نیشنل گیمز کی اچانک ملتوی: بدانتظامی، غیر سنجیدگی یا لاعلمی؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کراچی میں یکم مئی سے 9 مئی 2025 تک منعقد ہونے والے 34ویں نیشنل گیمز ایک بار پھر متنازع فیصلے کی نذر ہو گئے۔ 17 اپریل کو سندھ اولمپک ایسوسی ایشن نے سوشل میڈیا پر اپنے پیڈ پر ایک پیغام جاری کیا، جس میں "ناگزیر وجوہات" کی بنیاد پر گیمز کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم حیرت انگیز طور پر نہ تو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی جانب سے کوئی باضابطہ موقف سامنے آیا اور نہ ہی سندھ حکومت نے اس فیصلے پر لب کشائی کی۔
اس اعلان کے بعد ایک اور خط سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا، جس میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکریٹری خالد محمود کو مخاطب کرتے ہوئے گیمز کی ملتوی کا جواز پیش کیا گیا۔ خط میں کہا گیا کہ کراچی میں شدید گرمی اور طلبہ کے امتحانات ملتوی ہونے کی بڑی وجوہات ہیں۔موجودہ صورتحال میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا سندھ اولمپک ایسوسی ایشن خواب خرگوش میں تھی؟ یہ سوال بجا طور پر اٹھتا ہے کہ جب نیشنل گیمز کے انعقاد کا اعلان فروری میں کیا گیا تھا، اور بعد ازاں اسے مئی میں منتقل کیا گیا، تو کیا اس وقت متعلقہ حکام کو کراچی کے موسم کا اندازہ نہیں تھا؟ کیا طلبہ کے امتحانات کا شیڈول انہیں معلوم نہیں تھا؟ اگر یہ باتیں ا±س وقت ذہن میں نہیں آئیں تو اب عین وقت پر گیمز ملتوی کرنا غیر سنجیدگی، ناقص منصوبہ بندی اور ناقابل معافی غفلت کی نشانی ہے۔
دوسری جانب کچھ حلقے یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ نیشنل گیمز کی ملتوی کے پیچھے اصل وجہ امتحانات نہیں، بلکہ مخصوص کھیلوں میں میڈلز کا تحفظ ہے۔ سوئمنگ میں سب سے زیادہ یعنی 32 میڈلز داو¿ پر لگتے ہیں، اور اس کھیل میں پنجاب اور سندھ کے سوئمرز نمایاں کارکردگی رکھتے ہیں۔ چونکہ ان ہی صوبوں کے زیادہ تر سوئمرز اس وقت او اور اے لیول کے امتحانات میں مصروف ہیں، اس لیے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سندھ اور پنجاب نے میڈلز کے تحفظ اور اپنی پوزیشن بچانے کے لیے گیمز ملتوی کرانے میں کردار ادا کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ میں تو سوئمنگ کے ٹرائلز ہی نہیں کرائے گئے، جس سے اس کھیل میں عدم دلچسپی یا ممکنہ نظراندازی کا تاثر بھی ابھرتا ہے۔
پاکستان کے تمام صوبے، ڈیپارٹمنٹس، اور گلگت بلتستان و اسلام آباد سمیت مختلف یونٹس نے نیشنل گیمز کی تیاریوں پر خطیر اخراجات کر ڈالے ہیں۔ خیبر پختونخواہ نے اکیلے ٹرائلز اور کیمپوں پر تقریباً 3 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ کھلاڑیوں کو ایکوپمنٹ، کٹس اور شوز فراہم سمیت بیشتر کام مکمل ہو چکے ہیں کے پی سپورٹس ڈائریکٹریٹ پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہے، اور یہ ملتوی فیصلہ مزید مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ اب ایسوسی ایشنز کی حالت یہ ہے کہ وہ اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ کیمپ جاری رکھیں یا بند کر دیں۔ اگر دوبارہ ٹرائلز اور کیمپ لگائے گئے، تو اربوں روپے کا مزید خرچ درکار ہوگا۔ یہ سراسر عوام کے ٹیکس کا ضیاع ہے۔
ویٹ لفٹنگ، باڈی بلڈنگ اور دیگر کھیلوں کے کھلاڑیوں نے نیشنل گیمز کی تیاریوں کے لیے نہ صرف جسمانی مشقت کی بلکہ اپنی جیب سے خوراک اور دیگر ضروریات پر پیسہ خرچ کیا۔ اب یہ گیمز ملتوی ہو گئے تو ان کی محنت اور سرمایہ دونوں ضائع ہو رہے ہیں۔ ان کی دوبارہ تیاری میں وقت، محنت اور پیسہ درکار ہوگا، جس کی ذمہ داری کون لے گا؟یہ وقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس غیر ذمہ دارانہ رویے کا نوٹس لیں۔ اگر اولمپک جیسے اہم ادارے نااہل افراد کے سپرد ہیں تو انہیں فارغ کر کے باصلاحیت بیوروکریٹس یا پیشہ ور افراد کے حوالے کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نیشنل گیمز محض ایک کھیل کا ایونٹ نہیں بلکہ پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں کے خواب، محنت اور مستقبل سے جڑا ایک سنگ میل ہے۔ اس کے ساتھ یہ غیر سنجیدہ رویہ نہ صرف قومی وقار کو مجروح کرتا ہے بلکہ کھیلوں کے شعبے میں مایوسی بھی پھیلاتا ہے۔
#NationalGames2025 #GamesPostponed #SportsPolitics #SwimmingControversy #PakistanOlympics #AthleteRights #TaxMoneyWasted #PoorPlanning #YouthAndSports #AccountabilityNow #SavePakSports #KPSports #Mismanagement
|