حضرت رملہ بنت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ام المومنین رملہ بنت ابو سفیان
(عربی: رملة بنت أبي سفيان) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔ آپ کی کنیت "ام حبیبہ" تھی۔
آپ رضی اللّٰہ امیر معاویہ رضی اللہ کی بہن اور عرب قبیلہ قریش کے سردار ابو سفیان بن حرب اور صفیہ بنت ابو العاص کی بیٹی تھیں۔
آپ رضی اللّٰہ حضرت عثمان رضی اللہ کی خالہ زاد بہن تھیں۔ آپ رضی اللّٰہ کی ایک اور بہن کا نام بھی رملہ ہی تھا۔
ان کی پہلی شادی عبید اللہ بن جحش سے ہوئی تھی۔ وہ زینب بنت جحش رضی اللہ کے بھائی تھے جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نکاح کیا تھا۔ آپ اپنے شوہر عبیداللہ کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ (ایتھوپیا) چلی گئی تھیں۔
آپ کے شوہر اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی ہو گئے اور انہوں نے آپ کو بھی مرتد ہونے کا کہا لیکن آپ نے انکار کر دیا۔ اسی وجہ سے ان میں علیحدگی ہو گئی۔ اس کے بعد اپنے سابقہ شوہر کی وفات تک وہ اپنی بیٹی حبیبہ کے ساتھ حبشہ میں ہی رہیں۔
جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان حالات کا پتہ چلا تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجاشی کو لکھا کہ وہ ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے پیام دے۔
ام حبیبہ نے منظوری دے دی تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے خالد بن سعید بن العاص نے ایجاب و قبول کیا اور نجاشی نے خود 400 اشرفی مہر ادا کر دیا اس طرح 6ھ ( 627ء ) میں آپ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح میں آ گئیں اور مدینہ تشریف لے آئیں۔ یوں آپ رضی اللّٰہ کے دائرے میں داخل ہوگئی اور ام المومنین کا درجہ ملا،حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ کے علاوہ بقیہ تمام ازواج کا حق مہر 400 درہم تھا۔

بعض روایات کے مطابق حضرت رملہ رضی اللہ نے ہجرت کے ایک سال بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کی۔ بعض روایات کے مطابق شادی کے وقت آپ رضی اللّٰہ کی عمر تیس برس کی تھی۔

حضرت رملہ رضی اللہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت کا بہت زیادہ خیال کرتی تھیں۔ ایک دفعہ آپ کے والد ابوسفیان آپ سے ملنے آتے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر پر بیٹھنے لگے تو آپ نے فورا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر اٹھا کر اپنے والد ابوسفیان سے کہا کہ آپ اس چادر پر نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ آپ نجس ہیں۔ اس وقت تک ابو سفیان مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے۔
پہلے شوہر سے آپ رضی اللّٰہ کے ایک لڑکا عبداللہ اور ایک لڑکی حبیبہ تھی۔ اسی بیٹی حبیبہ کی وجہ سے آپ رضی اللّٰہ کی کنیت ام جبیبہ پڑ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
حضرت رملہ رضی اللّٰہ خلافت امویہ میں اپنے بھائی امیر معاویہ رضی اللہ کے دورِ خلافت میں 45ھ ( 665ء ) میں وفات پا گئیں اور آپ رضی اللّٰہ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
آپ رضی اللّٰہ سے صحیحین میں تقریبا 55 احادیث منقول ہیں،

نام و نسب کے اعتبار سے تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ رملہ نام، ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، رملہ بنت ابی سفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس، والدہ کا نام صفیہ بنت ابو العاص تھا، جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی حقیقی پھوپھی تھیں،
حضرت ام حبیبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے 17 سال پہلے پیدا ہوئیں۔
عبید اللہ بن جحش سے کہ حرب امیہ کے حلیف تھے، نکاح ہوا۔اور ان ہی کے ساتھ مسلمان ہوئیں، اور حبش کو ہجرت کی، حبش میں جا کر عبید اللہ نے عیسائی مذہب اختیار کیا، ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی کہا لیکن وہ اسلام پر قائم رہیں، اب وہ وقت آ گیا کہ انکو اسلام اور ہجرت کی فضیلت کے ساتھ ام المومنین بننے کا شرف حاصل ہو۔ عبید اللہ نے عیسائی ہو کر بالکل آزادانہ زندگی بسر کرنا شروع کر دی، مے نوشی کی عادت ہو گئی، آخر انکا انتقال ہو گیا،

عدت کے دن ختم ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمروبن امیہ ضمیری کو نجاشی کی خدمت میں بغرض نکاح بھیجا، جب وہ نجاشی کے پاس پہنچے تو اس نے ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنی لونڈی ابرہہ کے ذریعہ پیغام دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھکو تمھارے نکاح کے لیے لکھا ہے، انہوں نے خالد بن سعید اموی کو وکیل مقرر کیا اور اس مژدہ کے صلہ میں ابرہہ کو چاندی کے دو کنگن اور انگوٹھیاں دیں، جب شام ہوئی تو نجاشی نے جعفر رضی اللہ تعالی عنہ بن ابی طالب اور وہاں کے مسلمانوں کو جمع کرکے خود نکاح پڑھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار سو دینار مہر ادا کیا، نکاح کے بعد حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا جہاز میں بیٹھکر روانہ ہوئیں اور مدینہ کی بندرگاہ میں اتریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خیبر میں تشریف رکھتے تھے۔ یہ سن 6 ہجری کا واقعہ ہے.اس وقت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر 36 یا 37 سال کی تھی،
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کے متعلق کئی رووائتیں ہیں، ہم نے جو روایت لی ہے وہ مسند کی ہے اور مشہور روائتوں کے مطابق ہے، البتہ مہر کی تعداد میں کچھ غلطی معلوم ہوتی ہے، عام روایت یہ ہے اور مسند میں بھی ہے کہ ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں کا مہر چار چار سو درہم تھا، اسی بنا پر چار سو دینا راوی کا سہو ہے، اس موقع پر سید سلیمان ندوی نے صحیح مسلم کی ایک روایت کی تنقید کی ہے،
صحیح مسلم میں ہے کہ لوگ ابو سفیان کو نظر اٹھا کر دیکھنا اور انکے پاس بیٹھنا ناپسند کرتے تھے اس بنا پر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین چیزوں کی درخواست کی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کر لیجیئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی درخواست منظور فرمائی۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سفیان کے مسلمان ہونے کے وقت حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا ازواج مطہرات میں داخل نہیں ہوئی تھیں لیکن یہ راوی کا وہم ہے چنانچہ ابن سعد، ابن حزم، ابن جوزی۔ ابن اثیر، بیہقی اور عبدالعظیم منذری نے اسکے خلاف روائتیں کی ہیں، اور ابن سعد کے سوا سب نے اس روایت کی تردید کی ہے۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے بھائی امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں سن 44 ہجری میں انتقال کیا اور مدینہ میں دفن ہوئیں، اس وقت 73 برس کا سن تھا۔ قبر کے متعلق اس قدر معلوم ہے کہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان میں تھی، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بن حسین سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ میں نے مکان کا ایک گوشہ کھدوایا تو ایک کتبہ برآمد ہوا کہ"یہ رملہ بنت صخر کی قبر ہے"چنانچہ اسکو میں نے اسی جگہ رکھ دیا،
وفات کے قریب حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت عائشہ و حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما کو اپنے پاس بلایا اور کہاکہ سوکنوں میں باہم جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم لوگوں میں بھی کبھی ہو جایا کرتا تھا، اس لیے مجھکو معاف کر دو، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے معاف کر دیا اور انکے لیے دعائے مغفرت کی تو بولیں تم نے مجھکو خوش کیا خدا تمکو خوش کرے،
پہلے شوہر سے دو لڑکے پیدا ہوئے، عبداللہ اور حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہ، حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آغوش نبوت میں تربیت پائی ، اور داؤد بن عروہ بن مسعود کو منسوب ہوئیں، جو قبیلہ ثقیف کے رئیس اعظم تھے۔
آپ رضی اللّٰہ خوبصورت تھیں، صحیح مسلم میں خود ابوسفیان کی زبانی منقول ہے۔
"میرے ہاں عرب کی حسین تر اور جمیل تر عورت موجود ہے۔"
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے حدیث کی کتابوں میں 65 روائتیں منقول ہیں، راویوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، بعض کے نام یہ ہیں، حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا(دختر) معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اور عتبہ رضی اللہ تعالی عنہ پسران ابو سفیان عبداللہ بن عتبہ، ابو سفیان بن سعید ثقفی(خواہرزادہ) سالم بن سوار(مولی) ابو الجراح، صفیہ بنت شیبہ، زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ، ابو صالح السمان، شہر بن حوشب۔
حجرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کے جوش ایمان کا یہ منظر قابل دید ہے کہ فتح مکہ سے قبل جب انکے باپ ابو سفیان کفر کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے پر بیٹھنا چاہتے تھے، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ دیکھ کر بچھونا الٹ دیا، ابوسفیان سخت برہم ہوئے کہ بچھونا اس قدر عزیز ہے۔ بولیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرش ہے۔ اور آپ مشرک ہیں اور اس بناء پر ناپاک ہیں،
ابوسفیان نے کہا کہ تو میرے پیچھے بہت بگڑ گئی،
حدیث پر بہت شدت سے عمل کرتی تھیں۔ اور دوسروں کو بھی تاکید کرتی تھیں۔ انکے بھانجے ابوسفیان بن سعید بن المغیرہ آئے اور انہوں نے ستو کھا کر کلی کی تو بولیں تمکو وضوکرنا چاہیے کیونکہ جس چیز کو آگ پکائے اس کے استعمال سے وضو لازم آتا ہے۔یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔
(یہ حکم منسوخ ہے، یعنی پہلے تھا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو باقی نہیں رکھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام آگ پر پکی ہوئی چیزیں کھاتے تھے اور اگر پہلے سے وضو ہوتا تو دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے۔ بلکہ پہلے ہی وضو سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے اس قسم کی ایک حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حالات میں ملے گی۔)
حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا۔ تو خوشبو لگا کر رخساروں پر ملی اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تین دن سے زیادہ غم نہ کیا جائے، البتہ شوہر کے لیے 4 مہینہ 10 دن سوگ کرنا چاہیے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ سنا تھا کہ جو شخص بارہ رکعت روزانہ نفل پڑھے گا، اسکے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا، فرماتی ہیں فما برحت اصلیھن بعد! میں انکو ہمیشہ پڑھتی ہوں، اسکا یہ اثر ہوا کہ انکے شاگرد اور بھائی عتبہ اور عتبہ کے شاگرد عمروبن اویس اور عمر کے شاگرد نعمان بن سالم سب اپنے اپنے زمانہ میں برابر یہ نمازیں پڑھتے رہے۔
فطرةً نیک مزاج تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میری بہن سے آپ نکاح کر لیجیئے فرمایا"کیا تمہیں یہ پسند ہے۔" بولیں"ہاں میں ہی آپ کی تنہا بیوی نہیں ہوں، اس لیے میں یہ پسند کرتی ہوں کہ آپ کے نکاح کی سعادت میں میرے ساتھ میری بہن بھی شریک ہو۔"[12](وامھاتکم اللاتی ارضعنکم و یحرم من الرضاعة مایحرم من النسب)

حوالہ جات

↑ (اصابہ ج8ص84)
↑ ((ایضاً) زرقانی ج3ص276بحوالہ ابن سعد)
↑ (مسندج6ص427وتاریخ طبری واقعات سن 6 ہجری)
↑ (صحیح مسلم ج2ص361)
↑ (استیعاب جلد2ص750)
↑ (اصابہ ج8ص85بحوالہ ابن سعد(ابن سعد جزءنساءص71))
↑ (صحیح مسلم جلد2ص361)
↑ (اصابہ ج8ص85بحوالہ ابن سعد)
↑ (مسندج2ص326)
↑ (صحیح بخاری ج2ص803)
↑ (مسندج6ص327)
↑ (صحیح بخاری ج2ص764

ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے سترہ سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ابوسفیان صخر بن حرب کی عمر33 سال تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا کی پیدائش واقعہ فیل کے تئیس سال بعد ہوئی۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کی خبر ان کے والد حضرت ابوسفیان کو جونہی ملی آپ کے تاثرات کو نواز رومانی اپنی تصنیف ’’ازواج الرسول امہات المومنین‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:
گھر میں کئی عورتیں موجود تھیں ابوسفیان سیدھا اندر گیا جہاں اس کی بیوی صفیہ اپنی نومولود بیٹی کے ساتھ موجود تھی وہ بچی کی طرف دیکھنے لگا۔ صفیہ خاوند کے چہرے پر ابھرنے والے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہی تھی۔ میرا دل کہتا ہے یہ بہت مبارک بچی ہے۔ صفیہ نے کہا: ہوں! ہاں ہاں ابو سفیان خیالات سے چونکا بھولپن کے ساتھ اس کے چہرے میں عجیب طرح کا نور جھلک رہا ہے یقینا یہ بچی میرے سب خاندان کے لئے باعث رحمت ثابت ہوگی۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا جن کا نام ان کے والد نے رملہ رکھا تھا اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھیں۔ وہ ان کی تمام تر خواہشات کو پورا کرتے تھے اور ان کی چھوٹی سی تکلیف پر بھی دونوں پریشان ہوجاتے تھے لیکن بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو ان کے لئے ایک اچھے رشتے کی بھی فکر لاحق ہوگئی تھی۔ لہذا عبیداللہ بن جحش کے رشتے پر دونوں ماں باپ نے نہایت خوشی کا اظہار کیا۔

عیبداللہ بن جحش کے والدین کو جیسے ہی ابوسفیان کی بیٹی رملہ کے جوان ہونے اور دوسرے لوگوں کے رشتے بھیجنے کی اطلاع ملی تو انہیں بھی اپنے خوبصورت، نڈر اور نیک سیرت بیٹے کا رشتہ تمام سے موزوں و مناسب اور بہتر و برتر محسوس ہوا۔ لہذا اس لئے ہاں کردی۔ یوں ابوسفیان (جو ابھی مرتد تھا) کی چاند سی بیٹی رملہ کی شادی جحش بن رباب اور عبدالمطلب کی بیٹی امیم کے قابل فخر بیٹے عبیداللہ بن جحش کے ساتھ بڑے تزک و احتشام اور دھوم دھام سے ہوئی جس میں عرب کے تمام سرداران قبائل نے شرکت کی۔ تمام اکابرین اور زعماء بھی شریک ہوئے.

کم عمری سے ہی عبیداللہ بن جحش تلاش حق میں اپنے تین ساتھیوں ورقہ بن نوفل، عثمان بن حویرث اور زید بن عمرو نفیل کے ساتھ نکلے مگر تینوں ساتھی عبیداللہ بن جحش سے بڑے تھے لہذا تھوڑے تھوڑے عرصے کے فاصلے سے اپنے معبود حقیقی سے جاملے لیکن عبیداللہ بن جحش متواتر تلاش حق میں سرگرداں رہے اور بالآخر دین ابراہیم کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوگئے کیونکہ آقا علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کردیا تھا کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت وامانت تمام مکہ میں مشہور تھی۔ اس بناء پر وہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضری کے لئے گھر سے حبشہ کی جانب نکلے۔

جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ امہات المومنین تمام امت مسلمہ کی خواتین کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لہذا ان کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرہ ہوکر خواتین اپنی عائلی زندگی کو خوشگوار اور دین اسلامی کے مطابق بسر کرسکتی ہیں۔ اسی طرح ہم ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی سوانح حیات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ان کے چند ایک پہلو پر تبصرہ کریں گے کہ ہم اپنی زندگیوں میں کس طرح بہتری کا سامان پیدا کرسکتے ہیں۔

1۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے امت مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ ہر حال میں دین اسلام کو فوقیت دینی چاہئے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد ہی یہی ہے۔ اس کے لئے چاہے کتنے ہی کٹھن دور سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ جیسے آپ نے دین اسلام کو پسند کرتے ہوئے اپنے والد ابوسفیان کو مکہ چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی لیکن کچھ عرصے بعد جب ان کے شوہر عبیداللہ بن جحش مرتد ہوگئے تو ان کو لاکھ سمجھانے کے باوجود نہ ماننے پر تنہا زندگی بسر کرنا پسند کی۔ پھر نہایت صبرو شکر سے زندگی کے دن گزارنے لگیں۔

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دین اسلام کی راہ میں حائل اگر باپ، بھائی، شوہر میں سے جو بھی آئے تو فقط دین اسلام کو فوقیت دی جائے اور اللہ کی مددو نصرت کا انتظار کرنا چاہئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی سبق ہے کہ مصائب و آلام میں بھی اللہ رب العزت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ رب قادر اگر کسی ابتلاء میں مبتلا کرتا ہے تو انسان کو اس مصیبت میں غرق کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اس پر ثابت قدم رہنے پر وہ انعام و اکرام سے نوازتا ہے جس طرح حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ ازدواج میں منسلک کرکے انہیں دلی سکون و اطمینان میسر آیا۔

2۔ اگر شوہر نیک صالح ہو تو اس کا دل سے عزت و احترام کرنا بھی دین اسلام سے ثابت ہے جس طرح 16 سال بعد جب ام حبیبہ کے والد گرامی ابوسفیان اپنی بیٹی سے ملنے آئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے انہیں عزت و تکریم دیتے ہوئے حجرے میں بلایا لیکن بستر نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیٹھنے کی اجازت نہ دی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا منصب بہت اونچا ہے مگر عام عورتوں کے لئے اس میں یہ حکم ہے کہ اپنے شوہر کی عزت و حرمت کا خیال رکھا جائے۔ اس کی عیب جوئی نہ کی جائے۔ اس کے وقار کا خیال رکھا جائے۔ ہمارے معاشرے میں عورتیں اپنے شوہروں کو بدنام کرتی رہتی ہیں۔ ان کی عیب جوئی کرتی ہیں۔ دین اسلام اس کی مذمت کرتا ہے۔

3۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے دم آخر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بلاکر ان سے معافی طلب کی کہ ان معاملات میں معاف کردیں جو ازواج کے درمیان ہوجایا کرتے ہیں۔

اس سے تمام مسلمانوں اور خاص طور پر خواتین کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہر کسی کے ساتھ احسن سلوک روا رکھنا چاہئے اور حتی الامکان محبت و امن اور بھائی چارگی کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے اور رشتوں کو جوڑنے کا سبب بننا چاہئے کیونکہ ہمیں ام المومنین کی حیات مبارکہ سے نہایت نازک رشتہ جو عرف عام میں سوتن کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسے بھی کتنے احسن انداز سے نبھانے کی مثال ملتی ہے کہ دوران زندگی وہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے باوجود بھی تادم آخر ان سے معافی مانگ کر اس دنیا کو خیر آباد کہتی ہیں تاکہ وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ نہ لے جائیں لہذا ہمیں بھی اپنے تمام رشتوں کو اسی طرح سے نبھانا چاہئے تاکہ ایک پرامن و پرسکون فضاء کا حصول ممکن ہوسکے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق و نظر کرم سے ان پاک ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔


 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 903 Articles with 634417 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More