حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا (عربی: صفية بنت
حيي) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں سے ایک تھیں۔
ان کا اصل نام زینب تھا۔ غزوۂ خیبر کے قیدیوں میں سے حضور صلی اللہ علیہ و
آلہ و سلم کے حصے میں آئی تھیں۔ آپ قبیلہ بنو نضیر کے سردار حی بن اخطب کی
بیٹی تھیں۔ ان کی ماں بھی رئیس قریظہ کی بیٹی تھیں۔
ان کی پہلی شادی مشکم القرظی سے ہوئی۔ اس سے طلاق کے بعد کنانہ بن ابی
الحقیق کے نکاح میں آئیں جو جنگ خیبر میں قتل ہوا۔
حضرت صفیہ جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے
آزاد کر کے نکاح کیا۔
آپ رضی اللہ عنہا کا انتقال 50ھ ( 670ء ) میں ہوا۔ آپ کو جنت البقیع میں
دفن کر دیا گیا۔
ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حی بن اخطب بہت بڑے باپ کی بیٹی اور اونچے
خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ غزوہ خیبر کے دوران میں جب قلعہ قموص فتح ہواتو
یہ بھی قیدیوں میں شامل تھیں۔پہلے یہ سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو عطا
ہوئیں۔
ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، عرض کی کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو نضیر کے سردار کی بیٹی دحیہ کو دے دی
ہے، حالانکہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی کے لائق نہیں ،
چنانچہ دحیہ کلبی کو ایک اور لونڈی دے دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
سیدہ کو آزاد کردیا اوران کی آزادی کو حق مہر قرار دے کر ان سے نکاح
کرلیا۔اس سے پہلے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا مسلمان ہو چکی تھیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ پر
نیل پڑا ہوا دیکھا تو دریافت فرمایا : ‘‘ صفیہ! یہ نیل کانشان کیسا ؟’’
وہ کہنے لگیں : میں اپنے سابقہ شوہر ابن الحقیق کی گود مین سر رکھے سوئی
ہوئی تھی کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میری گود میں چاند اترا ہے۔ میں نے
اپنے شوہر کو خواب سنایا تو اس نے میرے چہرے پر زور سے تھپڑ مارتے ہوئے
کہا: تو یثرب کے حکمران سے شادی کرنا چاہتی ہے؟ یہ اسی تھپڑ کا نشان ہے۔
قارئین کرام ! آپ نے یہودی سردار کی بد اخلاقی ملاحظہ کرلی کہ ایک خواب کی
وجہ سے تھپر مار دیا ۔ مگر اللہ نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا خواب سچا کر
دیا اور ان کا نکاح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گیا۔ انہیں جہنم
سے چھٹکارا مل گیا اور مومنوں کی ماں بننے کا اعزاز حاصل ہوا نیز جنت میں
بھی خاتم الانبیاء و المرسلین کی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف مل گیا۔
آیئے اب ذرا اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی ایک جھلک
ملاحظہ کیجیے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے مدینہ واپس آتے ہوئے سیدہ صفیہ رضی اللّٰہ
کے اونٹ پر ہی سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس طرح عزت
افزائی کی کہ جب سیدہ اونٹ پر سواری کا ارادہ کرتیں تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اونٹ کے پاس جاتے ، اپنا گھٹنا آگے کر دیتے تا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا
اپنا قدم سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زانو پر رکھ کر سوار
ہوں۔
ادھر سیدہ صفیہ رضی اللّٰہ کا حسن ادب دیکھیے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کا اس قدر احترام کرتی تھیں کہ اپنا پاؤں کبھی بھی اس مبارک
گھٹنے پر نہ رکھتیں بلکہ اپنا گھٹنا اس پر رکھ کر سوار ہو جاتیں۔
اب آیئے دیکھیے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کے اخلاق کے بارے میں کیا گواہی دیتی ہیں،
سیدہ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر اخلاق والا
انسان نہیں دیکھا ۔ میں خیبر میں رات کو انکی اونٹنی پر سوار تھی ۔ مجھے
اونگھ آتی تو میرا سر کجاوے سے لگ جاتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے
ہاتھ سے جگاتے ہوئے فرماتے: ‘‘ اری ذرا سنبھل کر، اے حی کی بیٹی صفیہ ! ذرا
دھیان سے۔’’
ایک مرتبہ سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھما نے یہ بات کہہ دی کہ ہم
رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ہاں صفیہ رضی اللہ عنھا سے زیادہ قدرو منزلت
والی ہیں کہ ہم رسول کی زوجات بھی ہیں اور آپ کی چچا زاد بھی ہیں۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں عرض کر دی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ان کی تالیف قلبی
فرمائی کہ صفیہ تم نے ان سے اس طرح کیوں نہ کہا:
‘‘ تم مجھ سے کیسے بہتر ہو سکتی ہو جبکہ میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ہیں ،
میرے باپ ہارون علیہ السلام ہیں اور میرے چچا موسی علیہ السلام ہیں۔’’
قارئین کرام !
یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلی اخلاق تھا کہ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیوی کو ان الفاظ کے ساتھ تسلی دی ۔ ان کو بتایا کہ
ان کی اہمیت بھی کوئی کم نہیں ہے۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے بے حد متاثر
ہوئیں۔اسی چیز کا نتیجہ تھا کہ وہ آپ کے ساتھ بے حد محبت کرتی تھیں۔ وہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اور محبوب تر سمجھتی
تھیں۔اگر کبھی آپ بیمار پڑتے تو وہ آرزو کرتیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
صحت و عافیت میں رہیں اور اس کے بدلے یہ مرض مجھے لا حق ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر زندگی گزارنے کی
توفیق عطا فرمائے ۔۔آمین
|