عالمی یومِ ورثہ اور ورثے کا نوحہ

جاوید اختر کا تعلق ہندوستان سے ہے. نہایت عمدہ اور باکمال شاعر ہیں. 2008 میں ایک بالی وڈ فلم، جودھا اکبر کے نام سے ریلیز ہوئی. اس فلم کے لیے انہوں نے ایک گانا لکھا تھا،
کہنے کو جشنِ بہاراں ہے
عشق یہ دیکھ کے حیراں ہے
پھول سے خوشبو خفا خفا ہے گلشن میں
چھپا ہے کوئی رنج فضا کی چلمن میں

یہ گانا مجھے اُس وقت یاد آیا جب میں بہار کی ایک صبح، ٹیکسلا عجائب گھر پہنچا. مرکزی دروازے سے داخل ہوا تو ایک دلرُبا اور روح پرور منظر نے میرا استقبال کیا.

ٹیکسلا، جو عظیم الشان انسانی تاریخ کا حوالہ ہے، اِن دنوں ٹیکسلا پر بہار اتری ہوئی ہے. میوزیم کے اندر تاریخ انسانی کا نہایت قیمتی خزانہ محفوظ ہے اور باہر فطرت، فیاضی کا مظاہرہ کر رہی ہے.

سرسبز و شاداب اور گلابی رنگ کے پھولوں سے لدے درختوں کے سائے میں، افتخار الدین صدیقی، طاہر سلیمان اور آصف فرید موجود تھے. اُن کے ساتھ متنوع موضوعات پر گپ شپ ہونے لگی. کچھ ہی دیر میں ڈائریکٹر آرکیالوجی، اقبال خان منج بھی پہنچ گئے. تعارفی ملاقات کے بعد ہم اُن کے ہمراہ اُن کے دفتر کی جانب چل پڑے. وہاں انہوں نے اپنے ماضی کے پراجیکٹس کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا. گفتگو جاری تھی کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈاکٹر سدید عارف اور سردار سجاول خان نیازی بھی دفتر میں پہنچ گئے.

اُس روز ٹیکسلا میوزیم میں یہ اکٹھ دراصل عالمی یوم ورثہ کے حوالے سے تھا. عالمی یوم ورثہ، یونیسکو کے تحت، ہر سال 18 اپریل کو منایا جاتا ہے. اس دن کا بنیادی مقصد تاریخ انسانی کے عظیم الشان ورثے کو فروغ دے کر، بہتر سے بہترین اور محفوظ حالت میں اگلی نسل کے حوالے کرنا ہے.

چائے پینے کے بعد، ہم دفتر سے نکل کر، میوزیم کے مرکزی حصے کی جانب بڑھے جہاں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلبہ موجود تھے.

وہیں سے عالمی یوم ورثہ کے حوالے سے خصوصی واک کا آغاز ہوا.

واک کے بعد ہم سب ٹیکسلا میوزیم کی لائبریری میں گئے جہاں ٹیکسلا کے حوالے سے دستاویزی فلم پیش کی گئی. اُس کے بعد، آخر میں، اقبال خان منج، افتخار الدین صدیقی، ڈاکٹر سدید اور طاہر سلیمان نے عالمی یوم ورثہ کے حوالے سے نہایت عمدہ گفتگو کی.

مختلف لوگ انفرادی طور پر، حکومت اور دیگر تنظیمیں تاریخی ورثے کی حفاظت، دیکھ بھال، بہتری، اور فروغ کے حوالے سے باتیں بھی کرتے ہیں اور بہت عمدہ طریقے سے کام بھی کر رہے ہیں جو کہ نہایت قابل داد ہے.

لیکن وہ، نتائج سامنے نہیں آ رہے جو اتنی تگ و دو کے بعد برآمد ہونے چاہییں. تاریخی ورثے کے گرد حفاظتی جنگلہ لگا ہو اور کوئی توڑ رہا ہو تو اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا، کیوں؟ کوئی تاریخ ورثے پر ناجائز قبضہ کر لے تو اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا، کیوں؟

تاریخی عمارتوں کے در و دیوار پر کوئی اپنا نام یا فون نمبر لکھ رہا ہو، اپنے محبوب کا نام، لکھ کر اظہارِ محبت کر رہا ہو تو اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا،کیوں؟ کوئی تاریخی ورثے کے احاطے کو کچرا کنڈی بنا رہا ہو تو اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا، کیوں؟ دنیا کے کسی کونے میں کوئی سانحہ پیش آ جائے ، ہمارے ملک میں بوسیدہ ہو چکی تاریخی اور مذہبی عمارتیں، سہم جاتی ہیں، کیوں؟ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بنیادی نقطہ جو عموماً نظر انداز ہوتا دکھائی دیتا ہے، اور اس کا نتیجہ اِس بھیانک صورت میں سامنے آتا ہے، وہ ہے، تاریخی ورثے کو ورثے کے طور قبول کرنا. ہم آج تک اس معاملے میں ناکام رہے ہیں کہ ہم عام آدمی کو اتنا شعور اور آگاہی فراہم کر سکیں کہ وہ اس ملک میں موجود تاریخی ورثے کو ورثے اور اثاثہ کے طور پر سمجھے. وہ خود، انفرادی طور پر، جہاں تک ہو سکے، اس ورثے اور اثاثہ کی حفاظت کو یقینی بنائے. وہ اس کی بہتری، دیکھ بھال اور حفاظت ایسے ہی کرے جیسے وہ اپنی کسی ذاتی قیمتی شے کی کرتا ہے. ہمیں خود بھی یہ سمجھنا ہو گا اور عام آدمی کو بھی یہ باور کروانا ہو گا، کہ اس تاریخی ورثے کی مذہبی وابستگی سے کوئی انکار نہیں لیکن آج یہ ہمارا، اثاثہ ہے، ہمارا ورثہ ہے، ہمارا تعارف ہے، ہمارے متنوع اور پرامن کل کا گواہ ہے.

ڈاکٹر گستاؤلی لی بان نے اپنی کتاب
The psychology of people
میں لکھا ہے کہ پتھر کی عمارتوں سے زیادہ تاریخ کا مستند حوالہ کوئی نہیں ہوتا، کتاب بھی نہیں. کتاب گمراہ کر سکتی ہے، یہ پتھر گمراہ نہیں کرتے. آج اگر کسی کو، آج کے پاکستان کے متنوع اور پرامن ماضی پر شک ہو تو وہ ہمارے سرکپ کے آثار دیکھ سکتا ہے.

عام آدمی کو یہ باور کروانا کہ ماضی میں ان عمارتوں کی وابستگی کسی بھی مذہب سے ہو اور آج ہماری ان سے مذہبی وابستگی ہو یا نہ ہو، آج یہ پاکستان کا اثاثہ ہے، پاکستانیوں کا ورثہ ہے، یقیناً یہ چیلنجنگ ہے لیکن اگر یہ سوچ اور رویہ عام ہو گیا تو عام آدمی یہ سارے کام خود کرنے لگے لگا جو حکومت اور تنظیمیں کر رہی ہیں. لیکن اس کے لیے حکومت اور تنظیموں کو خود ہی بند کمروں سے نکلنا ہو گا، کسی خاص دن کی مناسبت سے، بند کمروں میں ایک جیسے خیالات کے چند لوگوں کو بُلا بٹھا کر وہی خیال مختلف الفاظ اور انداز میں دہرانے کے بجائے، عام آدمی کے درمیان جانا ہو گا. اُس کی آنکھوں سے وہ ساری عینکیں اتارنی ہونگی جن سے وہ اس ورثے کو دیکھتا ہے اور وہ اُسے، اس ورثے کو قبول کرنے سے روکتی ہیں. اگر ہم نے ایسا کر لیا تو ہم دنیا بھر کے سیاحوں کی میزبانی کر سکتے ہیں. ہم انہیں یہاں بُلا سکتے ہیں. ہم اپنی دھرتی، اپنے اثاثے، اپنے ورثے سے اپنی قومی آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں. یہ وہ دھرتی ہے جس کی خاک، کئی مذاہب کے پیروکاروں کے لیے نہایت مقدس ہے، وہ اس دھرتی کے ذرے ذرے سے عقیدت رکھتے ہیں، کئی مواقع پر میں نے یہ عقیدت اُن کی آنکھوں میں دیکھی ہے.لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے سامنے، ہمارے ہاتھ سے کشکول نہیں چھوٹ رہا. حرف آخر کے طور پر ایک سوال چھوڑ رہا ہوں کہ یہ کشکول ہم سے چھوٹ نہیں رہا یا ہم چھوڑنا نہیں چاہتے؟؟؟

 

Malik Zeeshan Abbas
About the Author: Malik Zeeshan Abbas Read More Articles by Malik Zeeshan Abbas: 5 Articles with 2588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.