صحابی کا مطلب ہے دوست یا ساتھی اس کی جمع صحابہ ہے،
صاحب کا مطلب دوستی کے ساتھ یہ لیکن اس کی جمع اصحاب ہے ،
شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ
ساتھی ہے جو امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور ایمان کی
حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی،
صحابی کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کے لیے خاص ہے
لہذا اب یہ لفظ کوئی دوسرا شخص اپنے ساتھیوں کے لیے استعمال نہیں کرسکتا،
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی مقدس جماعت اس زمین پر ازل سے لے کر ابد
تک پیدا ہونے والی تمام مخلوق انبیائے کرام علیہ السلام کے بعد افضل اور
اعلی ہے،
بے شک تمام قسم کی حمدوثناء صرف رب کائنات کے لئے ہے جو اپنی ربوبیت و
الوہیت اور صفات میں تنہا بے مثل اور لاشریک ہے جو رحمان اور رحیم ہے،
دنیا کائنات کی تمام قسم کی حمدوثناء صرف اللہ تعالی کے لیے جس نے ساری
دنیا میں عربوں کو اور عربوں میں صحابہ کرام رضی اللہ کی مقدس جماعت کو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے کے لئے چنا
اور درود و سلام امام اعظم امام کائنات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے لیے جنہوں نے اپنے اصحاب کو کتاب کی تعلیم حکمت سے دی،
ہمارے ماں باپ تمام صحابہ کرام پر قربان کہ جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کی اور ان کی محفلوں میں بیٹھ کر علم
دین حاصل کر کے ہم تک پہنچایا۔
فضیلت صحابہ کا جب بھی ذکر آتا ہے تو قرآن کریم کی بہت سی آیات حدیث نبوی
اس پر شاہد ہیں،
رب کائنات قرآن کریم سورۃ انفال آیت نمبر 74 میں فرماتے ہیں کہ
اور جو لوگ ایمان لائے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے
مہاجرین کو جگہ دی اور ان کی مدد فرمائے یہ لوگ سچے مومن ہیں اور ان کے لیے
بخشش اور عزت کا رزق ہے۔
سورۃ الحشر آیت نمبر 8 میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ
یہ مال مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گی وہ اللہ کا
فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ کی مدد کرتے
ہیں یہی لوگ ایمان میں سچے ہیں
پھر آگے جا کر اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ فتح آیت نمبر 18 میں ارشاد فرماتا
ہوتا ہے کہ
بلاشبہ اللہ ایمان والوں سے راضی ہو گا جنہوں نے درخت کے نیچے تیرے ہاتھ پر
بیعت کی اللہ نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا پس اللہ نے ان پر سکینت
نازل فرمائی اور بدلے میں انہیں قریبی فتح خیبر بھی عطا فرمائی۔
سورۃ توبہ آیت نمبر 88_89 اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی وسلم اور جو لوگ اس پر ایمان لائے اپنے مالوں اور جانوں سے
جہاد کیا انہی کے لئے بھلائی ہے اور وہی فلاح پانے والے ہیں اللہ نے ان کے
لئے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ اس میں
ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔
اسی طرح جب حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کیا جاتا تو فضائل صحابہ رضی اللہ عنہ
کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری حدیثیں موجود ہیں
جہاں تذکرہ ان کا نام لے کر کیا گیا ۔
امام کائنات صلی وسلم کا ارشاد ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری
جان اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو صحابہ
کرام رضی اللہ عنہ کے (ایک مد کے قریب یعنی 500 گرام) یا نصف مد ( جو) کے
برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔
مسلم شریف کی حدیث کے اندر ایک جگہ آتا ہے کہ تمام کائنات صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام سب سے افضل ہیں۔
اسی طرح حاکم کے اندر ہے کہ امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک
ہے کہ
تمام مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ فرشتوں سے افضل ہیں،
اسی طرح ابن حبان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
قیامت کے روز مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ سونے کے ممبروں پر جلوہ افروز
ہوں گئے ۔
اسی طرح بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ
انصار میرے قلب و جگر ہیں اور ان پر جو میرا حق تھا وہ انہوں نے ادا کردیا
اب ان کا حق ( یعنی جنت ) مجھ پر باقی ہے۔
ترمذی شریف میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
انصار کے حق میں دعا فرمائیں اللہ ان کو بخش دے، ان کی اولادوں کو بخش دے،
ان کی اولادوں کی اولادوں کو بخش دے اور ان کی عورتوں کو بخش دے ۔
احمد کے اندر فرمایا کہ عشرہ مبشرہ میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی
عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم کسی صحابی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا اورشریک ہونا غیر صحابی کی ساری زندگی کے اعمال
سے افضل ہے خواہ اسے نوح علیہ السلام کے برابر عمر دی گئی ہو۔
اسی طرح ابن ماجہ کے اندر ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ
فرماتے ہیں کہ کسی صحابی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ
گھڑی بھر کی رفاقتیں غیر صحابی کی ساری زندگی کے نیک اعمال سے افضل ہے۔
اسی طرح احمد کے اندر ایک جگہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ
فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اپنی ساری مخلوق
کے دلوں کو چاک کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ کے دلوں کو ساری مخلوق کے دنوں
سے بہتر پایا اور انہیں مدد گار بنایا اور وہ اللہ کے دین کی خاطر لڑے ۔
امام کائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ کے دین کی تبلیغ کا
کام شروع کیا دعوت عام کا سلسلہ شروع فرمایا تو تین سو ساٹھ بتوں کو الا
ماننے والے معاشرے میں ایک زلزلہ سا برپا ہو گیا۔
ابو لہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بکواس کی ، آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے خلاف مہم شروع کر دی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑائے
جانے لگا ۔
عقبہ بن ابی معیط نے حرم شریف میں آپ صلی اللہ وسلم کا گلا گھونٹنے کی کوشش
کی۔
ابو جہل جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین کہتا تھا آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے درپے ہو گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا الہ الا اللہ کا ذکر کرنے کے لیے آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی خیر خواہی اور ہمدردی چچا ابوطالب پر طرح طرح سے دباؤ
ڈالا گیا ۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں واضح طور پر یہ اعلان فرمایا
اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دے تب بھی
میں اس سے باز نہیں آؤں گا ۔
مخالفت کے اس ماحول میں دشمنی کی اس فضا میں
امام کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا،
اللہ کو ایک ماننا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینا،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہونا اپنی موت کو دعوت دینے کے
برابر تھا ۔
لیکن ہزاروں سلام کہ اس کے باوجود عالی حوصلہ سابقون الاولون صحابہ کرام
رضی اللہ نے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہا بلکہ
ہر طرح کا ظلم و ستم سہا اور صبر کی ایسی ایسی نادر مثالیں پیش کی کہ جن کا
اس سے پہلے زمین و آسمان نے کبھی کوئی مشاہدہ نہیں دیکھا اور نہ قیامت تک
دیکھے گا۔
جہاں حق و باطل کی یہ کشمکش دن بدن بڑھتی رہیں وہاں صحابہ کرام رضی اللہ
اپنے دین کی خاطر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی خاطر لازوال اور
بے مثال قربانیوں کی تاریخ رقم فرماتے رہے۔
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہی ہمیں دین کی سمجھ کی طرف
لا سکتیں ہیں کیونکہ وہ تمام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاگرد
تھے اور اپنی زندگی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے
مطابق گزارنے کا پکا ارادہ فرما چکے تھے تبی میرے رب العزت نے ان کے ساتھ
راضی ہونے کا اعلان قیامت تک کے لیے فرما دیا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقشِ قدم پر
چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔آمین
|