نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
ذاتِ اقدس تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نہ صرف ایک عظیم پیغمبر تھے بلکہ ایک بہترین انسان، ایک مثالی شوہر، ایک
شفیق باپ، ایک سچے دوست اور ایک منصف مزاج قائد بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا ہر پہلو انسانیت کے لیے ایک روشن مثال اور ایک
لازوال نمونہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے عظیم اخلاق کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا:
"وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ" (القلم: 4)
(اور بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے نمایاں وصف آپ کی سچائی اور امانت
داری تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی صداقت کی بنا پر اپنے بدترین
دشمنوں میں بھی "صادق" اور "امین" کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی کسی کی امانت میں خیانت کی۔
مکہ کے لوگوں نے اپنی قیمتی امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس
رکھی ہوئی تھیں اور نبوت کے اعلان کے بعد بھی انہوں نے اپنی امانتیں آپ ہی
کے سپرد کیں۔ قرآن مجید میں سچائی اور امانت داری کی اہمیت کو یوں بیان کیا
گیا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ
الصَّادِقِينَ" (التوبہ: 119)
(اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔)
اور امانتوں کی ادائیگی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ
أَهْلِهَا" (النساء: 58)
(بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں تک پہنچاؤ۔)
اسی وصفِ صداقت پہ یہ شعر رقم ہے دیکھو
زباں پہ مہرِ نبوت، ہر اک سخن ہے سچا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا رحمت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
شفقت اور مہربانی صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ تمام انسانوں،
بلکہ حیوانات تک کے لیے رحم دل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماروں کی
عیادت کرتے، غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرتے اور کمزوروں کا سہارا بنتے
تھے۔ بچوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے حد پیار کرتے اور ان سے شفقت
سے پیش آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں
کے لیے رحمت قرار دیا ہے:
"وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ" (الأنبياء: 107)
(اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔)
رحمت کا پیکر، شافعِ محشر، نبیِ کریم
ہر درد مند دل کا سہارا، حبیبِ خدا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بردبار اور حلیم الطبع تھے۔ سخت سے سخت حالات
میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر و تحمل کا دامن نہیں چھوڑا۔ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دی گئیں، پتھر مارے گئے، آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے کبھی بددعا نہیں دی بلکہ ہمیشہ ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی۔
قرآن مجید میں صبر کرنے والوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ ہے:
"وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ" (آل عمران: 146)
(اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔)
صبر کی تصویر، حلم کا دریا، وہ ذاتِ عظیم
جس نے ہر اذیت کو خندہ پیشانی سے سہا
فتح مکہ کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکہ
میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تمام دشمنوں کو معاف
فرما کر عفو و درگزر کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے
اور درگزر کرنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ
يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ" (آل عمران: 134)
(اور غصہ پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے، اور اللہ نیکوکاروں کو
دوست رکھتا ہے۔)
عفو و کرم کا ایسا نظارہ کہاں ملے گا
دشمن بھی پناہ مانگے تو سینے سے لگایا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعدے کے سچے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے جو وعدہ کیا اسے ہر حال میں پورا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر لوگوں کے ساتھ کیے گئے تمام وعدوں
کو نبھایا۔ قرآن مجید میں وعدہ خلافی سے منع کیا گیا ہے:
"وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا" (الإسراء:
34)
(اور وعدہ پورا کرو، بے شک وعدے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔)
وعدے کی پاسداری کا وہ اعلیٰ نمونہ ہیں
جو کہہ دیا زباں سے، وہ کر کے دکھایا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہمان نواز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اپنے مہمانوں کا بہت خیال رکھتے اور ان کی خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ
رکھتے تھے۔ قرآن مجید میں مہمان نوازی کو ایک محمود عمل قرار دیا گیا ہے
اور انبیاء کرام علیہم السلام کے قصوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
ہر آنے والے مہمان پہ شفقت نچھاور کی
سخاوت کا وہ دریا کبھی خشک نہ پایا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منصف مزاج تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ہمیشہ عدل و انصاف سے کام لیا اور کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی۔ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر و غریب، طاقتور و کمزور سب کے لیے یکساں
انصاف فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا ہے:
"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي
الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ
يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ" (النحل: 90)
(بے شک اللہ عدل اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے
حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم
یاد رکھو۔)
عدل و انصاف کا وہ میزان ہیں زمانے میں
حق بات کہنے سے کبھی بھی نہ گھبرایا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں
زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
اخلاق ہمارے لیے مشعل راہ ہیں جن پر چل کر ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی
حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ
کریمانہ کو اپنی زندگیوں میں اپنائیں اور ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے میں
اپنا کردار ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کو اپنانے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین۔
|