انسان کی سوسالہ منصوبہ بندی میں نہیں ہے توفقط موت کی
منصوبہ بندی نہیں ہے۔زندگی میں جدوجہدکامقصد بڑے بڑے محلات بنانا،بچوں
کیلئے وراثت میں خوب ساری جائیداد چھوڑجانے کی فکرمیں زندگی گزاردینے والے
جدیددورکے انسان کو نہیں یاد توقبریاد نہیں ہے۔کہتے ہیں قبرمیں نیک اعمال
کام آئیں گئے۔ضرورآئیں گے پراس سے پہلے قبرکاانتظام توکرلیناچاہئے۔ملک
بھرکے قبرستانوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے نئی قبروں کیلئے جگہ ختم ہوچکی
ہے۔دین اسلام کا تصور یہ ہے کہ جیسے زندگی میں انسان کا احترام کرنا واجب
ہے اسی طرح موت کے بعد بھی اس کا احترام واجب ہے۔افسوس صد افسوس کہ مسلم
آبادیوں میں حالت یہ ہوچکی ہے کہ نئی قبرکھودتے وقت زیرزمین دوسے تین پرانی
قبریں نکل آتی ہیں۔کبھی ہڈیاں توکبھی پہلے سے دفن میت کے کفن کاکپڑانئی میت
کاشریک قبر(روم میٹ)بن جاتاہے ۔شہرلاہورکی آبادی ہزاروں سے لاکھوں
اورلاکھوں سے کروڑوں تک پہنچ چکی ہے،ہرطرف بلندبالاعمارتیں اورنئی آبادیاں
قائم ہوچکی ہیں۔
پاکستان کی کل آبادی24کروڑسے زائد نفوس پر مشتمل ہے، جہاں شرح اموات 5.6
فیصدہے، ملک میں ایک ہزار نئی زندگیاں شروع ہونے پر 56 افراد کی زندگی
اختتام کو پہنچتی ہے،یوں تو شرح موت شرح پیدائش سے بہت کم ہے پرجس حساب سے
ملک کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اس لحاظ سے مرنے والوں کی تعداد بھی
بہت زیادہ ہے۔ ہماری 95 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جبکہ اقلیتوں میں
بھی زیادہ تعداد عیسائیوں کی ہے، یوں کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی 99 فیصد
آبادی فوت شدگان کو دفن کرتے ہیں۔ انسانوں کے جم غفیر کیلئے قبرستان میں
کمی یا جگہوں کی قلت گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھر
رہا ہے، خاص طور پر بڑے شہروں میں جہاں مردوں کو دفنانے کی خاص جگہیں مختص
ہیں وہاں آج پاؤں رکھنے کو بھی جگہ نہیں بچی۔
لاہور پاکستان کا دوسر بڑا شہر ہے، ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر
میں قبرستانوں کے مسائل دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں، میانی صاحب قبرستان
لاہور کا سب سے بڑا قبرستان ہے، شہرکے وسط میں واقع اس قبرستان کی ابتدا
مغل عہد سے ہوئی جو اسے اس خطے کا قدیم ترین قبرستان بناتی ہے، یہ قبرستان
(149 ایکڑ) پر محیط ہے، جس میں تقریباً 300000 قبروں کی گنجائش ہے، یہ
قبرستان میانی صاحب قبرستان کمیٹی کے زیر انتظام ہے، جسکا کہنا ہے کہ
قبرستان کو کئی سالوں سے نئی تدفین کے لئے جگہ کی شدید قلت کا سامنا ہے اور
اب تقریباً گنجائش ختم ہو چکی ہے، کمیٹی کے مطابق اس قبرستان میں ایک بڑا
مسئلہ غیر قانونی قبضے کا ہے، 2009 میں حکومت پنجاب نے اس قبرستان کی
غیرقانونی طور پر قبضہ کی گئی جگہ کو بحال کرنے کے لئے انسداد تجاوزات مہم
شروع کی تھی پر کئی سالوں سے دوبارہ یہاں قبضہ مافیہ سر گرم ہے۔یعنی
حکومتیں اورشہری قبرستان کی زمین پرغیرقانونی قبضے سے لاعلم تونہیں البتہ
لاتعلق ضرورہوچکے ہیں۔
شہرلاہورکے گردونواح میں رہائشی سکیموں کاجال بچھ چکاہے ۔زیادہ ترسکیموں
میں قبرستان کیلئے زمین مختص نہیں کی گئی جس کی وجہ سے قیام پاکستان سے قبل
سے موجودپرانے قبرستان تیزی کے ساتھ پرہوچکے ہیں۔
کچھ ایساہی حال لاہورکے علاقہ کاہنہ نوکے قبرستانوں کابھی ہے جہاں کئی
سالوں سے نئی قبروں کی گنجائش ختم ہوچکی ہے،لوگ اپنے پیاروں کوپرانی قبریں
کھودکرپہلے سے دفن میت کی باقیات کے ساتھ دفن کرنے پرمجبورہوچکے ہیں۔کاہنہ
نو کے اردگرد لاتعدادنئی آبادیوں اوررہائشی سکیموں میں قبرستان کیلئے جگہ
مختص نہ کرناایک بڑااورسنگین مسئلہ ہے جبکہ قدیم قبرستانوں کی زمین
پرشہریوں کاقبضہ بھی بہت بڑامسئلہ ہے۔
چندروزقبل مرکزی پریس کلب کاہنہ میں سینئرصحافی سید زاہدحسین،عمرشفیق
ملک،سیدساجد حسین،سجادعلی شاکراورسماجی ورکر ملک عبدالستارنے پریس کانفرنس
کرتے ہوئے بتایاکہ کاہنہ اور اس کے گرد و نواح میں گزشتہ دو دہائیوں کے
دوران ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو ا ۔ جن میں
دیگربنیادی سہولیات کے فقدان کے ساتھ ساتھ اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام
سوسائٹیوں میں سے کسی نے بھی قبرستان کے لیے جگہ مختص نہیں کی،کاہنہ
وگردونواح میں نئی اورپرانی آبادی میں بے پناہ اضافے کے حساب سے قبرستان نہ
ہونے کے برابرہیں ۔ ہاؤسنگ سوسائٹی مالکا ن کی جانب سے قبرستان کیلئے زمین
مختص نہ کرنانہ صرف انسانی،مذہبی بلکہ قانونی جرم بھی ہے۔
ملک عبدالستار کامزیدکہنا تھا کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس سنگین معاملے
پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حکومت فوری طور پرایسی سوسائٹیوں کے خلاف
سخت کارروائی کرے جن میں قبرستان کیلئے زمین مختص نہ کرکے قانون کی
شدیدخلاف ورزی کی گئی ہے۔مزیدیہ کہ کاہنہ اورگردونواح میں قائم نئی پرانی
آبادیوں اوررہائشی سوسائٹیوں میں کہیں مناسب پارکنگ، کھیل کے میدان اور
سکول جیسی بنیادی سہولیات کابھی فقدان ہے۔
راقم چند سال قبل بھی اس مسئلے پرلکھ چکاہے ،کچاشہزادہ روڑکاہنہ نوپرواقع
جٹھولاں والے قبرستان کے متعلق بتایاجاتاہے کہ یہ قبرستان قیام پاکستان سے
پہلے سے قائم ہے جس کارقبہ کبھی سینکڑوں ایکڑپرمحیط ہواکرتاتھاجبکہ موجودہ
قبرستان چندایکڑتک سکڑچکاہے قبرستان کی دیگرزمین پرکئی دہائیوں سے زندہ
انسانوں کاقبضہ قائم ہوچکاہے۔کاہنہ کی آبادی بڑھنے سے شہر کے قدیم جٹھولاں
والاقبرستان،دوپ سڑی قبرستان،کچوانہ بستی قبرستان،پراناکاہنہ،پاڑواں
تھیں،گجومتہ قبرستان سمیت تمام قبرستانوں کے اندر نئی قبروں کیلئے جگہ ختم
ہوچکی ہے جبکہ نئی آبادیوں کے اندر کہیں کسی مقام پربھی قبرستان کیلئے زمین
مختص نہیں کی گئی۔
قبرستانوں میں ختم ہوچکی گنجائش کے حوالے سے اقدامات اُٹھاناصرف حکومت ہی
کاکام نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اکیسویں
صدی میں پینے کا صاف پانی،صحت و صفائی ،تعلیم وتربیت اور بہتر سیوریج سسٹم
میسر نہیں ہے وہیں مرنے کے بعد دفنانے کی جگہ بھی میسر نہیں رہی۔
اہل کاہنہ نے وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نوازسے مطالبہ کیاہے کہ فوری
طورپر قبرستانوں کی زمینیں قبضہ مافیاسے وگزارکروائی جائے،پہلے سے قائم شدہ
اورآئندہ قائم ہونے والی رہائشی سکیموں کے اندرقبرستان کیلئے زمین مختص
کروانے کیلئے فوری اقدامات اُٹھائے جائیں ۔
|