ٹریفک حادثات کے متاثرین کی یاد کا عالمی دن (World Day of Remembrance for Road Traffic Victims)
(Muhammad Arslan Shaikh, Karachi)
*از قلم : محمد ارسلان شیخ* دنیا بھر میں ٹریفک حادثات کے متاثرین کی یاد کا عالمی دن(World Day of Remembrance for Road Traffic Victims) ہر سال نومبر کے تیسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن اُن لاکھوں افراد کی یاد کے لیے مخصوص ہے جو ٹریفک حادثات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ یہ دن 1993 میں برطانیہ کی تنظیم RoadPeace نے متعارف کرایا، جبکہ 2005 میں اقوام متحدہ نے باقاعدہ طور پر اسے عالمی دن کی حیثیت دے دی۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں اس دن کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جہاں ٹریفک حادثات، خصوصاً ڈمپر حادثات، درجنوں خاندانوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے ویران کر چکے ہیں۔ کراچی کی سڑکیں محض راستے نہیں، یہ ایک خطرناک تجربہ گاہ بن چکی ہیں جہاں ہر گزرتا لمحہ زندگی اور موت کے درمیان ایک باریک لکیر ہے۔ خصوصاً ڈمپر ٹرک اس شہر کے لیے ایک مستقل خوف کا منبع بن چکے ہیں۔ ہر چند دن بعد کوئی نئی خبر، کوئی نیا حادثہ، کوئی نیا جنازہ… اور شہریوں کا غم و غصہ ایک بار پھر سوال بن کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے، یہ بے لگام ڈمپر ٹرک بغیر کسی نگرانی، بنا فٹنس، بغیر تربیت یافتہ ڈرائیوروں کے ہاتھوں موت بانٹ رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہر بڑے حادثے کے فوراً بعد دَمپَر مافیا کا سَردار—جسے مقامی لوگ اچھی طرح جانتے ہیں—متاثرہ خاندان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے مسلح گارڈز کے ساتھ موقع پر پہنچ کر بدتمیزی، دھمکیاں اور دباؤ ڈالتا ہے۔جائے حادثہ ہو یا پولیس اسٹیشن—یہ مافیا طاقت اور پیسے کے نشے میں متاثرین کو دھمکاتا ہے،تاکہ ڈرائیور کو بچا لیا جائے اور گاڑی مالک تک قانون کا ہاتھ پہنچ نہ سکے۔متاثرہ خاندان انصاف مانگے تو جواب میں یہی سننے کو ملتا ہے: “یہ روڈ حادثہ ہے… صبر کریں!” مگر سوال یہ ہے کہ جب حادثات کا باعث ،بے قابو بھاری گاڑیاں،غیر تربیت یافتہ ڈرائیور،غیر قانونی روٹس،خطرناک رفتار،اور مافیا کی پشت پناہی ہو…تو کیا یہ حادثہ ہے یا قتلِ خطا نہیں ؟ ایک المیہ حکومت کی بے حسی بھی ہے کہ سڑکیں بنانا، قوانین نافذ کرنا، بھاری گاڑیوں کے اوقات مقرر کرنا، فٹنس سرٹیفکیٹ چیک کرنا—یہ سب حکومتی ذمہ داریاں ہیں۔سڑکوں کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے کہ بڑے دھچکوں، اندھی کھائیوں جیسے گڑھوں، اور اَن دیکھی ڈھیلی چادروں نے گاڑی چلانا ایک روزانہ کی آزمائش بنا دیا ہے۔ شہری ٹیکس دیتے ہیں مگر سڑکیں کسی مہذب شہر کی نہیں بلکہ جنگ زدہ علاقے کی یاد دلاتی ہیں۔حکومت کی بے حسی اس المیے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ متاثرین کی یاد کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سڑکیں انسانوں کے لیے محفوظ ہونی چاہئیں۔ مگر کراچی میں سوال یہ ہے: "آخر کب تک شہری سڑکوں پر یوں مرتے رہیں گے؟کب تک مافیا طاقتور رہے گا اور عوام کمزور؟ کب تک حکومت خاموش رہے گی؟" یہ دن صرف یاد کا نہیں، یہ مطالبے کا دن ہے، اصلاح کا دن ہے، اور سب سے بڑھ کر انصاف نہ ملنے والے شہداء کی آواز بننے کا دن ہے،اورکراچی سمیت پورے ملک میں سرکاری سطح پر اُن شہریوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے جو روڈ حادثات میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
|
|