
اپنے بیٹے حضرت علی علیہ السلام سے کہا : علی علیہ السلام ، جاؤ اور اپنے
بھائی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا لاؤ تاکہ میری صحت و شفا کے لئے
دعا کریں ۔
علی مرتضیٰ آ گئے نبی نے پوچھا ، علی کیوں آئے ہو ؟
عرض کی ، آقا خود نہیں آیا باپ نے بھیجا ہے ۔
کیوں ؟
ۻٰ بیمار ہیں ، ان کی خواہش ہے کہ آپ دعا فرمائیں۔
نبی کریم علیہ السلام تشریف لے گئے اور چچا کے پاس کھڑے ہو کر ان کی صحت و
شفا کے لئے دعا کی ۔ فورا صحت ہو گئی ، شفا ہو گئی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئے
اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلوم ہوتا ہے کہ جیسے رب تیری
اطاعت کرتا ہے ۔
کیا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا صرف ابو طالب کی ظاہری و
جسمانی بیماری کی شفا تک ہی محدود رہی ۔ نہیں ، نسل انسانی کے غمخوار کی اس
دعا نے ابو طالب کی باطنی و روحانی بیماریوں کا بھی علاج کر دیا ۔ کفر کے
داغ دھو ڈالے ، الحاد کی سیاہی صاف کر دی ، شرک کے دھبے مٹا دیئے اور
گمراہی کی ظلمت دور کر دی۔
تمام اہل سنت و جماعت اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ امام الانبیاء علیہ
السلام کی ولادت با سعادت کی خبر سن کر ابو لہب نے خوشی سے اپنی لونڈی کو
آزاد کر دیا اور خدا کی طرف سے اسلام کے سب سے بڑے دشمن اور نبی کریم علیہ
السلام کے سب سے بڑے مخالف اس ابو لہب کو یہ انعام ملا کہ جہنم کی آگ میں
جلنے کے باوجود بھی اشارہ کرنے والی اس انگلی سے دودھ نکلتا ہے اگر ابو لہب
کے لئے یہ انعام ہو سکتا ہے تو جس ابو طالب نے اسلام کی کبھی مخالفت نہ کہ
ہو اور محبوب خدا کی کبھی مخالفت نہ کی ہو ابلکہ ہر لحظہ اپنے بھتیجے کا
ساتھ دیا ہو ۔ ہر مصیبت میں کام آیا ہو ۔ کفار مکہ کو مقابلہ کے لئے
للکارا ہو ۔ اور آخر مکہ کی بستی سے آمنہ کے لال کو مشرکین عرب کے ظلم و
ستم سے بچانے کے لئے نکال کر شعب ابی طالب میں لے آیا ہو ۔ اور پھر متواتر
کئی سال تک ساری رات اس در یتیم کی حفاظت کی خاطر ننگی تلوار سے پہرہ دیتا
رہا ہو کیا اس کی وفا و اطاعت کا صلہ خدا وند تعالیٰ کے رحمت و بخشش کے
خزانوں میں سے کچھ بھی نہیں؟
اور کیا تاریخ اسلام میں رسول اکرم ﷺکی قدم قدم پر حمایتکرنے اور شعب ابی
طالب کے سنہری باب کو مٹا دیا جائے ؟
حضرت ابو طالب کا اصلی نام عمران تھا ۔ ابو طالب آپ کی کنیت تھی ۔ اگر بغض
و عناد کا کوئی پیکر قرآن پاکی سورہ آل عمران کو آل مروان کہے تو اس کا
کیا علاج ۔ بہر حال صائم چشتی صاحب نے حضرت ابو طالب کے ایمان و اسلام کو
جن دلائل سے اور جس انداز میں پیش کیا ہے اور اپنے ذوق طبع کے پیش نظر ایک
ضروری اور اہم مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے ۔ وہ ہمارے لئے باعث فخر بھی اور ان
کے لئے ذریعہ نجات بھی۔۱#
صاحب زادہ افتخار الحسن لائل پور
۱۔ عیون المطالب فی اثبات ایمان ابو طالب، ج /۱ ص/۶۵
خواجہ خواجگان محبوب الٰہی حضرت نظام الدین دہلوی ۻ
بعد از آن ، آن حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ابو طالب ﷼ کے
بارے میں گفتگو ہوئی تو فرمایا کہ لکھتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن دوزخ میں
نہیں جائیں گے ۔
ایک مرتبہ خواجہ شفیق بلخی ۺ کی ملاقات مہتر خضر علیہ السلام سے ہوئی ۔ آپ
نے عجیب و غریب سوال کیا ۔ منجملہ ایک یہ بھی ہے کہ میں نے سنا ہے کہ قیامت
کے دن ابو طالب ﷼ دوزخ میں نہیں جائیں گے ، فرمایا: ٹھیک ہے ۔ میں نے سرور
کائنات خواجہ ٴ عالم کی زبان مبارک سے سنا ہے ۔ جو فرماتے ہیں کہ ابو طالب
قیامت کے دن بہشت میں جائیں گے ۔
خواجہ شفیق بلخی نے پوچھا دلیل ۔ فرمایا : ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب آپ فوت
ہوئے ہیں تو دنیا سے باایمان گئے ہیں ۔ اس دن سے شیطان غمناک ہے ۔ اور جب
اس کی قوم نے غمناکی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا : اس واسطے کہ وہ دنیا سے
با ایمان گیا ہے ۔۱#
۱۔ عیون المطالب فی اثبات ایمان ابو طالب، ج /۱ ص/۳۴۰ ،نقل از راحت المحبین
مترجم جلد /۲ ص/ ۱۱۶ ، مرتبہ امیر خسرو
امام بدر الدین عینی شارح بخاری
”و قال قرطبی : و قد سمعت ان اللّٰہ احی عمہ ابا طالب فامن بہ و روی اسھیلی
فی الرض بسنہ ان اللّٰہ احیا ام النبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم و اباہ
فآمنا بہ“۱#
اور فرمایا قرطبی نے اور بیشک سنا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور ﷺ کے چچا
ابو طالب ﷼ کو زندہ فرمایا، پس وہ ایمان لائے اور روایت بیان کی سہیلی نے
اپنی کتاب ” الروض “ میں سند کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے والدہ
ماجدہ اور والدہ مکرم کو زندہ فرمایا ، تو وہ آپ پر ایمان لائے ۔
۱۔ عیون المطالب فی اثبات ایمان ابو طالب، ج /۱ ص/۳۴۱،عمدة القاری شرح
بخاری ، ج / ۱۸ ص/ ۲۷۶
شاہ عبد الحق محدث دہلویۻ
حضرت عبد المطلب کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
آپ کے سگے چچا جناب ابو طالب نے اپنی آغوش کفالت میں لے لیا اگر چہ جناب
زبیر بن عبد المطلب بھی حضور سرور کائنات کے سگے چچا ہی تھے لیکن عبد اللہ
اور حضرت ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی آپس میں بہت ہی زیادہ محبت
اور گہرا ربط تھا ۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں انتہائی حفاظت
کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رکھنے کی وصیت فرمائی اور
ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عبد المطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو اس امر کا اختیار دے دیا تھا کہ آپ اپنے چچاؤں میں سے کسی چچا کی
کفالت میں رہنا پسند فرماتے ہیں ، چنانچہ رسول اللہ نے اپنی مرضی سے جناب
ابو طالب کے زیر کفالت و عاطفت میں رہنا پسند فرمایا تو حضرت ابو طالب ﷼ نے
وصیت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اظہار نبوت سے پہلے
اور بعثت مبارکہ کے بعد انتہائی خوش اسلوبی اور احسن طریقہ سے کفالت و
حفاظت کا فریضہ ادا فرمایاحتی کہ جناب ابو طالب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے آپ کا بستر مبارک اپنے پہلو میں خود
آراستہ فرماتے اور گھر کے اندر اور باہر ہمیشہ حضور کو ساتھ رکھتے ۔
نیز ابو طالب رضی اللی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت و
منقبت میں بے شمار اشعار کہے جن میں سے ایک یہ ہے:
اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا اسم گرامی اپنے نام سے نکالا ہے وہ
عرش پر محمود ہے اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔۱#
۱۔ عیون المطالب فی اثبات ایمان ابو طالب، ج /۱ ص/۳۴۲ |