"نکاح، محبت کا عہد، ظلم کی گونج نہیں":


"نکاح، محبت کا عہد، ظلم کی گونج نہیں":

نکاح، دو روحوں کے درمیان وہ لطیف معاہدہ ہے جسے اللہ نے
مودّت، رحمت اور سکینت کی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔
یہ رشتہ اُس وقت خوبصورت لگتا ہے جب دونوں فریق “انسان” ہوں۔
نہ ایک فرعون، نہ دوسرا فقیہہ غلام۔

اسلام نے مرد کو قوّام ضرور کہا ہے،
لیکن قوّام کا مفہوم “حاکمیت” نہیں “ذمّہ داری” ہے۔
حفاظت، کفالت، اخلاق اور شفقت۔
یہ چار ستون جب ٹوٹتے ہیں تو
مرد اپنی مردانگی نہیں کھوتا،
اپنی انسانیت کھو دیتا ہے۔

اسی طرح عورت کو بھی
“برداشت کرتی ہوئی موم کی گڑیا” نہیں بنایا گیا۔
اسے احساس، عقل، وقار اور زبان عطا کی گئی ہے۔
تاکہ وہ مباشرت میں شریکِ حیات ہو،
گھر کی تعمیر میں شراکت دار،
اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں معاون۔

لیکن جب کوئی شوہر
ہاتھ کو محبت کے لیے نہیں،
تحقیر کے لیے اٹھاتا ہے…
زبان کو دعا کے لیے نہیں،
تذلیل کے لیے استعمال کرتا ہے…
اور گھر کو گھر نہیں،
خوف کا قفس بنا دیتا ہے۔
تو وہ “قوّام” نہیں رہتا،
اللہ کی دی ہوئی امانت کا خائن بن جاتا ہے۔

اسلام نے عورت کو
ظالم کے قدموں میں پڑے رہنے کا نہیں،
حق کے ساتھ کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے۔

نبی ﷺ کے دور میں
صرف “نفسیاتی اذیت” پر بھی نکاح فسخ کیا گیا۔
اور اس پر نہ عورت کو مطعون کیا گیا
نہ اسے صبر کے چبوترے سے باندھا گیا۔

کیونکہ ظلم،
چاہے جسم پر ہو یا روح پر،
اللہ کے نزدیک جرم ہے،
صبر کا نام نہیں۔

اور یاد رہے۔۔۔
گھر صرف مارنے والے مرد سے نہیں ٹوٹتے؛
بعض گھر عورت کی زبان،
اس کی ضد،
اس کی مسلسل شکایت
اور اس کے غیر ضروری مطالبوں سے بھی کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔
رشتہ ایک ہاتھ سے نہیں چلتا،
اور ایک ہاتھ سے کبھی ٹوٹتا بھی نہیں۔
اسے بگاڑنے میں دونوں کی کوئی نہ کوئی اینٹ شامل ہوتی ہے۔

بیٹیوں پر سب سے بڑا ظلم یہ ہے
کہ انہیں صرف “سہنا” سکھایا جائے،
اور بیٹوں پر سب سے بڑا ظلم یہ ہے
کہ انہیں “حق نہ دینے کا حق” سکھایا جائے۔

ماں اگر برسوں کے زخم اپنی بیٹیوں کو ورثے میں دے،
اور باپ اگر گھر کے اندر ظالم کا سامنا نہ کر سکے،
تو اگلی نسلیں
یا بزدل بنتی ہیں
یا ظالم۔

اسلام نے نہ عورت کو تخت کا سیڑھی بنایا،
نہ مرد کو لاٹھی۔
اسلام نے دونوں کو
انسان کہا ہے،
اور انسانیت پر مبنی رشتہ قائم کیا ہے۔

مسئلہ کہاں ہے؟

مسئلہ دین میں نہیں۔
مسئلہ اس “غیرتی کلچر” میں ہے
جس میں بیٹی کے رخصت ہوتے ہی
بھائی غیرتِ مردہ کی قبروں میں اتر جاتے ہیں۔
جس میں عورت کے زخموں پر
مرہم کی بجائے کہا جاتا ہے:
“بس گھر بچائے رکھو…”

حالانکہ نبی ﷺ نے
ظلم کے سامنے خاموشی کو
کمزوری نہیں
مجرمانہ شرکت قرار دیا ہے۔

حل کیا ہے؟

بیٹیوں کو صرف صبر نہیں، عزت کی حدیں سکھائیں۔
بیٹوں کو صرف مردانگی نہیں، انسانیت اور برداشت کی تربیت دیں۔
نکاح کو سماجی رسم نہیں، معاہدہِ اخلاق سمجھیں۔
گھر میں ظلم ہو تو “ثواب” کی تلقین نہ کریں،
“حدودِ شرعی” کی راہ دکھائیں۔
عورت اگر اذیت میں ہے تو علیحدگی اس کا گناہ نہیں، اس کا حق ہے۔
مرد اگر رسوا ہو رہا ہے تو اسے بھی حق ہے کہ عزت کے ساتھ فیصلہ کرے۔
دونوں کو یہ سکھائیں کہ
محبت نہ ہو،
شفقت نہ ہو،
اور دلوں میں خوف ہو،
تو وہ نکاح عبادت نہیں رہتا،
عذاب بن جاتا ہے۔

یعنی بنا کسی ہرزہ سرائی کے،
حقیقت یہ ہے،

کہ نکاح دو انسانوں کا عہد ہے۔
عہدِ محبت…
عہدِ وقار…
عہدِ احترام…

اگر شوہر انسان ہو
تو عورت فرشتہ بننے میں دیر نہیں لگاتی۔
اور اگر شوہر درندہ ہو
تو عورت کا فرض ہے کہ
اپنے رب کی دی ہوئی عزت کو
ظلم کے پنجرے سے نکال لے۔

کیونکہ وہ کسی مرد کی ملکیت نہیں،
اللہ کی امانت ہے۔


واثق پیرزادہ
رحیم یار خان
Articles & Columns by Wasiq Peerzadah https://share.google/JcUwAvUILpvlSHHSQ

 

M. Wasiq Peerzadah
About the Author: M. Wasiq Peerzadah Read More Articles by M. Wasiq Peerzadah: 18 Articles with 13204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.