حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ام المومنین جویریہ بنت حارث(عربی: جويرية بنت الحارث) کا اصل نام برہ تھا۔ جویریہ تصغیر ہے جاریۃ کی جاریہ کے معنی ہیں لڑکی، جویریہ چھوٹی لڑکی، آپ جویریہ بنت الحارث ہیں، آپ کا نام برہ تھا نکاح کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر جویریہ رکھا ۔
غزوہ مریسیع جسے غزوہ نبی مصطلق بھی کہتے ہیں جو 5 ہجری میں ہوا اس میں قید ہوکر آئیں،
حضرت ثابت ابن قیس رضی اللّٰہ کے حصہ میں آئیں انہوں نے آپ کو مکاتبہ کردیا حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا مال کتابت ادا کردیا اور آپ سے نکاح کرلیا،آپ رضی اللّٰہ کی وفات ربیع الاول 56 ہجری میں ہوئی، 65 سال عمر پائی۔
آپ رضی اللہ عنہا قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔
جنگ مریسیع میں بنو مصطلق کو شکست ہوئی تو مسلمانوں کو مال غنیمت میں دو ہزار اونٹ، پانچ ہزار بکریاں اور چھ سو قیدی ملے، جن میں حضرت جویریہ بھی تھیں اور مال غنیمت کی تقسیم میں آپ ایک انصاری ثابت بن قیس رضی اللّٰہ کے حصے میں آئیں جنھوں نے اس شرط پر آپ کو آزاد (مکاتبہ)کرنے کا وعدہ کیا کہ آپ کچھ رقم ادا کریں۔
آپ کی پہلی شادی اپنے قبیلے کے ایک نوجوان مسافح بن صفوان سے ہوئی تھی جو مسلمانوں اور بنی مصطلق کے درمیان جنگ میں مارے گئے اور حضرت جویریہ کنیز بنا لی گئیں۔اسیری میں ہی حضرت جویریہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے امداد کی درخواست کی۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رقم ادا کر دی اور آپ سے نکاح کے لیے کہا۔ آپ رضی اللّٰہ نے منظور کر لیا اور 5ھ ( 626ء ) میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عقد میں آگئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا نام برہ سے تبدیل کر کے جویریہ رضی اللّٰہ رکھا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ رضی اللّٰہ سے نکاح کر لیا تو دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کے تسلط میں بنی مصطلق کے دیگر اسیران تھے انہوں نے محض اس وجہ سے ان کو آزاد کر دیا کہ اب یہ قبیلے والے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سسرالی ہیں اور ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ان کو غلام اور لونڈی بنا کر رکھیں۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا انتقال 50ھ ( 670ء ) ہوا۔حسن صورت اور حسن سیرت دونوں میں یکتا تھیں۔ متعدد احادیث آپ رضی اللّٰہ سے مروی ہیں۔ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

حوالہ جات
↑ مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد-3 صفحہ-525نعیمی کتب خانہ گجرات
↑ مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد-6، صفحہ-594

تاریخی وضاحت

امّ المؤمنین حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا

برّہ نام، قبیلہ خزاعہ کے خاندان مُصطَلِق سے تھیں۔ نسب نامہ یہ ہے:

برّہ بنت حارث بن ابی ضرار بن حبیب بن عائد بن مالک بن جذیمہ( مصطلق)۔

پہلا نکاح اپنے ابن عجم عمّ مسافع بن صفوان (ذی شغر) سے ہوا۔ حضرت جویریہ کے والد حارث بنو مصطلق کے سرادر تھے۔ انہوں نے قریش کے اشارے پر اپنے قبیلے کو مدینہ پر حملے کیلئے تیار کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنہ ۵ ہجری ۲ شعبان کو مجاہدین کی ایک جمعیت کے ہمراہ مدینے سے بنو مصطلق کی طرف روانہ ہوئے۔
حارث کو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاع ملی تو وہ بھاگ گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مریسیع میں قیام کیا۔ یہاں کے لوگوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ان کے گیارہ آدمی مارے گئے اور چھ سو کے قریب گرفتار ہوئے۔ ان اسیروں میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ جب مال غنیمت کی تقسیم ہوئی تو وہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللّٰہ کے حصے میں آئیں۔ چونکہ قبیلے کے رئیس کی بیٹی تھیں، لونڈی بن کر رہنا گوارا نہ ہوا۔ حضرت ثابت رضی اللّٰہ سے گزارش کی مجھ سے کچھ روپیہ لے کر چھوڑدو، وہ راضی ہو گئے اور ۱۹ اوقیہ سونے کا مطالبہ کیا۔
اب حضرت جویریہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: ’’ مصیبت زدہ ہوں، آزاد ہونا چاہتی ہوں ، ازراہ کرم میری مدد فرمائیے۔‘‘ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ میں تمہارا زر مکاتبت ادا کردوں اور تم سے نکاح کرلوں۔
‘‘ حضرت جویریہ فوراً راضی ہو گئیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا زر مکاتبت ادا کرکے ان سے نکاح کر لیا اور ان کا پہلا نام برّہ بدل کر جویریہ نام رکھا۔
ان کے حرم نبوی میں داخل ہوتے ہی صحابہ کرام نے قرابت نبوی کا پاس کرتے ہوئے تمام اسیران جنگ رہا کر دیئے۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ اس موقع پر بنو مصطلق کے سو خاندان آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے۔ اس واقعہ سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

’’ میں نے جویریہ سے بڑھ کر کسی عورت کو اپنے قبیلے کیلئے باعث رحمت نہیں پایا۔‘‘

ابن اثیر کا بیان ہے کہ حضرت جویریہ رضی اللّٰہ کے والد کو خبر ملی کہ بیٹی لونڈی بنا لی گئی تو وہ بہت سا مال واسباب اونٹوں پر لاد کر بیٹی کی رہائی کیلئے عازم مدینہ ہوئے۔ راستے میں دو اونٹ جو ان کو بہت پسند تھے، عقیق کے مقام پر کسی گھاٹی میں چھپا دیئے اور باقی اسباب اور اونٹ لے کر مدینہ پہنچے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
’’ آپ میری بیٹی کو قید کر لائے ہیں، یہ تمام مال و اسباب لے لیں اور اسے رہا کردیں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب سے اطلاع ملی کہ یہ شخص دو اونٹ چھپا آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ دو اونٹ جو تم چھپا آئے ہو وہ کہاں ہیں؟‘‘
حارث یہ سن کر حیران رہ گئے۔ اسی وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم چومے اور بطیّب خاطر اسلام قبول کر لیا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ جویریہ لونڈی نہیں بنائی گئی ہیں بلکہ حرم نبوی میں داخل کرلی گئی ہیں تو بیحد مسرور ہوئے اور شاداں و فرحاں بیٹی سے مل کر گھر واپس گئے۔
ایک اور روایت کے مطابق حارث نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ میں رئیس عرب ہوں، میری بیٹی لونڈی نہیں بن سکتی، آپ اسکو آزاد کردیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بہتر یہ ہے کہ معاملہ تمہاری بیٹی پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘ حارث نے بیٹی سے کہا کہ محمّد نے تیری مرضی پر رکھا ہے، دیکھنا مجھے ذلیل نہ کرنا۔ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ کی غلامی کو پسند کرتی ہوں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ حارث نے بیٹی کا زرفدیہ ادا کیا اور جب وہ آزاد ہوگئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔
حضرت جویریہ رضی اللّٰہ کو عبادت سے نہایت شغف تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے تو انہیں اکثر عبادت میں مشغول پاتے۔ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صبح کے وقت مسجد میں عبادت کرتے دیکھا۔ دوپہر کو پھر ادھر سے گزرے تو حضرت جویریہ کو اسی حالت میں پایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ’’ کیا تم ہمیشہ اسی طرح عبادت کرتی ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’ بیشک یا رسول اللہ۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ کلمات پڑھا کرو ان کو تمہاری نفلی عبادت پر ترجیح حاصل ہے۔

سُبْحَانَ اللہِ، سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ سُبْحَانَ اللہِ رِضٰی نَفْسِہِ سُبْحَانَ اللہِ رِضٰی نَفْسِہِ سُبْحَانَ اللہِ زِنَتَہ عَرْشِہِ سُبْحَانَ اللہِ زِنَتَہ عَرْشِہِ سُبْحَانَ اللہِ مِدَادَ کَلِمَاتِہِ سُبْحَانَ اللہِ مِدَادَ کَلِمَاتِہ

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائے اور پوچھا: ’’ کچھ کھانے کو ہے؟‘‘
عرض کیا: ’’ میری کنیز نے صدقہ کا گوشت دیا تھا، بس وہی موجود ہے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لے آؤ جس کو صدقہ دیا گیا تھا اس کو پہنچ چکا۔‘‘
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو عزت نفس کی بھی بہت خیال تھا۔ چنانچہ اسیر ہونے پر اپنی آزادی کیلئے انہوں نے حتٰی الامکان پوری کوشش کی۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے 65 سال کی عمر میں سنہ 50 ہجری میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے چند احادیث منقول ہیں جن کے راویوں میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ شامل ہیں۔
حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا خوبصورت اور موزوں اندام تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں۔
کانت امرٔة حلوة ملاحة لا یراھااحدالااخذت بنفسہ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کیں، ان سے حسب ذیل بزرگوں نے حدیث سنی ہے،
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ،
جابر رضی اللہ تعالی عنہ،
ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ،
عبید بن السباق، طفیل، ابو ایوب مراغی، کلثوم، ابن مصطلق،
عبداللہ بن شدادبن الہاد، کریب۔
حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں، ایکدن صبح کو مسجد میں دعا کر رہیں تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گزرے اور دیکھتے ہوئے چلے گئے، دوپہر کے قریب آئے تب بھی انکو اسی حالت میں پایا۔
جمعہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکے گھر تشریف لائے تو روزہ سے تھیں، حضرت جویریہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ کل روزہ سے تھیں؟بولیں، "نہیں"فرمایا"تو کل رکھو گی؟" جواب ملا"نہیں" ارشاد ہوا"تو پھر تم کو افطار کر لینا چاہیے۔"
دوسری روائتوں میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے ان تین دنوں میں ایک دن جمعہ کا ضرور ہوتا تھا۔ اس لیے تنہا جمعہ کے دن ایک روزہ رکھنے میں علماء کا اختلاف ہے،
آئمہ حنفیہ کے نزدیک جائز ہے،
امام مالک سے بھی جواز کی روایت ہے۔ بعض شافعیہ نے اس سے روکا ہے، تفصیل کے لیے ملاحضہ ہو فتح الباری جلد 4صفحہ 204۔
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ کے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ جمعہ کے روزہ کے ساتھ ایک روزہ اور ملا لیا جایا کرے(بذل المجہور جلد صفحہ 169)
یاد رکھیں یہ بحث صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے متعلق ہے اور دنوں سے اسکا تعلق نہیں ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے محبت تھی۔ اور انکے گھر آتے جاتے تھے ایک مرتبہ آکر پوچھا کہ "کچھ کھانے کو ہے؟"جواب ملا۔"میری کنیز نے صدقہ کا گوشت دیا تھا وہی رکھا ہے اور اسکے سوا اور کچھ نہیں" فرمایا"اسے اٹھا لاؤ، کیونکہ صدقہ جسکو دیا گیا تھا اسکو پہنچ چکا"
حوالہ جات

↑ (طبقات ج2 ق1ص45)
↑ (ابوداؤد کتاب العتاق ج2ص105طبقاتج2ق1ص46صحیح مسلم ص61)
↑ (اسد الغابہ ج5ص420)
↑ (صحیح مسلم ج2ص231)
↑ (اسد الغابہ ج5ص420)
↑ (صحیح ترمذی ص590)
↑ (صحیح بخاری ج1ص267)
↑ (صحیح مسلم ج1ص400)


 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 892 Articles with 624907 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More