ایک طرف قلم کے مزدورمعاش کو تلاش کرتے کرتے معاشرت کے
متعدد موضوعات سے چشم پوشی کرجاتے ہیں دوسری طرف کتب بیزار معاشرے کی
تحریروتقریرمیں دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے کیونکہ اب وہ سوشل میڈیا
پر ریل دیکھناپسندکرتے ہیں بہر کیف اب بھی علم کی پیاس بجھانے کیلئے قلم
اورقرطاس کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جاسکتا۔کتب بیزاری نے ہمارے بچوں کی
املا اورخوش خطی کو بری طرح متاثر کیا ہے،قوم کے بیٹوں اوربیٹیوں کے ہاتھوں
قومی زبان پر لگائی جانیوالی ضربات کوقومی سانحہ کہنا بیجا نہیں ہوگا۔
ارباب اختیار نے قوم کے معماروں سے قلم دوات اور" تختی "چھین کرنظام تعلیم
کادھڑن" تختہ "کردیا۔طلبہ وطالبات کوآج بھی تحریری نصاب سے بہتر کوئی سیراب
نہیں کرسکتا ، طلبہ وطالبات کے ہاتھوں میں سیل فون آنے سے ان کے ہاتھوں سے
حیاء کادامن چھوٹ رہا ہے۔اس دور پرفتن میں طرح طرح کیــ" ایپ" سے طرح طرح
کے" عیب "دیکھنے اورسننے میں آرہے ہیں،ان کے آگے فوری بندباندھنا ہوگا ۔
میں پھر کہتا ہوں "بے حیائی "کاسیلاب "مہنگائی "سے زیادہ خطرناک ہے لیکن
افسوس ارباب اقتدار واختیار میں سے کوئی راقم کی "دوہائی" نہیں سنتا۔اب پی
ٹی وی سمیت کسی نجی چینل کاکوئی بھی سیریل تودرکنار کمرشل تک بیٹیوں کے
ساتھ بیٹھ کرنہیں دیکھا جاسکتا ۔عریانی ،فحاشی اور بے حیائی کوسلوپوائزن کی
طرح ہماری رگ رگ میں اتارا جبکہ مردوزن کو اس کاعادی اورفسادی بنایاجارہا
ہے۔جماعت اسلامی اوردعوت اسلامی کے قائدین سمیت علماء حضرات بھی بے حیائی
سے چشم پوشی اوراس ایشوپرمجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔
ہمارے پیاروں اوریاروں میں ایساکوئی نہیں جس میں خوبیاں اورخامیاں نہ ہوں۔
ہر معاشرے میں دوطرح کے انسان ہوتے ہیں،ایک وہ جودوسروں سے متاثر ہوتاہے
اوردوسری قسم کے وہ باصلاحیت لوگ جو اپنے افکار وکردار سے دوسروں کو اپنا
گرویدہ بناتے ہیں ۔ ہم دوسروں سے متاثر ہوتے یا دوسروں کومتاثرکرتے ہیں
ہماری یہ عادت یاکیفیت ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔ ہمارازندگی میں طرح
طرح کی سرگرمیوں کے حامل افراد سے سامنا ہوتا ہے ،ہم کسی بھی انسان کے اندر
چھپی اچھائی اوربرائی کو اس کی لفاظی سے پہچان سکتے ہیں۔انسان کے لہجے سے
اس کاباطن ظاہرہوجاتا ہے،میں سمجھتا ہوں صرف اچھیـ" صحت" نہیں اچھی" صحبت
"بھی ہزار نعمت ہے۔ کئی لوگ محض اپنی صحبت سے شناخت ہو جاتے ہیں،جس انسان
کی صحبت بری ہواس کی اچھی صحت بھی اس کے کسی کام نہیں آئے گی۔رشتہ داروں
کاانتخاب ہم میں سے کسی کے بس میں نہیں لیکن اچھے دوست منتخب کرنا یقینا
ہمارے اختیارمیں ہے۔کسی گندی مچھلی کواپنا دامن گندا کرنے کی اجازت نہ دیں،
جس انسان سے منفی ریز آتی ہوں اس سے بیزاری اور دوری اختیار کرنے میں
دانائی ہے۔ہماری سیاست اورصحافت سمیت ریاست کاکوئی شعبہ شعبدہ بازوں، رنگ
بازوں اورنوسربازوں سے پاک نہیں، ہمارے ہاں وہ لوگ جو" زیادہ لچے ہیں
بدقسمتی سے وہ زیادہ اُچے" ہیں۔آپ کئی جسم فروشوں، قلم فروشوں،ضمیر فروشوں
اورچورن فروشوں کواخلاقیات کادرس بلکہ دہائی دیتے ہوئے دیکھیں گے، ہرطرف
نام نہاد موٹیویشنل سپیکروں ، عطائیوں اورفتنوں کی بھرمار ہے ۔آزاد انسانوں
کواپنے فائدے کیلئے بار باربیچنا مخصوص دین فروش اور قلم فروش افراد
کاطریقہ واردات ہے،یہ مختلف عہدوں پربراجمان ارباب اقتدار واختیار کو مرعوب
کرنے اوراپنامغلوب بنانے کی نیت سے دانستہ اپنی تحریروں اورتقریروں میں
بااثر شخصیات کے ساتھ اپنے تعلقات کاتاثر دیتے اوراس آڑ میں موٹامال بناتے
ہیں۔ان کیلئے مقتدر افراد کے ساتھ تعلقات انتہائی منفعت بخش ہیں ،اوراس کی
اچھی خاصی قیمت وصول کی جاتی ہے۔
عام انسانوں اوربالخصوص حکمرانوں کے اعمال اورافعال کے سلسلہ میں نیت کی
اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔راقم نے اپنے ہوش میں کسی فوجی یافوج کے
کٹھ پتلی حکمران کی نیت اوراس کی سمت درست نہیں دیکھی ، ہرکوئی اپنا
اپناچورن بیچتا اورقومی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے نوچتارہا۔ہرمطلق العنان
نے تخت اسلام آباد کی مضبوطی کیلئے اسلام سمیت پاکستان کوتختہ مشق
اورپاکستانیوں کویرغمال بنایا ۔ بابائے قوم محمدعلی جناحؒ کے نافرمان ایوب
خان کی ایوبی آمریت نے اپنے بعد آنیوالے فوجی آمروں کی اقتدار کے ایوانوں
تک رسائی کیلئے راستہ ہموار کیا، منافقت کی چادر میں چھپی ضیائی آمریت
بظاہر اسلامیت کی علمبردار تھی تاہم حقیقت میں ضیائی مائنڈسیٹ سے دوریذیدیت
جھلکتا تھا ۔پرویزی آمریت میں روشن خیالی کاڈھونگ رچایاگیاتھا جبکہ فوجی
آمروں کی باقیات نے جمہوریت کاپرچم تھام لیا۔جواپنے غلام سیاستدانوں کو
زبردستی عوام کاآقابناتے رہے ،ریاست ،معیشت اورمعاشرت کی بربادی کابوجھ ان
کے کندھوں پر سول حکمرانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔قومی سیاست میں بار
بار اور بیجامداخلت کے ریاست ،معاشرت اورمعیشت پر منفی اثرات سے کوئی انکار
نہیں کرسکتا ۔ ہم قیام پاکستان سے اب تک ارباب اقتدار واختیار کی بدنیتی،
بدانتظامی اورانتقامی روش کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔موروثیت نے سیاست
کوبانجھ بنادیا ، نظریاتی سیاست اورنظریاتی سیاسی قیادت ناپید ہوگئی،
مالیاتی سیاست اورمالیاتی صحافت نے نظریاتی ریاست کی سمت اورقسمت دونوں کو
تبدیل کردیا ۔ایٹمی پاکستان کی ناتواں معیشت پر بیرونی قرض کابوجھ بڑھتا
رہاجبکہ حکمران اوران کے حواری اپنی تجوریاں بھرتے اور قومی وسائل سے چوری
کیاگیا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرتے رہے۔ بابائے قوم ؒکی وفات اورقائدملت
لیاقت علی خانؒ کی شہادت کے بعداقتدارمیں آنیوالے زیادہ تر حکمرانوں میں
ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت اوران میں سیاسی بصیرت تک نہیں تھی لیکن پھر
بھی وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ویژن ،ویژن کاشور مچاتے رہے، ہر احمقانہ
اورعاقبت نااندیشانہ اقدام کوان کا ویژن قراردیاگیا۔جوارباب اقتدار واختیار
ویژن کے مفہوم سے آشنا نہیں ، بدقسمتی سے انہیں بھی ویژنری کہا جاتا ہے ۔جس
کی کسی بات میں کوئی وزن نہیں ہوتا وہ بھی اپنے نام نہاد ویژن کی دوہائی
دیتا ہے ۔اب توایس ایچ اوز بھی اپنے ہرایک محکما نہ ہینڈآؤٹ میں آئی جی
پنجاب کے ویژن کاڈھول ضرور پیٹتے ہیں۔میں پھر کہتا ہوں پنجاب پولیس کے
کمانڈر کی تبدیلی تک پولیس کلچر تبدیل نہیں ہوگا۔محکمہ پولیس سمیت کوئی
شعبہ شعبدہ بازی سے بہتر نہیں ہوسکتا۔آئی جی پنجاب نے اپنے شہرت کے شوق میں
پنجاب پولیس کوتختہ مشق بنادیا۔ پنجاب پولیس کے "ویلے "آئی جی کے پاس
پروموٹ ہونیوالے تھانیداروں کوبیجز لگانے اورفوٹ شوٹ کروانے کے سواکوئی کام
نہیں، سی پی اومیں تعینات ڈی پی آر کی گروپ فوٹو میں موجودگی محکمانہ
بیہودگی ہے ۔پولیس کلچر کی بدترین ناکامی اوربدنامی کے باوجود اصلاحات کرنا
آئی جی پنجاب کی ترجیحات کاحصہ نہیں۔جیل خانہ جات پنجاب میں اہم منصب
پربراجمان ایک شخص اگرارباب اقتدار کی خوشامدنہ کرتاتواس وقت خودجیل میں
ہوتا،اس پرآئندہ کالم میں بات کروں گا۔
شعبدہ باز آفیسرز"شہرت" جبکہ رفعت مختارسے زندہ ضمیر ارباب اختیار"
رفعت،عفت،عافیت اورعاقبت" کیلئے کام کرتے ہیں۔کئی برسوں بعد ایف آئی اے کی
باگ ڈور نیک نیت اورنیک نام رفعت مختارراجا کے سپردکی گئی ہے،ارباب اقتدار
کی طرف سے اس اہم منصب کیلئے رفعت مختارراجا یقینا موزوں اوردرست انتخاب
ہیں۔ اب قوی امید ہے ڈی جی ایف آئی اے رفعت مختار کی قیادت میں اس محکمے
پرسیاہ بادل کی طرح چھائی بدعنوانی اوربدانتظامی کی نحوست چھٹ جائے گی
۔رفعت مختارراجا اپنی پیشہ ورانہ اصلاحات کی شروعات ایف آئی ا ے لاہور سے
کریں،وہاں بڑی انتظامی تبدیلی ناگزیر ہے۔ایف آئی اے سائبر ونگ لاہور کے روح
رواں محمد سرفرازچوہدری کے محکمانہ اورپیشہ ورانہ کام نے انہیں مزید سرفراز
کردیا ہے ،اس طرح کے پراعتماد اورفرض شناس آفیسرزکی انتظامی صلاحیتوں سے
مزیدبہتر پوزیشن پراستفادہ کیاجائے ۔
میں پھرکہتاہوں شہرت کی ہوس شہوت سے بدترہے ۔یادرکھیں شہرت کیلئے اپنی عزت
داؤپرلگانابدترین حماقت کے سوا کچھ نہیں۔جوانسان شہرت کے پیچھے دوڑتے دوڑتے
اپنی عزت کی دھجیاں بکھیردے وہ کسی عزت دار کو بھی نہیں بخشتا،جودوسروں کی
عزت اچھالتا ہووہ عزت دار نہیں ہوسکتا ۔ہماری ریاست ،سیاست اورصحافت
کامخصوص شعبدہ باز وں نے بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ان شتربے
مہاروں ، شوبازوں اورشعبدہ بازوں سے نجات تک ہماراکوئی شعبہ منظم انداز سے
اپنا کام اورعوام کوڈیلیور نہیں کرسکتا ۔قلم فروشوں اورچورن فروشوں کی
باقیات نے صحافت کو میدان تجارت اورمیدان عداوت بنادیا ہے،انہوں نے اپنی
معاشرت ومعیشت بہتربنانے کیلئے صحافت کی نیلامی اوربدنامی میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی ۔جس اسلامی معاشرے میں ہم لوگ کئی ماہ تک قرآن مجید کی تلاوت
نہیں کرتے وہاں کالم اور خاص طور پر گالم گلوج کو ئی نہیں پڑھتا ،اگر سوشل
میڈیا نہ ہوتاتوان کی دکانیں بندہوجاتیں۔ اب لوگ مخصوص کالم نگار کو اس کی
شخصیت یا علمیت نہیں بلکہ اس کے قلمی شراورشہرت کی بنیاد پر اہمیت دیتے ہیں
خواہ اس کالم نگار کاقلم چندکوڑیوں کے عوض" بکتا "اوروہ گالیاں کیوں نہ"
بکتا" ہو۔ چند ایک کالم نگار دکانداراوراداکار بنے ہوئے ہیں وہ اپنی
جانبدارانہ تحریر میں اپنے تعلقات کا ڈھول پیٹتے ،کرپشن میں لتھڑے آفیسرز
کوبلیک میل کرتے اور اس آڑ میں سرکاری امور پراثراندازہوتے ہیں۔ یہ قلم
فروش جہاں جاتے ہیں ان کی شہرت ان سے پہلے وہاں پہنچی ہوتی ہے۔ورلڈکالمسٹ
کلب کے پلیٹ فارم سے سنجیدہ کالم نگار ان گندی مچھلیوں کاپوسٹ مارٹم
اورقلمی احتساب کرتے رہیں گے ۔
|