ثقافت (Culture) جسے تہذیب بھی کہا جاتا ہے ، اس میں کسی
معاشرے کے رسم و رواج، روایات، زبان، ادب، فن، اخلاقیات، قوانین اور دیگر
سماجی عناصر شامل ہوتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ثقافت علم، عقائد، فن،
اخلاقیات، قانون اور رسم و رواج کا پیچیدہ مجموعہ ہے جس میں وہ تمام
صلاحیتیں اور عادات شامل ہیں جو انسان سماج کے ایک رکن کے طور پر حاصل کرتا
ہے۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے 1988 میں آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت کا
آغاز کیا جس کا مقصد سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی استحکام کو فروغ دینا ہے۔
آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت (اے کے ٹی سی) کا کہنا ہے کہ ہم معاشرتی ماحول،
ثقافتی ورثے اور تاریخی یادداشتوں کی اہمیت کے بارے میں بحث و تمحیص کو
فروغ دیتے اور موجودہ دورکے مسائل کیلئے حل تجویز کرتے ہیں۔ عوام کی جسمانی
و سماجی بحالی میں مشغولیت، موسیقی اور اس کی تعلیم مختلف ثقافتوں کو متنوع
فنون کے ذریعے منسلک کرتے ہیں۔
اے کے ٹی سی کا کہنا ہے کہ ہم مسلم دنیا کی متنوع ثقافتوں کے متعلق باخبر
افہام و تفہیم کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہوئے ثقافتی اظہار کی مختلف
صورتوں کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔ ہم نے مسلم آبادیوں کی سماجی و اقتصادی
حالت کو بہتر بنانے کیلئے ثقافت کی تبدیلی کو طاقت کے طور پر استعمال کیاہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے 40 ہزار موسیقاروں اور موسیقی کی تعلیم دینے والے
اساتذہ کی مدد اور معاونت کی۔مختلف رنگ و نسل اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے
والے کم از کم 5 کروڑ افراد اے کے ٹی سی کے تعمیر کردہ پارکس اور باغات کی
سیر کرچکے ہیں۔
اسی طرح جولائی 2024 میں آغا خان قطب شاہی پارک کی تکمیل کے موقعے پر
منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پرنس رحیم آغا خان نے کہا کہ ایک عظیم
منصوبے کے تحت نہ صرف مغل بادشاہ ہمایوں کے مقبرے، اس کے باغات اور 60 دیگر
تاریخی عمارات کو بحال کیا گیا جن میں سے 20 یونیسکو کی عالمی ورثے کی
فہرست میں شامل ہیں بلکہ 90 ایکڑ پر محیط سندر نرسری کو بھی تخلیق کیا گیا،
عوامی جگہوں کو بہتر بنایا گیا، اسکولوں اور مراکزِ صحتکو ترقی دی گئی،
تعلیمی و صحت عامہ کے پروگرامز نافذ کیے گئے، عوامی حفظانِ صحت، پانی اور
کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے منصوبے متعارف کرائے گئے اور ثقافتی احیا کو
فروغ دینے کیلئے تہواروں، محافل اور تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
اس موقعے پر پرنس رحیم آغا خان نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے آغا خان
ٹرسٹ فار کلچر کو اس شاندار منصوبے میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ اس
سفر میں یہاں کے متعلقہ کارپوریٹ اور فلاحی ادارے، بین الاقوامی معاونین،
آغا خان ڈویلپمنٹنیٹ ورک کے دیگر ادارے اور سب سے بڑھ کر عوام نے ہمارا
ساتھ دیا۔ہم سب نے مل کر دنیا کے سامنے ایک ایسا ماڈل پیش کرنے کی سعی کی
جو سوچ سمجھ کر کی جانے والی مشترکہ شہری ترقی کی بہترین مثال ہے۔عجائب گھر
اور تاریخی مقامات انسانی تہذیب کی کہانی محفوظ کرتے ہوئےاسے ہمارے سامنے
آشکار کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کو باہم منسلک کرکے ہمیں اپنے پیچیدہ ماضی میں
جھانکنے کا موقع اور ایک بہتر اور مشترکہ مستقبل کی تشکیل میں ہمارا ساتھ
دینے والے ہوتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ گزشتہ 30 سال سے آغا خان ہسٹورک سٹیز پروگرام نے 10 ممالک
میں 350 سے زائد بحالی و تحفظ کے منصوبوں پر اپنی حکمت عملی کی جانچ ، نظر
ثانی اور بہتری پر کام کیا جن میں یونیسکو کے عالمی ورثہ قرار دئیے گئے 11
مقامات بھی شامل ہیں۔پروگرام کے تحت 10 بڑے پارک اور باغات بنائے گئے جنہیں
کروڑوں افراد نے دیکھا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ثقافت میں سرمایہ کاری پائیدار
ترقی کی راہ میں نازک اور مشکل ترین حالات میں بھی معاونت کار ثابت ہوسکتی
ہے۔
علاوہ ازیں آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کا آغا خان ہسٹورک سٹیز پروگرام
(AKHCP) پورے پاکستان میں ایسے پراجیکٹس پر کام کرتا ہے جو لاہور سے لے کر
ملک کے شمال میں شاہراہِ ریشم تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ٹرسٹ نے گلگت بلتستان کی اونچی وادیوں میں بڑے قلعوں، روایتی بستیوں، مساجد
اور عوامی مقامات کی تاریخی حیثیت کو بحال کیا ہے۔ خاص طور پر وادئ ہنزہ
میں بلتیت قلعہ اورالتیت قلعہ جبکہ بلتستان میں شگر قلعہ اور خپلو محل
اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور کا عالمی ثقافتی ورثہ اور 380 سے
زائد برس پرانی وزیر خان مسجد بھی ایسے تاریخی مقامات میں شامل ہیںجن پر
آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے تعمیری کام سرانجام دیا۔
ثقافتی روایات کو فروغ دینے کے چلن کو زندہ کرتے ہوئے 2014 میں آغا خان
میوزیم کی تعمیر کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں کی گئی جس میں اسلامی آرٹ اور
ثقافتی فن پاروں کی نمائش کی جاتی ہے۔
تکثیریت یہ ہے کہ دنیا کے متنوع اور مختلف الثقافت افراد ایک دوسرے کی
روایات اور توارثی خصوصیات کو نہ صرف سمجھیں بلکہ ان کا احترام بھی کریں۔
اے کے ڈی این نے دنیا بھر میں متعدد ثقافتی مراکز کی تعمیر کی جن کے تحت
بین الثقافتی مکالمے اور الگ الگ ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک
دوسرے کے نظریات اور روایات کو جاننے اور سمجھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔اس
قسم کے اقدامات مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے
دائیں بازو کے متوالوں کے شکوک و شبہات دور کرنے کیلئے ایک اچھا راستہ ثابت
ہوسکتے ہیں۔ او آئی سی ممالک نے بھی اس پہلو پر غور کیا ہے تاہم ابھی تک اس
پر عملدرآمد مفقود ہے۔فی الحقیقت آغا خان میوزیم اسلامی فن، آرٹ اورمسلم
ثقافت کو فروغ دے رہا ہے جو ٹورنٹو میں مختلف اقسام کے نوادرات پر مشتمل
عجائب گھر ہے جسے اسلامی فنون اور دستکاری کے فن پاروں کیلئے وقف کیا گیا
جبکہ اس میں کم و بیش 1,200نادرونایاب نوادرات موجود ہیں جنہیں پاکستانی
کاروباری شخصیت صدر الدین ہاشوانی کے 10 ملین ڈالرز سمیت دیگر شخصیات کے
تعاون اور پرنس رحیم آغا خان کی بصیرت کے تحت ترتیب دیا گیا۔آغاخان
میوزیم آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کا قابلِ ذکر اقدام اور آغا خان ڈویلپمنٹ
نیٹ ورک کا اہم ادارہ ہے جس میں مختلف ممالک کی مسلم ثقافتوں کو سمجھنے اور
فنون کے ذریعے دیگر ثقافتوں کے ساتھ ان کے تعلق کو ترویج دینے کیلئے افہام
و تفہیم اور تعلیم و تربیت کو فروغ دیا جاتاہے۔ میوزیم کی نمائشیں ، تعلیمی
پروگرامز اور پرفارمنگ آرٹ رنگا رنگ تقریبات سے مزین ہوا کرتے ہیں۔
اسلامی آرٹ اور فن پاروں کیلئے کئی برسوں سے ایک بڑے میوزیم کی تعمیر کا
منصوبہ بنایا جارہا تھا جسے اسماعیلی برادری کے مشن سے ہم آہنگ کرنا تھا
تاکہ باہمی ثقافتی رشتوں کو ایک دوسرے سےمنسلک کرکے اسلامی تہذیبوں کے
حوالے سے نئے تناظر میں پیش کیا جاسکےجہاں بردباری اور صبروتحمل ایک
نادرونایاب احساس ہے۔ کینیڈا میں میوزیم کے سلسلے میں ٹورنٹو کے مقام کی
تصدیق 2002 میں ہوئی۔ اس کے بعد پرنس کریم آغا خان چہارم نے تکثیریت کو
خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے کینیڈا میں میوزیم کا حتمی مقام منتخب کر لیا
اور یوں آغا خان میوزیم 18 ستمبر 2014 کو عوام کیلئے پہلی بار کھولا گیا۔
مائیکل برانڈ نے میوزیم کے پہلے ڈائریکٹر اور سی ای او کے طور پر خدمات
انجام دیں، ان کے بعد ہنری کم نے 2012سے 2020 تک یہ عہدہ سنبھالا۔ پرنس
امین آغا خان کو 18 مئی 2016 سے بورڈ کا نیا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس سے
قبل یہ کردار پرنس کریم آغا خان کے پاس ہی رہا جو طویل مدت سے میوزیم سے
اپنا قریبی تعلق برقرار رکھے ہوئے تھے۔
ہر ملک میں کچھ افراد اپنی زندگیاں اپنے جیسے دیگر انسانوں کی خدمت پر وقف
کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کیلئے حوصلہ افزا تحریک کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے
عالمی ہیروز قدم قدم پر اپنے پیچھے امید، ترقی اور مثبت رویوں کی میراث
چھوڑ جاتے ہیں جبکہ معاشرے کیلئے ان کی خدمات کو ہر سطح پر سراہا جاتا ہے۔
ایسی ہی ایک قابل احترام شخصیت پرنس رحیم آغا خان کی ہے جس نے تعلیم، صحت
اور سماجی خدمت کے شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دیتے ہوئے مختلف پس منظر
کے لوگوں کے درمیان تکثیریت اور ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے۔ آغا خان پنجم
ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ رکھنے والے بصیرت افروز رہنما ثابت ہوئے۔
آغاخان نے اپنے سفر کا آغاز ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں کئی
اسکول قائم کرکے کیا جہاں تعلیم تک رسائی محدود تھی۔ اس کا مقصد ہر بچے کو
معیاری تعلیم فراہم کرنا تھا چاہے اس کی سماجی و اقتصادی حیثیت یا پس منظر
کچھ بھی ہو۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا، یہ اسکول اب تعلیمی اداروں کے ایک بڑے
نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکے ہیں جو ہر سال ہزاروں طلبا کو تعلیم فراہم کرتے
ہیں۔
تعلیم کے علاوہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک شعبۂ صحت کے نظام کو بہتر بنانے
کیلئے بھی ملک بھر میں سرگرم عمل رہا ہے۔ اس ادارے نے معاشرے کومناسب قیمت
پر دستیاب صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے جدید طبی آلات سے آراستہ
ہسپتالوں اور کلینکس کا سلسلہ قائم کیا۔ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں ان
کے اعلیٰ ظرف کردار نے بے شمار جانیں بچائیں اور صحت کے شعبے میں ملک کی
مجموعی صورتحال پر بھی خاصے مثبت اثرات مرتب کیے۔ہز ہائینس پرنس رحیم آغا
خان نے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے علاوہ مختلف فلاحی اور سماجی بہبود
کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسماعیلی امامت کے پلیٹ فارم نے
ضرورت مندوں کو خوراک، پناہ گاہ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی پر کروڑوں کے
اخراجات کیے اور کئی اہم معاملات مثلاً آفات سے نجات، پناہ گزینوں کی
امداد اور غربت کے خاتمے میں بھی مدد کی ہے۔ ہز ہائینس پرنس رحیم آغا خان
کی کاوشوں نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا
اور دوسروں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دی ہے۔
جو چیز ہز ہائینس پرنس رحیم آغا خان کو دیگر نامور شخصیات سے ممتازکرتی ہے
وہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان تکثیریت اور ہم
آہنگی کو فروغ دینے کیلئے ان کا بلند حوصلہ اور پختہ عزم ہے۔
آغا خان پنجم یہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ تنوع ایک پرامن اور خوشحال معاشرے
کی کلیدی اساس ہے اور انہوں نے مختلف برادریوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے
کیلئے انتھک محنت کی ۔ ان کی کوششوں سے مختلف ثقافتوں اور روایات کی تفہیم،
احترام اور قبولیت کو فروغ دینے میں مدد ملی جس سے ہر وہ ملک زیادہ جامع
اور رواداری کی قابلِ تقلید مثال بن گیا جہاں جہاں انہوں نے عوام کی خدمت
پر مبنی کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیںجبکہ ایسی سرگرمیوں کے دائرہ کار
کو وسیع کرنا اسلاموفوبیا جیسے مسائل سے نمٹنے میں نمایاں کردار ادا کرسکتا
ہے۔
|