انسان کی زبان اس کے کردار کی ترجمان ہوتی ہے۔ میٹھا بول
انسان کو عزت، محبت اور کامیابی دلاتا ہے، جبکہ بدزبانی، گالی گلوچ اور فحش
کلامی انسان کو ذلیل، رسوا اور محروم کر دیتی ہے۔ بدقسمتی سے آج کل ہماری
روزمرہ زندگی میں گالی دینا عام ہو گیا ہے — بچوں سے لے کر بڑوں تک، مذاق
سے لے کر غصے تک، ہر جگہ زبان کا غلط استعمال نظر آتا ہے۔
مگر ہمیں یہ سوچنا چاہیے: کیا یہ صرف ایک "عادت" ہے یا کچھ اور بھی؟
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
> "مسلمان کو گالی دینا فسق (یعنی گناہ) ہے، اور اس سے لڑنا کفر کے قریب ہے۔"
(صحیح بخاری، حدیث 48)
یہ حدیث واضح طور پر بتاتی ہے کہ گالی دینا صرف ایک بری عادت نہیں بلکہ
اللہ کی نظر میں گناہ ہے، اور یہ گناہ ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔
گناہ کا نتیجہ: بےبرکتی اور غربت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "بندہ گناہ کرتا ہے اور اس گناہ کے باعث اس کا رزق روک لیا جاتا ہے۔"
(ابن ماجہ، حدیث 4022)
اگر ہم ان دونوں احادیث کو جوڑ کر دیکھیں تو نتیجہ بہت واضح ہے:
گالی دینا = گناہ (فسق)
گناہ = رزق میں رکاوٹ، بےبرکتی، غربت
یعنی جو شخص روزمرہ زندگی میں بدزبانی کرتا ہے، وہ اللہ کی ناراضگی مول
لیتا ہے، اور جب اللہ ناراض ہو جائے تو رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے، دلوں سے
عزت ختم ہو جاتی ہے، اور انسان دنیا و آخرت دونوں میں خسارے میں چلا جاتا
ہے۔
معاشرتی نقصان بھی بڑا ہے
بدزبانی صرف انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ معاشرتی ناسور بن چکی ہے:
بچے بڑوں سے سیکھ کر بدزبان ہو جاتے ہیں
دوستیاں ٹوٹ جاتی ہیں
گھر کے ماحول میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے
کاروبار میں برکت ختم ہو جاتی ہے
دلوں سے احترام ختم ہو جاتا ہے
مشہور اقوال و محاورے
1. "زبان کا زخم تلوار سے گہرا ہوتا ہے"
2. "پہلے تولو، پھر بولو"
3. "جو بولے وہی پائے، جو چپ رہے وہ سکھ پائے"
4. "گالی دینا کمزوری کی علامت ہے، طاقت خاموشی میں ہے"
5. "اگر تم کچھ اچھا نہیں کہہ سکتے، تو چپ رہنا بہتر ہے"
عالمی شخصیات کے اقوال
حضرت علی کرم اللہ وجہہ:
> "زبان دل کا ترجمان ہے، اور عقل کا آئینہ۔"
امام غزالیؒ:
> "زبان کو قابو میں رکھنا نفس کو قابو میں رکھنے جیسا ہے۔"
مولانا رومیؒ:
> "زبان تلوار سے تیز ہے، مگر تلوار کا زخم بھر جاتا ہے، زبان کا نہیں۔"
ارسطو (Aristotle):
> "غصہ آنا آسان ہے، لیکن صحیح وقت، صحیح شخص اور صحیح وجہ سے غصہ ظاہر
کرنا مشکل ہے۔"
بدھ (Buddha):
> "الفاظ تیر کی طرح ہوتے ہیں، ایک بار نکل جائیں تو واپس نہیں آتے۔"
حل کیا ہے؟
1. زبان پر قابو پائیں
2. اپنے بچوں کو بدزبانی سے روکیں
3. نرمی، محبت اور ادب کو فروغ دیں
4. قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے اخلاق کو سنواریں
نتیجہ:
بدزبانی ایک گناہ ہے، اور گناہ غربت، رسوائی اور برکت کے ختم ہونے کا ذریعہ
ہے۔ ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ زبان سے دوسروں کو دکھ پہنچائے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی گفتگو کو خوبصورت بنائیں تاکہ دنیا میں عزت اور آخرت
میں جنت حاصل ہو۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
> "جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یا تو بھلا بولے یا خاموش
رہے۔"
(صحیح بخاری و مسلم)
یاد رکھیں:
"میٹھا بول، دلوں کو جوڑتا ہے — اور بدزبان، خود تنہا ہو جاتا ہے!"
|