پاکستانی معاشرے کی تنگ سوچ گلیوں میں اکثر یہ فقرہ سننے
کو ملتا ہے: "میرا ہونے والا شریک حیات میری ہر بات مانے گا، میری ہر
ناسمجھی کو برداشت کرے گا، اور مجھے کبھی غلط نہیں کہے گا۔" یہ جملہ محض
ایک معصوم خواہش نہیں، بلکہ ایک ایسی خودغرض ذہنیت کا آئینہ دار ہے جو شادی
کو "غلامی کا معاہدہ" سمجھتی ہے۔ اس سوچ کی جڑیں ہمارے ثقافتی بیانیے میں
اتنی گہری پیوست ہیں کہ اکثر تعلیم یافتہ افراد بھی اسے رومانویت کا لیبل
لگا کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مگر کیا واقعی محبت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے
شریکِ حیات کی عقل، سوچ، اور خودمختاری کو اپنی انا کے تابع کر دیں؟ کیا
ہماری مذہبی تعلیمات یا فلسفیانہ روایت میں ایسی کوئی گنجائش ہے جو ایک
فریق کو دوسرے پر حاکم ٹھہرائے؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہمیں اس خودپسند ذہنیت
کو چیلنج کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ہمارے ڈراموں، فلموں، اور یہاں تک کہ عام گفتگو میں عورت اور مرد کے
"نادان" ہونے کو اکثر معصومیت کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک لڑکی
کا حساب کتاب نہ جاننا، وقت کی پابندی نہ کرنا، یا معاملات فہمی سے عاری
ہونا معصومیت قرار پاتی ہے۔ اسی طرح ایک لڑکے کا گھر والوں کی ہر غیرمنطقی
خواہش کو مقدس فرمان سمجھنا خاندانی روایت کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ معاشرہ
انہیں یہ باور کراتا ہے کہ شادی کے بعد ان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ
اپنے ساتھی کی ہر خواہش کو، چاہے وہ کتنی ہی غیر معقول کیوں نہ ہو، بجا
لائیں۔ یہاں تک کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی شادی کو "حقوق کی لڑائی"
سمجھنے لگا ہے، جہاں ایک فریق دوسرے سے مطالبہ کرتا ہے کہ "تمہیں میری ہر
بات ماننی ہوگی۔" سوال یہ ہے کہ کیا یہ سوچ محبت کی بنیاد رکھ سکتی ہے یا
پھر یہ نفسیاتی غلامی کی ایک نئی شکل ہے؟
قدیم یونانی فلسفی سقراط نے کہا تھا کہ "خودشناسی" انسان کی سب سے بڑی حکمت
ہے۔ وہ شخص جو اپنی کمزوریوں، جذباتی عدم پختگی، اور علمی خامیوں کو تسلیم
کرنے سے انکار کر دے، درحقیقت اپنے وجود کو ایک دھوکے میں جی رہا ہے۔ ایسا
فرد اگر یہ توقع رکھے کہ دوسرا شخص اس کی ہر ناسمجھی کو خندہ پیشانی سے
برداشت کرے گا، تو یہ محبت نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی استحصال ہے۔ روسو نے
اپنی کتاب "سماجی معاہدہ" میں واضح کیا تھا کہ کسی بھی تعلق کی اساس باہمی
رضامندی اور احترام پر ہونی چاہیے۔ جب ایک فریق دوسرے کو اپنی مرضی کے تابع
کرنے پر اصرار کرتا ہے، تو وہ نہ صرف انسانی وقار کی توہین کرتا ہے بلکہ
سماجی انصاف کے اصولوں کو بھی پامال کرتا ہے۔ برٹرینڈ رسل کی یہ بات اس
سوال کا مکمل جواب ہے: "محبت وہ نہیں جو ہر خرابی کو نظرانداز کر دے، محبت
وہ ہے جو دوسرے کو اس کی خرابیوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔"
یہاں تک کہ مشرقی فلسفے نے بھی ہمیشہ خودی اور خودداری پر زور دیا ہے۔
علامہ اقبال نے "خودی" کا جو تصور پیش کیا، وہ فرد کی انفرادیت اور
خودمختاری کا علمبردار ہے۔ اقبال کی نظر میں وہ محبت کبھی حقیقی نہیں ہو
سکتی جس میں ایک شخص دوسرے کی سوچ، ارادے، یا شخصیت کو کچل دے۔ شریکِ حیات
کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری یہ نہیں کہ ہم انہیں اپنی مرضی کا کٹھ پتلی
بنائیں، بلکہ یہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مدد کریں۔ اسی لیے وہ
کہتے تھے: "محبت بھی حقیقت ہے، مجاز بھی حقیقت۔" یعنی محبت کا رشتہ بھی اسی
وقت پائیدار ہوتا ہے جب وہ حقیقی احترام اور سچائی پر مبنی ہو۔
مغربی مفکرین ہی نہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات بھی اس خودغرض ذہنیت کی نفی
کرتی ہیں۔ قرآن پاک میں شادی کو "میلا مولا" (سکون اور محبت کا رشتہ) قرار
دیا گیا ہے۔ سورہ الروم کی آیت 21 میں واضح ہے کہ اللہ نے میاں بیوی کے
درمیان محبت اور رحمت پیدا کی تاکہ وہ ایک دوسرے کے سکون کا باعث بنیں۔ کسی
ایک فریق کو دوسرے پر فوقیت دینے کا کوئی تصور اس آیت میں موجود نہیں۔ حدیث
نبوی ﷺ ہے: "تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو۔"
یہاں "بہترین" ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے ماتحت کو کنٹرول کریں، بلکہ
یہ کہ آپ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ فقہا کے نزدیک بیوی کی نافرمانی
کا تصور ہی غلط ہے، کیونکہ شوہر اور بیوی دونوں کے حقوق باہمی ہیں۔ امام
غزالی نے "احیاء العلوم" میں لکھا ہے کہ بیوی کی رائے کو نظرانداز کرنا
گھریلو اختلافات کی بنیادی وجہ ہے۔
ادب نے بھی ہمیشہ انسانی تعلقات کی پیچیدگیوں کو اجاگر کیا ہے۔ جین آسٹن کا
ناول "پرائیڈ اینڈ پریجوڈس" ایلزبتھ بینٹ اور مسٹر ڈارسی کی کہانی سناتا ہے
جہاں ڈارسی کی تکبر آمیز سوچ محبت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ ناول ہمیں
بتاتا ہے کہ حقیقی رشتے وہی ہیں جو غرور اور تعصب سے پاک ہوں۔ اسی طرح
انتظار حسین کے افسانے پدرانہ نظام کے خلاف ایک طنز ہیں، جہاں عورت کو صرف
فرمانبردار بیوی کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ ممتا کالے کی نظم "تمہاری
جہالت میرے لیے زیور نہیں ہے" عورت کے وجود کی خودمختاری کا اعلان ہے:
"تمہاری بے عقلی کو میں معاف کر سکتی ہوں، مگر اسے اپنی زندگی کا حصہ نہیں
بنا سکتی۔"
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شادی کے تصور کو غلامی کی علامت سمجھنا بند
کریں۔ حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھی کی کمزوریوں کو سمجھیں،
انہیں سنبھالیں، مگر انہیں اپنی برتری کا ذریعہ نہ بنائیں۔ جیسے خلیل جبران
کہتا ہے: "محبت میں تمہارے درمیان سمندر کی لہروں جیسا فاصلہ ہونا چاہیے،
جو ایک دوسرے کے ساحل کو چھوئے بغیر اکٹھا رقص کر سکیں۔" ہمیں اپنے معاشرے
کو یہ باور کرانا ہوگا کہ شریکِ حیات کا انتخاب کوئی بازار سے سامان خریدنے
جیسا نہیں، جہاں آپ صرف اپنی پسند کے مطابق چناؤ کریں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے
جس میں دونوں کو ایک دوسرے سے سیکھنا، بڑھنا، اور خود کو بدلنا ہوتا ہے۔
آخر میں، یہی سوچ ہمیں ایک روشن معاشرے کی طرف لے جائے گی جہاں محبت کا
مطلب "مان لینا" نہیں، بلکہ "سمجھ لینا" ہوگا۔
|