اسٹیل مل -- ہماری ماں ہی تو تھی
(Munir Bin Bashir, Karachi)
فیس بک پر لکھے ایک فقرے نے دل دہلا کے رکھ دیا - لکھنے والے صاحب اسٹیل مل کے کوئی سابق ملازم تھے -- انہوں نے لکھا تھا “ آج میں اپنی ماں (اسٹیل مل ) سے ملنے گیا تھا - اس کی حالت بہت خراب ہے ٗ اسٹیل مل ہماری ماں ہی تو تھی - وہ ہمارے رزق کا درمان بھی کرتی تھی اور اور ہماری زندگی میں مسرتوں کا سامان بھی - وہ تھی تو زندگی رعنائِوں سے بھر پور تھی - ہمارے چہروں پر رونقیں بھی تھیں - قسطوں پر گھر کا سامان بھی ملتا تھا -- فرنیچر بھی اقساط میں بنا کر دیتی تھی - اوراس روز تو ہماری مسرت دیدنی تھی جب پتہ چلا کہ قسطوں پر مکان بنا کر دے گی - پھر نہ جانے کیا ہوا -- جانے کس کی نظر کھا گئی -وہ ساری راحتِیں ۔ روشنیاں ماند پڑنے لگیں - وہ شادمانیاں ہوا میں اڑ گئیں --- وہ رونقیں اندھیروں کی نذر ہوگئِں - کون اس کا ذمے دار ہے - کوئی پورا سچ نہیں بتاتا - ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہے - آج کا کالم اس دور کی یاد دلاتا ہے جب اسٹیل مل میں میں ہر سو کامیابی کے شادیانے بج رہے تھے ، بہار کا سا سماں تھا اورایسے میں اسٹیل مل نے اپنے ملازمین کو قسطوں پر مکان بنا کر دینے کا فیصلہ کیا تھا - اس زمانے میں میرے قلم سے جنم لینے والا کالم جو اسٹیل مل کے رسالے میں “رشتہ “ کے نام سے شائع ہوا تھا - |
|
|
اسٹیل مل گلشن حدید میں ایک مکان تعمیر کے دوران |
|
رشتہ اور پھر اپنے یاروں کے یار ----- شادی کے لئے خوار --- مسمی خانہ بدوش کی شادی کے لئے رشتہ آہی گیا جس تس نے سنا دنگ رہ گیا --اور انگلی منہ میں داب لی - بات بھی تھی حیرت کی ------شادی کے لئے خانہ بدوش کتنے خوار تھے ہم ہی جانتے تھے -- ابھی کچھ ماہ قبل ہی توملاقات ہوئی تھی --وہی اترا ہوا چہرہ -- وہی مایوسی کی پرچھائیاں “ بس منیر صاحب ! اب تو نجومی نے بھی کہہ دیا ہے تمہارے ہاتھ میں شادی کی لکیر ہی نہیں ہے --- اور ہم نے حسب معمول وہی پرانا دلاسہ دیا کہ ارے بھائی گھبراؤ نہیں -- دنیا میں کوئی بے جوڑ نہیں پیدا ہوا -- وغیرہ وغیرہ لیکن دل میں سوچ رہے تھے کہ بے چارے نہ جانے کب تک کنوارے پھرتے رہیں گے - پیسہ بھی پاس نہیں اور شکل بھی واجبی سے ذرا کم ہی ہے --
لیکن آج چھ ماہ بعد ملے تو بہت ہی شاداں و فرحاں ----- خوشی سے باچھیں کھلی جارہی تھیں -- ہاتھ میں شادی کا کارڈ لئے ہر ایک کو بتاتے پھر رہے تھے “ اے بھائیو سنو ! ہماری شادی کے لئے رشتہ آگیا ہے - ارے ہاں ہاں ہم شادی کر رہے ہیں
یاروں دوستوں نے انہیں گھیر رکھا تھا اور وہ لہک لہک کر شادی کی تیاریوں کے بارے میں بتا رہے تھے ---- ہمیں دیکھا تو دور ہی سے صدا لگا ئی “منیر بھائی --- اومنیر بھائی --کہاں ہیں آپ ؟ میں آپ ہی کو تو ڈھونڈ رہا تھا --یہ رشتہ آپ ہی نے تو کرایا ہے -آپ کو تو میں دو کارڈ دوں گا ہم حیران ہوئے “کون سا رشتہ ؟ کیسا رشتہ ؟ “ وہ بولے “ آپ نہیں سمجھیں گے ---پھر کبھی بتاؤں گا -- اگلے روز وہ پھر تشریف لائے - ہم نے سوال کیا “میاں یہ معجزہ کیسے ہوا ؟“ انہوں نے پہلے تو چائے کی ایک چسکی لی پھر سگریٹ کا ایک کش لگایا اور دھواں چھوڑتے ہوئے بولے- “ یہ آپ کے مشورے کا اعجاز ہے -- اس سے پہلے جب کہیں رشتہ لے کر جاتا تھا تو لڑکی والے سوال کرتے -- اے بھائی کیا تنخواہ لیتے ہو -- کوئی بونس وغیرہ بھی ملتا ہے یا نہیں --- کچھ بالائی آمدنی کے معاملات ہیں یا نری تنخواہ ہی ہے ؟ لیکن تمہارے مشورے پر عمل کرنے کے بعد کایا ہی پلٹ گئی “کون سا مشورہ ؟“ ہم حیران ہوئے ارے صاحب - یہی مکان کا -- اسٹیل مل کی طرف سے نواہی بستی گلشن حدید میں مکان بک کرانے کا ----- بس یار ادہر مکان بک کرایا ادھر رشتوں کی بھر مار ہو گئی -- جدھر جاتا لوگ کہتے ماشاء اللہ کماؤ ہے --پورے ایک سو بیس گز کے گھر کا مالک ہے - سمجھ میں نہیں آتا تھا کونسا رشتہ قبول کروں اور کونسا نہیں -- آخر ایک جگہ ہاں کر دی ہے ساس صاحبہ بھی بہت مسرور ہیں - لوگوں سے کہتے پھرتی ہیں کہ ہونے والے داماد کا اپنا گھر ہے - --- گھر کیا ہے بنگلہ ہے بنگلہ !! سسر صاحب شاداں ہیں -- ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں - میاں میں نے خود دیکھا ہے - سڑک بھی بہت چوڑی ہے - پوری چالیس فٹ جوڑی سڑک پر بنا ہے ہماری گلی کی طر ح نہیں ہے کہ ایک بھینس گزر جائے تو آدمی کے جانے کے لئے راہ نہ بچے “اور ہماری ہونے والی بھابی ؟“ ہم نے سوال کیا مسٹر خانہ بدوش شرما گئے اور پھر آہستہ سے بولے “وہ بھی خوش ہیں “ - ان کی سکھیاں کہتی ہیں کہ “اری بنو وہ زمیں ہی کم از کم بیس ہزار کی ہو گی “ - میں انہیں کیوں بتاؤں کہ پاکستان اسٹیل نے یہ مکان صرف چھ ہزار میں بک کیا ہے “ - بس میاں خان میرامشورہ ہے کس کسی کی شادی نہیں ہو رہی اسے چاہیئے کہ گلشن حدید میں مکان بک کرائے اور بامراد ہو جائے - اسٹیل مل زندہ باد |