حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ انسانیت کے لیے کامل نمونہ ہے۔ آپ کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو رحمت، محبت، معافی، اور ہمدردی سے لبریز ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
"وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ"
(سورۃ القلم: 4)
ترجمہ: ’’اور بے شک آپ عظیم اخلاق پر فائز ہیں۔‘‘

معافی کا جذبہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بے شمار مواقع پر دشمنوں کو معاف فرما کر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ فرمایا۔ مکہ کی فتح کے موقع پر، جب آپ کو اپنے ان دشمنوں پر مکمل اختیار حاصل تھا جنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا، تو آپ نے سب کو معاف فرما دیا۔ آپ نے فرمایا:
"لا تثریب علیکم الیوم، اذهبوا فأنتم الطلقاء"
ترجمہ: ’’آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘

ہمدردی اور مدد

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک اور نمایاں پہلو لوگوں کی مدد کرنا اور ان کی مشکلات میں کام آنا تھا۔ آپ کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاتے۔ ایک مرتبہ ایک خاتون نے آ کر آپ سے مدد طلب کی، تو آپ اس کے ساتھ چل پڑے تاکہ اس کی حاجت پوری کریں، چاہے وہ کسی بھی ذات یا قبیلے سے تعلق رکھتی ہو۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی گواہی

جب پہلی وحی نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو گھبراہٹ اور خوف کی کیفیت میں تھے۔ اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

"خدا کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں۔"
(صحیح بخاری)

یہ الفاظ آپ کے کردار کا آئینہ ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہ گواہی بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور کمزوروں کی مدد کرتے تھے۔

بچوں اور کمزوروں سے شفقت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ وہ خود بچوں کے ساتھ کھیلتے، ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے، اور ان کی خوشی میں شامل ہوتے۔ کمزور اور نادار افراد کے ساتھ آپ کا رویہ انتہائی نرم تھا۔ آپ ہمیشہ ان کی عزت کرتے اور ان کی دلجوئی فرماتے۔

نتیجہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ معافی میں عظمت ہے، اور انسانیت کی خدمت ہی اصل دین داری ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی گواہی سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار لوگوں کی خدمت، سچائی، اور اخلاقی بلندی کا نمونہ تھا۔

اگر آج کے مسلمان قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی پر عمل پیرا ہو جائیں، تو دنیا میں کامیابی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ چاہے وہ معاشرتی زندگی ہو، کاروبار، تعلیم، یا کوئی اور شعبہ، سیرتِ نبوی اور قرآن کی رہنمائی ہر قدم پر روشنی فراہم کرتی ہے۔ اور یہی نہیں، بلکہ آخرت میں بھی وہ سرخرو ہوں گے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:

"فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ"
(سورۃ طہٰ: 123)
ترجمہ: ’’جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبختی میں پڑے گا۔‘‘

لیکن دوسری طرف، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے سخت تنبیہ کی ہے جو قرآن و سنت کی رہنمائی کو چھوڑ دیتے ہیں:

"وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ"
(سورۃ طہٰ: 124)
ترجمہ: ’’اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا، اس کی زندگی تنگی میں گزرے گی اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔‘‘

یہ آیت ہمیں خبردار کرتی ہے کہ اگر ہم قرآن و سنت کو نظر انداز کریں گے، تو دنیا میں بھی بے سکونی، پریشانی اور محرومی ہمارا مقدر بنے گی، اور آخرت میں بھی سخت انجام کا سامنا ہو گا۔

اللہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو اپنانے، قرآن و سنت پر عمل کرنے اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔



 

Farzana Iftikhar
About the Author: Farzana Iftikhar Read More Articles by Farzana Iftikhar: 2 Articles with 203 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.