عذاب سولر کی دستک

دنیا میں صرف ڈھائی سے تین فیصد پانی پینے کے قابل ہے لیکن جس بری طرح سے اس کا ضیاع کیا جا رہا ہے چند سالوں بعد ہم کہاں کھڑے ہوں گے کسی کو اس کا اندیشہ ہے نہ فکر ۔۔۔

لاجواب قوم لاجواب ملک اور اس سے بھی زیادہ لاجواب حاکم اور حکمران۔چھوٹے سے لیکر بڑااور نیچے سے لیکر اوپر تک محض ڈنگ ٹپاو پروگرام جاری۔نہ کوئ وژن نہ مستقبل کے بارے میص کوئ سوچ انگریز یا دل کی مزید تسلی کے لیے کافر پندرہ بیس روپے کی دوائ کی شیشی بیچنے مارکیٹ میں لاتا ہے تو جہاں فائدے لکھتا ہے وہیں یہ بھی لکھتا ہے کہ یہ کس کے لیے کس صورت میں ممنوع ہے ورنہ نقصان کا خدشہ ہے یہاں مگر معاملہ الٹ ہے فقط بلے بلے سے غرض وہ بھی چنددن۔۔روٹی کپڑا مکان قرض اتارو ملک سنوارو 50 لاکھ گھرایک کروڑ نوکری اور ایک ارب درختوں سے لے کے گرین ٹریکٹر سے سولر ٹیوب ویل تک فقط واہ واہ اور بلے بلے مقصود ۔ یہ سلسلہ نہ جانے کب سے چل رہا ہے اور چلتا رہے گا اپ نیا انے والا اپنی مرضی کا ڈنگ ٹپاؤ پروگرام ساتھ لے کے اتا ہے احسانات تو سب حکمرانوں کے اس ملک پر بے شمار ہیں مگر یہ والے امید ہے سب سے اگے نکل جائیں گے کیونکہ روٹی کپڑا اور مکان ایک ارب درخت 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکری سے کسی کو فائدہ ہوا نہ ہوا لیکن حکمرانوں کا ڈنگ ٹپ گیا اور ان کا پروگرام ان کے ساتھ ہی ٹھپ ہو گیا مگر جو پروگرام اب چلنے جا رہا اور بہت حد تک چل چکا اگر اس کی فوری منصوبہ بندی نہ کی گئی تو وہ ہماری انے والی نسلوں کا بیڑا غرق کر دے گا میری مراد جگہ جگہ موجود سولر ٹیوب ویل اور واٹرپمپ ہیں ہمارے ملک اور قوم کی تربیت کا یہ حال ہے کہ مفت میں ہم ریت اور مٹی بھی نہیں چھوڑتے یہ تو پھر مفت کا پانی ہے جو صبح سے شام تک لگاتار اور مفت دستیاب ہے مناسب تربیت اور منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے جن لوگوں کو دھڑا دھڑ سولر ٹیوب ویل فراہم کیے گئے انہوں نے بھی اسے مال غنیمت سمجھا اوران کے ذریعے روزانہ لاکھوں لیٹر پانی زمین کی رگوں سے چوسا جا رہا ہے جس سے نہ صرف شہروں بلکہ اب تو دیہاتوں میں بھی پانی کی زیر زمین سطح بہت کم اور گہری ہوتی جا رہی ہے دوسری طرف زمین کا صرف 2.7 فیصد پانی پینے کے قابل ہے اس سے قبل ہم قدرتی گیس کو سی این جی کے نام پر گاڑیوں میں بھر بھر کے اس کا ستیاناس کر چکے ہیں اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں پچھلے آٹھ دس سالوں سے نئے گیس کنکشن پہ پابندی ہے کبھی ایل این جی کے لیے قطر کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی کسی اور ملک کی طرف لیکن جب ملک میں دھڑا دھڑ سی این جی لگ رہے تھے گیس لگژری گاڑیوں میں بھی کوڑیوں کے مول بھری جا رہی تھی اس وقت ہمیں بالکل بھی ہوش نہیں تھا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا بالکل اسی طرح اب یہ سولر ٹیوب ویل اور واٹر پمپ چند سال بعد زیر زمین پانی کا کیا حشر کر دیں گے اس سے بھی ہمیں کوئی سروکار نہیں خدارا اس کے بارے میں سوچیے اور اس تحریر کے ذریعے حکمرانوں کی بجائے عام افراد سے بھی گزارش ہے کہ جن لوگوں نے سولر کے ذریعے سے واٹر پمپ اور ٹیوب ویل نصب کر رکھے ہیں وہ اپنا نہیں تو انے والی نسلوں کا ہی خیال کر لیں کہ جب جگہ جگہ زمین میں سوراخ ہوں گے اور ہر سوراخ سے پانی بے دریغ صبح سے لے کے شام تک کھینچا جا رہا ہوگا تو مستقبل میں صورتحال کیا ہو جائے گی اس سے کوئی بھی ذی شعور ناواقف نہیں ہو سکتا جب تک یہ سلسلہ ڈیزل اور بجلی پر منحصر تھا تو صرف مخصوص اوقات میں ہی ٹیوب ویل اور واٹر پمپ چلائے جاتے تھے کیونکہ خرچے کا ڈر ہوتا تھا کہ امدن اور اخراجات کا توازن بگڑ جائے گا لیکن سولر لگنے کے بعد اس طرف سے بے فکری ہو گئی اور صبح سورج نکلتے ہی یہ پمپ چل پڑتے ہیں اور سارا دن چلنے کے بعد شام کو سورج غروب ہوتا ہے تب یہ بند ہوتے ہیں ہماری محترمہ مریم نواز اور ڈپٹی کمشنرز سے گزارش ہے ک پنجاب کا جو بارانی علاقہ ہے جہاں کوئی نہری نظام نہیں اگر ڈیمز ہیں بھی تو چھوٹے چھوٹے اور دور دراز علاقوں میں لیکن سولر ٹیوب ویل اور واٹر پمپ ہر جگہ ہر علاقے میں نصب ہیں اور لگاتار چل رہے ہیں جس سے شہری اور دیہی علاقوں میں پینے کا پانی اہستہ اہستہ مفقود اور کم ہوتا جا رہا ہے برائے مہربانی اس طرف توجہ دیں اور کوئی ایسا نظام وضع کریں کہ یا تو سولر پمپ اور ٹیوب ویل بالکل ہی ممنوع قرار دے دیے جائیں اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ان کے چلانے کے کوئی اوقات کار ہی مختص کر دیے جائیں تاکہ انے والی انتہائی خوفناک صورتحال جو نظر ارہی ہے اس سے بچا جا سکے اس صورتحا ل کا نوٹس لے لیا گیا تو تحریر کسی کھاتے لگ جاے گی ورنہ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے کا کام تو ہم کر ہی رہے ہیں کرتے رہیں گے شاید کوئ خرید لے۔۔۔۔*

 

Shafiq Malik
About the Author: Shafiq Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.