حضرت ریحانہ بنت زید رضی اللہ

حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے بعد یہ تیسری رفیقِ حیات ہیں، جن کا انتقال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوا۔
تاریخی روایت کے مطابق حضرت ریحانہ بنت زيد بن عمرو‎ بنو قریظہ قبیلہ کی ایک یہودی خاتون تھیں۔ اور بعض روایات کے مطابق آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارہویں زوجہ مطہرہ تھیں (لیکن اس کے بارے میں اختلاف بھی ہے)
بعض حضرات نے ان کو حرم (کنیز) قرار دیا ہے، لیکن بعض دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت ریحانہ رضی اللّٰہ جو اسلام سے پہلے ایک یہودی خاندان کی خاتون تھیں جب جنگی اسیر ہو کر آئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کیا اور 6ھ ( 627ء ) میں ان سے نکاح کر لیا۔
بعض مؤرخین نے آپ رضی اللّٰہ کا تعلق بنوقریظہ سے بتایا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے والد شمعون بن زید تھے جن کو شرف صحابیت حاصل ہے اور رضی اللہ کے دائرے میں داخل ہوئے ،
حضرت ریحانہ رضی اللّٰہ کا قبول اسلام سے پہلے نکاح بنو قریظہ کے ’حکم‘ نامی شخص سے ہوا۔
غزوۂ بنوقریظہ کے بعد جن یہودیوں کو قتل کیا گیا ان میں 'حکم ' بھی شامل تھا اور ریحانہ کو جنگی قیدی کے طور پر مسلمانوں نے گرفتار کر لیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حضرت ام المنذر بنت قیس رضی اللہ عنہا کے گھر ٹھہرایا۔ ان کے قبول اسلام کے بعد آپ رضی اللّٰہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں۔ نکاح کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرِمبارک 59 سال تھی۔

آپ رضی اللّٰہ کے قبول اسلام کے بارے میں دو روایتیں ہیں،
اول:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم چاہو تو اسلام قبول کرلو اور چاہو تو اپنے مذہب پر قائم رہو۔
انہوں نے اپنے مذہب کو ترجیح دی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر اسلام قبول کرلو تو اپنے پاس رکھوں گا، لیکن وہ یہودیت پر قائم رہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے رویہ سے بہت رنج ہوا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ریحانہ کو اپنے حال پر چھوڑ دیا، ایک دفعہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ کی جماعت کے درمیان رونق افروز تھے۔
حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کے قبول اسلام کی خوشخبری سنائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے.(ابن ہشام نے لکھا ہے کہ ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر آہستہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کے قبول اسلام کی خوشخبری سنائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور صحابہ سے فرمایا کہ ثعلبہ ریحانہ کے اسلام کی خوشخبری لے کر آئے ہیں)
دوسری روایت کے مطابق حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرتی ہوں، قبول اسلام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی ملک میں رکھا۔
بعض روایتوں کے مطابق انہیں آزاد کرنے کے بعد ان سے نکاح فرماکر ازواج مطہرات میں شامل کرلیا۔ بہر صورت وہ باپردہ رہتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہر فرمائش پوری کرتے تھے۔
حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا نے 5 سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رفیقۂ حیات کی حیثیت سے گزارے۔ محرم 6 ھ میں بارہ اوقیہ اور ایک نش سونا مہر میں دیا کرتے تھے ،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اتنا ہی مہر ادا فرماکر حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمالیا۔ اور جس طرح دوسری ازواج مطہرات کی باری مقرر تھی، اسی طرح حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کی بھی باری مقرر تھی، اس طرح ام المومنین کے زمرے میں شامل ہوگئیں۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے فارغ ہوکر واپس مدینہ تشریف لائے، آپ سن 9ھ ( 630ء ) میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حیات مبارکہ میں ہی انتقال کر گئی۔( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے چند ماہ ( ایک روایت کے مطابق دس ماہ) قبل وفات پائی)۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا جنت البقیع میں دفن ہوئیں ،آپ رضی اللّٰہ جوانی کی حالت میں رحلت فرما گئی۔

نوٹ!

زمانہ کے لحاظ سے حضرت ریحانہ ؓ کا ذکر6ہجری میں اور ترتیب کے لحاظ سے حضرت جویریہ ؓکے بعد آتا ہے۔لیکن ان کے بارہ میں پائے جانے والے اختلاف کے باعث اس بحث کورکھا گیا۔ آخر میں ان کےبیان کی وجہ یہ اختلاف ہےکہ آیا وہ قطعی طور پر ازواج میں شامل ہیں یا نہیں؟
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ کتب سیر میں جن خواتین کے رسول اللہﷺ سے منسوب رہنے کے بعد اور آپؐ کے حرم میں شامل ہونےسے پہلے طلاق یا وفات پانے کا ذکر ہے ان کوازواج کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔بہرحال یہ بات نہایت اہم ہے کہ تاریخ میں کسی اور خاتون کی بطور زوجہ رسول اللہﷺ موجودگی کا اسطرح ذکر نہیں ملتا جس طرح حضرت ریحانہؓ کا۔اس تاریخی ریکارڈ کا خلاصہ یہ ہے۔
(1)حضرت ریحانہؓ کا حق مہر قریباً بارہ اوقیہ رسول اللہﷺ نےادافرمایا۔اور رسول اللہﷺ کے فیصلہ کےمطابق لونڈی یاملکِ یمین اور زوجہ کے درمیان مابہ الامتیاز حق مہر ہے۔ پس حضرت ریحانہؓ بھی حرم میں شامل تھیں نہ کہ کنیز۔

(2) حضرت ریحانہؓ کے نکاح اور رخصتی کے بعد طلاق کا ذکر بھی ملتا ہے۔ لونڈی کی صورت میں طلاق کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا۔ پس حضرت ریحانہؓ زوجۂ رسولؐ تھیں۔

(3)آنحضورﷺ کا حضرت ریحانہؓ کے لئے الگ رہائش کا انتظام اور دیگر ازواج جیسی باری کی تقسیم بھی ان کے زوجہ ہونے پر دلیل ہے۔

(4)حضرت صفیہؓ کی طرح حضرت ریحانہؓ سے بھی رسول اللہﷺ کا ازواج النبیؐ کی طرح پردہ کروانابھی ان کے زوجہ ہونے کی واضح علامت ہے۔

(5)اسیرِ جنگ ہونےکےلحاظ سےاگر صفیہؓ اور جویریہؓ سےگہری مماثلت کے باوجودحضرت ریحانہؓ کو زوجہ تسلیم نہ کیا جائے تو تینوں کو کنیز ماننا پڑیگا کیونکہ تینوں جنگی قیدی اور اموال فۓ میں سے تھیں۔
جہاں تک رسول اللہﷺ سے منسوب دیگرخواتین کاذکر ہے۔ اِن میں سے کسی ایک میں بھی حضرت ریحانہؓ والی خصوصیات موجودنہیں کیونکہ یا تو ان خواتین سے نکاح ہی نہیں ہوا ،صرف پیغام کے بعد معاملہ ختم ہوا جیسے ام شریک،خولہ بنت الھذیل،اسماءبنت الصلت،اسماء بنت النعمان،آمنہ،ام حرام وغیرہ یا بعض ایسی تھیں کہ باقاعدہ رخصتی عمل میں آنے سے پہلے ہی طلاق ہوگئی جیسےعمرۃ بنت یزید بن الجون،عالیہ بنت ظبیان وغیرہ ان میں سے کسی کو بھی رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہنے کا موقع نہیں ملا۔
کسی مؤرخ یا سیرت نگار نے بھی ان کو حضرت ریحانہؓ کی طرح زوجہ قرار نہیں دیا۔
علامہ ابن الاثیر اس بارہ میں لکھتے ہیں:۔
‘‘ایسی خواتین جن کی رسول کریمؐ کے ہاں رخصتی نہیں ہوئی یا محض پیغامِ نکاح بھجوایا اور عقد مکمل نہ ہوا یا کسی عورت نے آپ سے پناہ چاہی اورآپؐ نے طلاق دے دی تو ان امور میں بہت اختلاف ہے جس کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
ان خواتین کے مقابل پر حضرت ریحانہؓ کے زوجہ ہونے کا ذکر مؤرخ طبری و ابن سعد، محدث ابن الجوزی اور شارح بخاری علامہ ابن حجر نے انکی مذکورہ خصوصیات کی بناء پرکیا ہے۔

اس بارے میں بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ پڑھیں کہ
حضرت ریحانہ بنت زید یا بنتِ شمعون رضی اللہ عنہا سے متعلق دونوں روایتیں موجود ہیں، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بطورِ کنیز اپنے پاس رکھا تھا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو آزاد کر کے نکاح کر لیا تھا، حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کو کنیزوں میں شامل فرمایا ہے، اسی طرح السیرۃ الحلبیۃ میں بھی حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیزوں میں شامل فرمایا گیا ہے۔

سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:

"ریحانہ بنتِ شمعون رضی اللہ عنہا

ریحانہ خاندان بنو قریظہ یا بنو نضیر سے تھیں، اسیر ہو کر آئیں، اور بطور کنیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں رہیں، حجۃ الوداع کے بعد دس ہجری میں انتقال کیا، اور بقیع میں دفن ہوئیں، اور ایک قول یہ ہے کہ آپ نے ان کو آزاد کر کے نکاح فرمایا تھا۔"

(باب پنجم، ازواج مطہرات و اولاد کرام، جلد اول، صفحہ: 283)

الإصابة في تمييز الصحابة میں ہے:

"وأخرج ابن سعد عن الواقديّ بسند له عن عمر بن الحكم، قال: كانت ريحانة عند زوج لها يحبها، وكانت ذات جمال، فلما سبيت بنو قريظة عرض السبي على النبي صلّى اللَّه عليه وسلّم، فعزلها، ثم أرسلها إلى بيت أم المنذر بنت قيس حتى قتل الأسرى، فرق السبي، فدخل إليها فاختبأت منه حياء. قالت: فدعاني فأجلسني بين يديه وخيرني فاخترت اللَّه ورسوله، فأعتقني وتزوّج بي. فلم تزل عنده حتى ماتت. وكان يستكثر منها ويعطيها ما تسأله، وماتت مرجعه من الحج، ودفنها بالبقيع."

(الفصل الثالث، حرف الراء، جلد:8، صفحہ: 146، طبع: دار الکتب العلمیۃ)

سير أعلام النبلاء میں ہے :

"ريحانة ‌بنت ‌زيد بن عمرو بن خنافة، وكانت ذات جمال، قالت: فتزوجني وأصدقني اثنتي عشرة أوقية ونشا وأعرس بي وقسم لي. وكان معجبا بها، توفيت مرجعه من حجة الوداع، وكان تزويجه بها في المحرم سنة ست."

(سنة إحدى عشرة، ‌‌باب: تركة رسول الله صلى الله عليه وسلم، جلد: 2، صفحه: 495، طبع: الرسالۃ)

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144501102377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 887 Articles with 617266 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More