جب حضرت خدیجہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات
بیان کیں
جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی، وہ غارِ حرا میں
موجود تھے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے فرمایا:
"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ..."
(پڑھئیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا...)
یہ قرآن کی پہلی آیت تھی۔ اس عظیم لمحے کے بعد، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر
ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوف اور اضطراب کی حالت
میں گھر واپس تشریف لائے۔
پہلی وحی کے بعد کا منظر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
"زَمِّلُونِي، زَمِّلُونِي!"
(مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو!)
آپ خوفزدہ تھے کہ نہ جانے مجھے کیا ہو گیا ہے۔
حضرت خدیجہؓ کا تسلی بخش انداز
حضرت خدیجہؓ نے آپ کو کمبل اوڑھایا، تسلی دی، اور نہایت محبت، ادب اور یقین
کے ساتھ آپ کو ان الفاظ میں تسلی دی:
> "خدا کی قسم! اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں،
سچ بولتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، غریبوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان
نوازی کرتے ہیں، اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔"
یہ الفاظ کیا ظاہر کرتے ہیں؟
حضرت خدیجہؓ کے یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، اخلاق اور
کردار کی وہ گواہی ہیں جو ایک قریبی شریکِ حیات نے دی۔ انہوں نے بتایا کہ:
آپ رحم دل ہیں
آپ سچے ہیں
آپ معاشرتی خدمت گزار ہیں
آپ غریبوں، یتیموں اور محتاجوں کا سہارا ہیں
آپ ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں
آپ مہمان نواز ہیں
یہ سب خوبیاں اس وقت بھی آپ میں موجود تھیں جب آپ پر ابھی نبوت کا اعلان
نہیں ہوا تھا۔
حضرت خدیجہؓ کا ایمان اور فہم
حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف آپ کو تسلی دی، بلکہ فوراً آپ کو ورقہ بن نوفل کے
پاس لے گئیں، جو اہل کتاب تھے اور پچھلی آسمانی کتابوں کے عالم تھے۔ انہوں
نے بھی اس واقعے کی تصدیق کی کہ یہ اللہ کی طرف سے وحی ہے۔
یہ واقعہ حضرت خدیجہؓ کے ایمان، عقل، بصیرت، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے مشن پر یقین کی روشن مثال ہے۔
سبق اور آج کے مسلمانوں کے لیے پیغام
اگر آج کے مسلمان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صفات اور تعلیمات
کو اپنائیں:
سچائی
رحم دلی
عدل
صبر
خدمت خلق
صلہ رحمی
عاجزی
تو نہ صرف دنیا میں ایک پرامن، بااخلاق، اور خوشحال معاشرہ قائم ہو سکتا ہے
بلکہ قیامت کے دن بھی کامیابی یقینی ہے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے:
> "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"
(تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔)
نتیجہ:
پہلی وحی کے موقع پر حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
سہارا دیا، بلکہ آپ کی عظمت، صداقت اور پاکیزہ کردار کی گواہی دی۔ اور آج
بھی اگر ہم انہی خوبیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، تو دنیا بھی سنور
جائے گی اور آخرت بھی۔
|