عذاب ایک ایسا لفظ ہے جو انسان کے دل و دماغ پر گہرے
اثرات مرتب کرتا ہے۔ اگر آسان لفظوں میں بیان کیا جاے تو یہ ایک ایسی کیفیت
کا نام ہے جس میں انسان کو شدید تکلیف، اذیت، یا درد کا سامنا ہوتا ہے۔
عذاب کی نوعیت خواہ جسمانی ہو یا روحانی، دونوں ہی انسان کی زندگی کو بری
طرح متاثر کرتے ہیں۔ عذاب کا تصور صرف موجودہ زندگی تک محدود نہیں، بلکہ
مختلف مذاہب اور عقائد میں اسے آخرت سے بھی جوڑا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت
ہے جس سے انسان چاہ کر بھی فرار حاصل نہیں کر سکتا، اسے چاہے تو بھی جھٹلا
نہیں سکتا۔
اگر ذرا غور کریں تو آپ کو اندازا ہو گا کہ عذاب کا سب سے پہلا تصور انسان
کی اپنی نفسیات میں پایا جاتا ہے۔ جب انسان کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے یا
کسی گناہ میں ملوث ہوتا ہے، تو اس کا ضمیر اسے اندر ہی اندر کوڑے مارتا ہے،
سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ یہ ایک قسم کا روحانی عذاب ہے جو انسان کو بے
چین کر دیتا ہے۔ یہ عذاب کبھی کبھی اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ انسان کی زندگی
اجیرن ہو جاتی ہے۔ وہ چین کی نیند سو نہیں پاتا، ہر وقت ایک خوف اور اضطراب
میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ خود کو بہلاوے دیتا ہے کہ ”کچھ نہیں، سب ٹھیک ہے“
مگر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ وہ پریشان ہوتا رہتا ہے۔ پریشانی بڑھتی جاتی
ہے اور اُس کے دیے ہوۓ بہلاوے کام نہیں آتے۔ یہ عذاب دراصل انسان کے اپنے
دل کی پیدا کردہ سزا ہے، جو اسے اس کے کرتوتوں کی یاد دلاتی ہے۔ اُسے یاد
دلاتی ہے کہ تم نے دوسروں کو اپنے عمل سے تکلیف پہنچاءی، تم نے دوسروں کے
ساتھ برا کیا, تم غریبوں کو جھڑکتے اور یتیم مسکین کا حق کھاتے رہے، تمھاری
زبان سے جھوٹ نکلتا رہا، تم نے اپنے قول و عمل سے لوگوں کو گمراہ کرتے رہے۔
وہ صرف یہ عذاب برداشت کرتا رہتا ہے کچھ بھی نہیں کر پاتا۔
جسمانی عذاب بھی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انسان انکار نہیں کر
سکتا۔ بیماری، حادثات، نقصان، غم، یا کسی اور وجہ سے ہونے والا درد انسان
کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ عذاب کبھی مختصر ہوتا ہے اور کبھی طویل،
لیکن اس کے اثرات انسان کی زندگی پر گہرے ہوتے ہیں۔ جسمانی عذاب کا سامنا
کرتے ہوئے انسان کئی بار خود کو بے بس اور لاچار محسوس کرتا ہے۔ وہ چاہ کر
بھی اس درد سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتا۔ یہ عذاب انسان کو اس کی کمزوریوں
کا احساس دلاتا ہے اور اسے یہ باور کراتا ہے کہ وہ کتنا بے بس اور ناتواں
ہے۔ اُس کے پاس ہسپتال ہیں مگر زندگی چاہ کر بھی نہیں بچا سکتا۔ اُس کے پاس
محفوظ سفر کا نظام ہے مگر پھر بھی مارا جاتا ہے۔ انسان کو یہ بتا دیا جاتا
ہے کہ یہ مضبوت عمارت یا کوءی بھی نظام اُسے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ وہ
بےبس ہو کر رہ جاتا ہے۔
مذہبی نقطہ نظر سے عذاب کا تصور اور بھی گہرا ہے۔ تقریباً تمام مذاہب میں
عذاب کا ذکر ملتا ہے، جو انسان کو اس کے برے اعمال کی سزا کے طور پر دیا
جاتا ہے۔ اسلام میں جہنم کا تصور عذاب کی انتہائی شدید شکل کو پیش کرتا ہے۔
جہنم وہ جگہ ہے جہاں گناہگاروں کو ان کے اعمال کی پاداش میں شدید عذاب دیا
جائے گا۔ یہ عذاب نہ صرف جسمانی ہوگا، بلکہ روحانی طور پر بھی انسان کو
تڑپائے گا۔ قرآن پاک میں جہنم کے عذاب کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، تاکہ
انسان اس سے ڈرے اور اپنے اعمال کو درست کرے۔
عیسائیت میں بھی عذاب کا تصور پایا جاتا ہے۔ گناہوں کی سزا کے طور پر انسان
کو جہنم میں ڈالا جائے گا، جہاں وہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا رہے گا۔
ہندو مت میں بھی عذاب کا تصور موجود ہے، جہاں انسان کو اس کے کرموں کے
مطابق سزا ملتی ہے۔ بدھ مت میں بھی عذاب کا ذکر ملتا ہے، جہاں انسان کو اس
کے برے اعمال کی پاداش میں مختلف طرح کے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عذاب کا تصور صرف مذہبی کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ اسے دنیاوی زندگی میں
بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انسان اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے لیے عذاب کا سامان
مہیا کرتا ہے۔ جنگوں، ظلم، ناانصافی، اور استحصال کے ذریعے انسان دوسروں کو
عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ عذاب کبھی کسی قوم کو ملتا ہے، تو کبھی کسی فرد
کو۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں انسانوں نے دوسروں کو
عذاب دیا ہے۔ ہولوکاسٹ، غلامی، اور استعماریت ایسی مثالیں ہیں جہاں انسانوں
نے انسانوں کو بے پناہ عذاب میں مبتلا کیا۔ ابھی تو تازا عذاب جو انسانوں
کی طرف سے دیا جا رہا ہے وہ فلستین ہے۔ نہیں، اُسے عذاب نہیں بلکہ قیامت کا
عذاب کہہ سکتے ہیں۔
عذاب کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو اس کی غلطیوں کا احساس دلا کر
اسے سدھارنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ کئی بار عذاب انسان کے لیے ایک سبق بن
جاتا ہے۔ جب انسان کو کسی غلطی کی وجہ سے عذاب ملتا ہے، تو وہ اس سے سبق
سیکھتا ہے اور اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ عذاب دراصل
انسان کے لیے ایک آزمائش ہوتا ہے، جو اسے بہتر بنانے کا موقع فراہم کرتا
ہے۔
عذاب کا تصور اتنا وسیع ہے کہ اسے صرف الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ
ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا ہر انسان کو کبھی نہ کبھی کرنا پڑتا ہے۔
خواہ یہ عذاب جسمانی ہو یا روحانی، دنیاوی ہو یا اخروی، اس کا اثر انسان کی
زندگی پر گہرا ہوتا ہے۔ عذاب انسان کو اس کی کمزوریوں کا احساس دلاتا ہے
اور اسے یہ باور کراتا ہے کہ وہ کتنا بے بس ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ انسان کو
اس کے اعمال پر غور کرنے کا موقع بھی دیتا ہے، تاکہ وہ اپنی غلطیوں کو
سدھار سکے اور ایک بہتر زندگی گزار سکے۔
عذاب کا یہ سفر جتنا تکلیف دہ ہے، اتنا ہی سبق آموز بھی۔ یہ انسان کو زندگی
کی حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے اور اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ ہر عمل کا ایک
نتیجہ ہوتا ہے۔ خواہ یہ نتیجہ خوشگوار ہو یا دردناک، انسان کو اس کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔ عذاب انسان کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے اور اسے
یہ باور کراتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو
عذاب انسان کو سکھاتا ہے۔
|