طلسمِ زر پرستی یعنی ( کرپشن) — یہ لفظ محض چند حروف کا
مجموعہ نہیں، بلکہ ایک ایسی بےرحم صداقت ہے، جو کسی گلی کوچے، کسی ایوانِ
اقتدار یا کسی ادارے کی چاردیواری سے منسلک نہیں رہتی۔ یہ وہ ناسور ہے جو
انسان کے باطن میں جنم لیتا ہے، ضمیر کو خاموش کرتا ہے، اور شعور کی شمع
بجھا دیتا ہے۔
بدعنوانی، بظاہر ایک مالی یا قانونی جرم سہی، مگر حقیقت میں یہ ایک فکری
زوال ہے — ایسا زوال، جو انسان کو حق و ناحق کی تمیز سے محروم کر دیتا ہے۔
یہ اخلاق کی چادر کو اس قدر تار تار کر دیتا ہے کہ آدمی عہدے، دولت، تعلق
یا فائدے کی کشش میں اپنی ہی ذات سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔
برٹرینڈ رسل کی صدائے فکر آج بھی گونجتی ہے:
"اخلاق جب تک مذہب کے خوف سے آزاد نہ ہو، وہ محض ایک لباس ہے، کردار نہیں۔"
ہم نے بدعنوانی کو ایک "نظامی سچ" بنا دیا ہے — ایسا سچ، جو ہر دوسرے فرد
کے ساتھ جینے کا جواز بن چکا ہے۔ جیسے کوئی ملازم کہتا ہے: "سب کرتے ہیں،
میں کیوں نہ کروں؟"
اور یہ جملہ — بظاہر سادہ، مگر درحقیقت، ایک پوری نسل کی تربیت کا ماتم ہے۔
ژاں پال سارتر کا کہنا ہے:
"انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، مگر وہ خود اپنے ہر انتخاب کا قیدی ہوتا ہے۔"
اور ہم نے یہ قید خود چنی ہے — آسانیوں، مفادات اور اندھی روایتوں کے اسیر
ہو کر۔
اس معاشرے میں نہ تو رشوت ایک استثنا ہے، نہ ہی جھوٹ۔ بلکہ یہ سب کچھ
روزمرہ کا معمول ہے — جیسے سانس لینا، جیسے چلتے پھرتے سلام کرنا۔ اس
معمولی پن نے بدعنوانی کو وہ "معاشرتی قبولیت" دے دی ہے، جو اسے جرم سے
زیادہ، روایت بنا دیتی ہے۔
نیٹشے کی آواز سنیں:
"جس وقت سچ کہنے والا مضحکہ بنے، سمجھ لو کہ سماج مر چکا ہے۔"
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے سچ بولنے والوں کو پاگل، اور ضمیر کی بات کرنے
والوں کو ناکام سمجھنا شروع کر دیا ہے۔
ایک استاد، جو نمبر بیچتا ہے —
ایک افسر، جو بغیر لفافے کے فائل نہیں ہلاتا —
ایک ڈاکٹر، جو فیس دیکھ کر تیمار داری کرتا ہے —
یہ سب کرپشن کے خفیہ سپاہی ہیں۔ اور ہم سب، اس لشکر کے خاموش ہمنوا۔
کارل پوپر کی بات دل کو چھو لیتی ہے:
"تنقید سے خوف کھانے والا معاشرہ، خود اپنے ہی زوال کی بنیاد رکھتا ہے۔"
ہم نے تنقید کو گستاخی اور سوال کو بغاوت سمجھ لیا ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے
جہاں کرپشن کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہیں۔
طلسمِ زر پرستی — یہ محض دولت کی محبت نہیں، بلکہ عقل کی شکست اور احساس کی
موت ہے۔
کیا ہم کبھی یہ سوال خود سے کریں گے:
"کیا میری سہولت، کسی اور کی محرومی کا نام ہے؟"
کیا ہم اپنے فائدے سے نکل کر کبھی اجتماعی فلاح کا سوچیں گے؟
اگر ہم نے سوچنا شروع کیا —
اگر ہم نے سچ بولنا شروع کیا —
اگر ہم نے صرف "جینا" نہیں بلکہ "ذمہ داری سے جینا" شروع کیا —
تو شاید، یہ طلسم ٹوٹ جائے۔
ورنہ ہم سونے کے بتوں کو پوجتے رہیں گے —
اور سچائی، صرف کتابوں میں دفن ہوتی رہے گی۔
|