ان دنوں صوبہ خیبرپختونخوا کی وادی چترال میں خودکشی کئی
واقعات رونما ہورہے ہیں جوکہ یہاں کے عوام کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تفصیلات کے مطابق تحصیل تورکھو جو کہ ضلع اپر چترال کا ایک پُرامن علاقہ
سمجھا جاتا ہے یہاں حالیہ دنوں میں یکے بعد دیگرے دو افسوسناک خودکشیوں کے
واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف اہل چترال بلکہ اہلِ دانش اور
سماجی ماہرین کے لیے بھی ایک کربناک واقعات پر مبنی ہیں۔ ان واقعات نے
تورکھو جیسے نسبتاً پُرامن خطے میں ذہنی صحت، خاندانی نظام، معاشرتی دباؤ
اور نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کو ازسرِنو موضوعِ بحث بنا دیا ہے۔
پہلا واقعہ 29 مارچ کو گاؤں شوتخار میں پیش آیا جہاں 30 سالہ (م) نے
نامعلوم وجوہات کی بنا پر خودکشی کر لی۔ ابھی اس افسوسناک خبر کی بازگشت کم
نہ ہوئی تھی کہ جمعرات کی شام شاگرام کے رہائشی عبد الفتح کے جوان سال بیٹے
منیب احمد نے بھی 12 بور بندوق سے خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر
دیا۔ پولیس نے دونوں واقعات کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور منیب احمد کی
لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بونی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
چترال، خصوصاً اپر چترال، کو روایتی طور پر خاندانی ہم آہنگی، مذہبی اقدار،
ثقافتی وقار اور تعلیم سے جُڑا ہوا علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہاں خودکشی
جیسے واقعات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی
اور وجوہات عام طور پر خاندانی جھگڑوں یا نفسیاتی دباؤ پر مبنی ہوتی تھیں۔
تاہم گزشتہ چند برسوں میں اس رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو کہ
معاشرتی بگاڑ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، سماجی تنہائی، والدین کا بچوں پر بے
دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا آئینہ دار ہے۔
نوجوانوں میں ذہنی دباؤ، اضطراب اور ڈپریشن جیسے امراض میں اضافہ ہوتا جا
رہا ہے، جس پر نہ تو والدین کی نظر ہے اور نہ ہی تعلیمی ادارے اس مسئلے سے
نپٹنے کے لیے تیار ہیں۔
خاندانی سطح پر افراد ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں نکالتے، جذباتی اور
نفسیاتی مسائل پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کے باعث مسائل پنپتے
رہتے ہیں۔
مذہبی و سماجی ادارے اب صرف روایتی سرگرمیوں تک محدود ہو چکے ہیں، جنہیں
نوجوانوں کی تربیت اور ذہنی مسائل کے حل کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
منیب احمد کی خودکشی میں 12 بور بندوق کا استعمال اس بات کی غمازی کرتا ہے
کہ اسلحہ نوجوانوں کی پہنچ میں ہے جو ایک خطرناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے نمائندوں نے ان واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور
مطالبہ کیا ہے کہ اصل وجوہات کی کھوج کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات
کی روک تھام کی جا سکے۔ یہ مطالبہ بجا ہے لیکن اس پر سنجیدہ، منظم اور
مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
تورکھو جیسے علاقوں میں حکومتی یا نجی سطح پر کونسلنگ سنٹرز اور نفسیاتی
معالجین کی سہولیات مہیا کی جائیں۔
طلبہ اور اساتذہ کے لیے تربیتی سیشنز منعقد کیے جائیں جن میں ذہنی صحت،
سماجی دباؤ اور خودکشی سے بچاؤ جیسے موضوعات شامل ہوں۔
اہل سنت والجماعت کے مذہبی رہنما جمعہ کے خطبات، دروس اور محافل میں خودکشی
جیسے موضوعات کو اسلامی اور انسانی نقطہ نظر سے اُجاگر کریں۔ اور اسعیلی
مسلک کے مشنری حضرات جماعت خانوں میں اپنے پیروکاروں کی تربیت کریں اور ان
کو باور کرائیں کہ خود کشی حرام ہے۔
والدین اور بزرگ نسل کو نوجوانوں کے ساتھ وقت گزارنے، ان کی بات سننے اور
ان کے جذبات کو سمجھنے کی تربیت دی جائے۔
مقامی فلاحی تنظیمیں ایسے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور فوری
طور پر "بحالی مراکز" کے قیام کی طرف قدم اٹھائیں۔
خودکشی جیسے حساس موضوعات کی رپورٹنگ ذمہ داری سے کی جائے تاکہ یہ رجحان
پھیلنے کے بجائے کم ہو۔
چترال کی تحصیل تورکھو میں ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے دو خودکشی کے
واقعات اس امر کا ثبوت ہیں کہ ہمیں انفرادی، خاندانی، تعلیمی اور معاشرتی
سطح پر خود احتسابی اور سنجیدہ مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس وقت خاموشی ایک جرم
کے مترادف ہے۔ ہمیں بحیثیتِ قوم، بحیثیتِ معاشرہ اور بحیثیتِ انسان، فوری
طور پر ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونا ہوگا تاکہ ہم اپنی آنے
والی نسلوں کو ایک محفوظ، پُرامن اور صحتمند ماحول فراہم کر سکیں۔
|