سندھ کے ایک دور افتادہ و پسماندہ علاقے میں غربت زدہ نا
خواندہ طبقے سے تعلق رکھنے والی سیما حیدر سسرال کے جنجال سے آزاد اپنے چار
بچوں اور خاوند کے ساتھ ایک معمول کی زندگی بسر کر رہی تھی ۔ شادی کو پانچ
برس ہوئے تھے تو اس کا خاوند اپنے بیوی بچوں کو اچھی زندگی دینے کے لئے
سعودی عرب چلا گیا وہ وہاں مشقتیں جھیل رہا تھا اور سیما یہاں موبائل پر پب
جی گیم کھیل رہی تھی اور کھیل کھیل میں اس کی دوستی ہوئی بھی تو کس سے ،
ایک ہندو نوجوان سے ۔ پھر محبت بھی ہو گئی سیما برائے نام پڑھی لکھی ہونے
پر بھی وہ سب کچھ کر گزری جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ وہ دبئی گئی وہاں سے
نیپال میں وہ اس لڑکے سے ملی اپنا مذہب چھوڑا اور ہندو مذہب اختیار کر کے
اسی کی رسومات کے مطابق اُس سے شادی کر لی ۔ اور مبینہ طور پر واپس آ کر
کراچی میں اپنے شوہر کی پردیس کی کمائی سے خریدا گیا گھر فروخت کیا اور
اپنے چاروں بچوں کو لے کر ایکبار پھر براستہ دبئی نیپال پہنچی با جماعت
ڈنکی لگانے کا عزم لے کر اور غیر قانونی طریقے سے بھارت کا بارڈر پار کیا ۔
گرفتار ہوئی جیل بھی کاٹی اور تھانے کچہری کے چکر بھی ۔ اس کے سابقہ شوہر
نے مقدمات دائر کیے بچوں کی تحویل کے لئے قانونی جنگ لڑی مگر سب بے سود ہی
رہا ۔ جیت سیما کی ہی ہوئی کہ وہ آج ایک بھارتی گاؤں میں اپنے بچوں سمیت
بےحد خوشگوار و خوش باش زندگی بسر کر رہی ہے اور اپنے روز مرہ کے معمولات
کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتی رہتی ہے ابھی پچھلے ماہ اُس کے ہاں ایک
بیٹی کی بھی پیدائش ہو گئی ہے ۔ اللہ رحم کرے پتہ نہیں ان بچوں کا کیا
مستقبل ہو گا خصوصاً مسلمان باپ کی بیٹی کے تحفظ کی کیا ضمانت ہے ۔ آنے
والے دنوں میں پردہء غیب سے کیا ظہور پذیر ہو گا بھارتی نیٹ صارفین کی
اکثریت اس سے نفرت اور ملامت کا اظہار کرتی نظر آتی ہے ۔ اور پاکستان سے تو
ظاہر ہے کہ وہ اپنی ساری کشتیاں جلا کر گئی ہے واپسی کا کوئی دروازہ اُس نے
کُھلا نہیں چھوڑا ہے ۔ وقت بتائے گا کہ اس نادان عورت نے کتنا گھاٹے کا
سودا کیا ہے ۔
چند روز پہلے سیما اپنی ایک وڈیو میں کہہ رہی تھی کہ پاکستان میں ہمیں نہ
اچھا کھانا ملتا تھا نہ اچھا کپڑا ۔ چلو مان لیا وہ تو تمہیں تمہارے باپ کے
گھر میں بھی نہیں ملا ہو گا مگر تمہارے غریب محنت کش شوہر نے تمہیں ایک
ایسا اچھا فون تو دلا دیا تھا جس پر تم کُھل کر کھیلیں اگر یہ فون اور انٹر
نیٹ کنکشن تمہیں نصیب نہ ہوا ہوتا تو تم کبھی اپنے محنتی اور رزق حلال
کمانے والے شوہر کو دھوکا نہیں دے سکتی تھیں اُس کی آنکھوں میں دھول
جھونکتے ہوئے ذرا لاج نہ آئی؟ ایک غیر مسلم عاشق کے چکر میں پڑ کر اس عورت
نے وفا و حیا کی ساری حدیں پار کر لیں اور اُن تمام صابر و شاکر عورتوں کی
ساکھ پر ایک سوالیہ نشان بن گئی جن کے شوہر روزی روٹی اور اپنے خاندان کے
سکھ سکون کے لئے پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں ۔ سمجھ میں نہیں
آتا کہ اس عورت کا خاوند اس کی ان تمام سرگرمیوں سے کیسے بےخبر رہا؟ کیسے
مینیج ہوا یہ سب کچھ ، بیرون ملک کے فضائی سفر اور وہاں قیام پھر مکان کی
فروخت کیونکر ممکن ہوئی ۔ وڈیو کال کے دور دورے میں اب تو کسی کو بھی کوئی
چکر دینا آسان نہیں رہا مگر اس شاطر عورت نے پورے سماج کو چکرا کے رکھ دیا
۔
بغرض بہتر روزگار دیار غیر میں محنت مزدوری کرنے والوں کی کہانی میں ایک
قدر ، مشترک ہوتی ہے اکثریت نے سب کا بھلا کرتے کرتے خود اپنا بہت نقصان کر
لیا ہوتا ہے ۔ آخر میں سبھی ان سے نا خوش و شاکی نظر آتے ہیں کوئی ان کا
شکر گزار نہیں ہوتا ۔ یہ بیچارے اپنی بیوی بچوں کو مشترکہ نظام میں رکھیں
تو وہ طرح طرح سے استحصال کا شکار ہوتے ہیں اور اگر اُنہیں جوائنٹ کے جہنم
سے پرے ان کی اپنی جنت ارینج کر دیں تو پھر کوئی سیما جیسی گمراہ عورت سب
اقدار و اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتی ہے آخر یہ غریب الوطن جائیں تو کہاں
جائیں ۔ اس پُر فتن دور میں بہتر تو یہی ہے کہ روکھی سوکھی کھائیں مگر ساتھ
رہیں مگر مادیت پرستی خواہشات کے غلبے قناعت سے محرومی اور مسابقت کے جنون
نے ایک مہذب و متوازن طرز معاشرت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے ۔
|